تحریر : مجید احمد جائی
انسان نے جس رفتار سے ترقی کی ہے ،اُسی رفتار سے خود کو موت کے حوالے کرنے کے نئے نئے طریقے بھی دریافت کر لئے ہیں۔پڑھے لکھے لوگ،عقل و شعوررکھنے والے بھی حالات سے دل برداشتہ ہو کر خود کشی کرنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔کوئی غربت سے تنگ آکر موت کو گلے لگا رہا ہے تو کوئی ریل گاڑی کے نیچے آکر ٹکڑے ٹکڑے ہوجا نا چاہتا ہے۔بے بسی کی زندگی جینے سے موت کو گلے لگانا آسان لگتا ہے ۔”خود کشی” زیادہ تر غریب طبقے میں ہو رہی ہیں۔گھریلو ناچاقی،میاں بیوی کے جھگڑے،پسند کی شادی ،نوکری کانہ ملنا،یا نوکری پر بحال نہ ہونا،ان کی وجوہات کے پیش نظرلوگ خود کشی کر لیتے ہیں۔نوجوان طبقہ ڈگریاں لے کر بھی نوکری کے لئے مارے مارے پھرتے ہیں لیکن نوکریاں میرٹ پر نہیں،رشوت پر،ریفرنس پر ملتی ہیں ،جس کی استطاعت غریب گھرانے کے نوجوان نہیں رکھتے،آخر دل برداشتہ ہوکر یا تو ڈکیٹ بن جاتے ہیں یا پھر خود کشی کر لیتے ہیں۔
غربت،مہنگائی،رشوت خوری،کرپشن نے خود کشی کو طول دیا ہے۔جو چالاک ہے وہ اعلی عہدوں پر پہنچ رہا ہے اور جو سادہ لوح ہیںوہ تنگ آکر خود کشی کر رہے ہیں۔پاکستان میں خود کشی کی شرح روز بروز بڑھ رہی ہے۔اور اگر جنوبی پنجاب کی بات کی جائے تو آئے روز یہاں خودکشی کے واقعات بڑھ رہے ہیں۔ایک تو حکومت کی طرف سے ناانصافیاں ہیں اور دوسرا جاگیردارنہ نظام نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے۔ انصاف کا نہ ملنا،بھوک و فلاس ،خود کشی کی سب سے بڑی وجہ ہے اور آج کل ”کالا پتھر”نے ہر طرف آگ لگائی ہوئی ہے۔
ہاں جی کالا پتھرلوگ پی رہے ہیں ۔آپ کیوں حیران ہو رہے ہیں کہ پتھر پیا یا بھی جاتا ہے۔بالکل جی۔۔۔۔۔کالا پتھر،عورتیں یا وہ بوڑھے مرد جو چالیس ،پچاس سال کی عمر میں جوان نظر آنا چاہتے ہیں،اپنے سفید بالوں کو کالا کرنے کے لئے پیس کر استعمال کرتے ہیں ۔یہاں تک تو بات ٹھیک تھی۔لیکن اب یہی پتھر زیست کا دشمن بن گیا ہے۔کالاپتھر زندگی کے گل بجھا رہا ہے۔
یہ انڈین پتھر ہے اور بھارت سے پاکستان آتا ہے۔پاکستان بننے سے قبل سنارے چار سکھیوں کو چاندی بنانے کے لئے استعمال کرتے تھے،ان سکھیوں میں کالا،سفید،رزد اور گلابی پتھر شامل تھے۔اب نہ وہ سنارے رہے اور نہ چاندی بنانے کے وہ طریقے رہے۔کالا پتھر باآسانی دستیاب ہے اور باقی تینوں پتھر ملتے ہی نہیں۔کالا پتھر نہ تو حکمت میں استعمال ہوتا ہے نہ ہی کسی قسم کی ادویات کی تیاری میں ۔۔۔مگر افسوس اب یہ پتھر جان لینے کے لئے استعمال ہو رہا ہے اور لائسنس ہولڈز کے پاس ہوتا ہے۔ کالا پتھر پہلے سفید ہوتا ہے لیکن پانی میں ڈالتے ہی یہ اپنے اصل رنگ میں آجاتا ہے۔کالا پتھر سے پینے سے چند گھنٹوں میں جگر ،گردے،دل ختم اور سانس بند ہو جاتی ہے۔بینائی ختم ہو نے لگتی ہے اور سانس کی نالی سکڑنے لگتی ہے۔کالا پتھر پینے والے کو ایک گھنٹے کے اندر ہسپتال نہ لایا جائے تو موت واقع ہو جاتی ہے۔
کالے پتھر میں پیرامنیتائل ڈائمیائن ہوتا ہے۔کالا پتھر خطرناک زہر ہے مگر حیرت ہے یہ باآسانی دُکانوں،پنساریوں سے سستے داموں مل بھی جاتا ہے۔کھلے عام اِس کی فروخت ہو رہی ہے اور ضلعی انتظامیہ خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔جنوبی پنجاب میں 122لوگ کالاپتھر پینے سے زندگی کا چراغ گل کر چکے ہیں۔اور یہ سلسلہ جاری و ساری ہے۔
ضلعی انتظامیہ کو اِس سر عام فروخت ہونے والے زہر کے خلاف کاروائی کرنی چاہیے ۔سرکاری اور نجی سطح پر لوگوں میں اِس کے نقصانات بارے بریف کر نا چاہیے۔سکولوں ،کالجوں ،یونیورسٹیوں میں نوجوانوں کو اس کی روک تھام بارے بریف کرنے کی ضرورت ہے۔حکومت اور عوام کو مل کر اس زیست کے دشمن کے خلاف کاروائی کرنی چاہیے تاکہ خود کشی کرنے کا نیا سلسلہ ختم ہو سکے ۔اگر بروقت اِس پر قابو نہ پایا گیا تو کئی گھرانوں کے چراغ گل ہو جائیں گے۔
تحریر : مجید احمد جائی