لاہور: پاکستان سپر لیگ کی اہمیت بارے اب کوئی شک و شبہ نہیں ہے۔ ہر گذرتے دن کے ساتھ اسکی مقبولیت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ پی ایس ایل ہمارے لیے ایک ایسا شاندار ایونٹ ہے جس کے ذریعے ہم دنیا میں اپنی ثقافت و روایات، ملک کا پرامن چہرہ، مہمان نوازی، کھیل سے محبت اور تہذیب بہترین انداز میں دنیا کے سامنے پیش کر رہے ہیں۔
ملک میں امن و امان کی بتدریج بحالی کے بعد آج بیرونی دنیا کا پاکستان پر اعتماد بحال ہو رہا ہے، غیر ملکی کھلاڑی و سیاح اور دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد پاکستان کی طرف سفر کر رہے ہیں تو اس میں بہت بڑا کردار پاکستان سپر لیگ کا ہے۔ پی ایس ایل میچز کے ذریعے ہمیں بیرونی دنیا کو قائل کرنے میں آسانی ہوئی ہے۔ مجموعی طور پر ہم کھیل ہی کھیل میں دنیا سے جڑ رہے ہیں اور کھیل ہی کھیل میں پاکستان کو دنیا سے تنہا کرنے کی تمام سازشوں اور کوششوں کو بھی ناکام بناتے چلے جا رہے ہیں۔ کرکٹ ہماری بہت بڑی طاقت ہے، پاکستان دشمنوں نے گزشتہ برسوں میں اسے ختم کرنے کی ہر ممکن کوشش کی ہے لیکن مشکل حالات کے باوجود یہ کھیل اب بھی تیزی سے نئی منزلوں کی طرف بڑھ رہا ہے۔ پاکستان سپر لیگ کے بانی چیئرمین نجم سیٹھی نے حقیقی معنوں میں تاریخی اور ملک دوست کام کیا ہے۔ موجودہ انتظامیہ پر پی ایس ایل کو مزید بہتر بنانے کے حوالے سے بہت بھاری ذمہ داری ہے۔ دبئی میں بہت چیزیں چھپ جاتی ہیں اور بہت سے معاملات میں ذمہ داری کسی اور پر ہوتی ہے جب لیگ کے مقابلے پاکستان میں ہونگے تو تمام تر ذمہ داری پاکستان کرکٹ بورڈ پر ہوگی۔
پی ایس ایل کے میچز مرحلہ وار پاکستان آ رہے ہیں۔ وزیراعظم پاکستان عمران خان کا وڑن ہے کہ لیگ کے میچز جلد مکمل طور پر اپنے میدانوں پر کھیلے جائیں ان حالات میں پی سی بی کو اپنی تیاریاں تیز کرنے کی ضرورت ہے۔پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان اور نامور کمنٹیٹر رمیض راجہ نے کہا کہ جس طرح وزیراعظم پاکستان عمران خان کی قیادت کر رہے ہیں اور بین الاقوامی سطح پر ہمارا مقام بڑھ رہا ہے۔ بین الاقوامی صورتحال کے مطابق بینیفٹ آف ڈاوٹ اور ایڈوانٹیج بھی ملتا جائیگا۔ پی ایس ایل کے پاکستان جانے کے لیے بڑی مثبت چیزیں سامنے آ رہی ہیں اور اسکے امکانات بڑھتے جا رہے ہیں۔ اتنے غیر ملکی کھلاڑی پاکستان سپر لیگ میں آ کر کھیلتے ہیں تو اس سے ہمارا کیس بہت مضبوط ہوتا ہے اس عمل سے دنیا میں ہمارا بہت اچھا اور مثبت پیغام جاتا ہے۔ پی ایس ایل کے دوران ہمارے کرکٹرز غیر ملکی کھلاڑیوں کے ساتھ ڈگ آؤٹ میں بیٹھتے ہیں تو انہیں بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملتا ہے، انہیں یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارا مائنڈ سیٹ کیا ہے، انہیں اپنی خامیوں کا اندازہ ہوتا ہے،انہیں دور کرنے کا موقع ملتا ہے۔ جیسے جیسے وقت گذرے گا بہتری آتی جائے گی۔پاکستان سپر لیگ ہمارا خوش کن چہرہ ہے اور اس پراڈکٹ میں بہت طاقت ہے، جب یہ لیگ مکمل طور پر پاکستان آئے گی تو اسکا حقیقی رنگ دنیا کے سامنے آئے گا۔ ہوم اور اوے کی بنیاد پر میچز کھیلے جائیں گے اور پاکستان کے شائقین کرکٹ کو اپنے میدانوں پر عالمی شہرت یافتہ کھلاڑیوں کو دیکھنے کا موقع ملے گا۔ ہمارا باؤلنگ ٹیلنٹ ہمیشہ سے بہت اچھا رہا ہے
پاکستان سپر لیگ میں بیٹنگ ٹیلنٹ کا سامنے نہ آنا پریشان کن ہے۔ لیگ کی مقبولیت میں اضافے کے لیے اچھا بیٹنگ ٹیلنٹ سامنے آنا بہت ضروری ہے کیونکہ بڑے ٹوٹل ٹونٹی ٹونٹی کرکٹ کا خاصہ ہیں، شائقین جارحانہ کرکٹ اور چوکوں چھکوں سے محظوظ ہوتے ہیں، کھیل کے ساتھ ساتھ انہیں اچھی تفریح اور جذبات کے اظہار کا موقع ملتا ہے۔ ان پہلوؤں کو سامنے رکھتے ہوئے اچھے بلیبازوں کا سامنے آنا بہت ضروری ہے۔ بلے بازوں کو اس سطح کی کرکٹ کے لیے تیار کرنا مشکل مرحلہ ہے اسمیں بہت چیزیں بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اپنے بنیادی ڈھانچے کو مضبوط بنانا ہے۔ پچز کا معیار بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔ اچھی پچز تیار کیے بغیر اچھے بلے باز تیار نہیں کیے جا سکتے۔ بیٹنگ ٹیلنٹ کو نکھارنے کے لیے ہر سطح پر اچھی پچز کا ہونا انتہائی اہم ہے۔ ہمیں بلے بازوں کی بنیادی چیزوں پر کام کرنا ہے، انہیں تکنیکی طور پر بہتر بنانے پر کرنا پڑے گا۔ نچلی سطح پر کوچنگ بہت اہم شعبہ ہے ہمیں یہ دیکھنا ہو گا کہ بچوں کو نچلی سطح پر کیا سکھایا جا رہا ہے۔ انکی کوچنگ کس انداز میں کی جا رہی ہے۔اچھے بلے بازوں کی تیاری ایک لمبا کام ہے جس پر بہت وقت لگے گا لیکن اسے بہتر حکمت عملی کے ساتھ کیے بغیر کوئی راستہ نہیں ہے۔ چوتھے ایڈیشن میں بلے باز عمر صدیق نے متاثر کیا ہے، مجھے عمر صدیق نے متاثر کیا ہے ایک دو اور بلیباز بھی اچھے لگے ہیں لیکن انکے لیے منزل ابھی دور ہے۔ باؤلنگ میں تیز گیند باز موسی اور حسنین نے اچھی اور تیز باؤلنگ کی ہے تاہم ان دونوں کو وقت لگے گا۔ سپن باؤلنگ میں ابتسام باصلاحیت ہے، اسکی باؤلنگ میں ورائٹی ہے،وقت کے ساتھ ساتھ بہتر ہوتا جائے گا۔ لیفٹ آرم سپنر عمر خان مضبوط ٹمپرامنٹ والا گیند باز اور اچھا باؤلر ہے۔ متحدہ عرب امارات میں ہونیوالے میچز میں شائقین کی کم تعداد پریشان کن ہے، لوگوں کو اس کے ساتھ جڑنا ہو گا، یہاں رہنے والے پاکستانیوں کو اسے اپنانا پڑے گا، شائقین کی کمی سے حقیقی جوش و جذبے کی کمی محسوس ہوتی ہے۔ اس سلسلہ میں اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان سپر لیگ کے چوتھے ایڈیشن میں کوئی نئی چیز نظر نہیں آئی کیونکہ اسکا بنیادی ڈھانچہ بن چکا ہے۔ لیکن بہتری کی گنجائش موجود ہے اور اس پر کام کرنے کی ضرورت بھی ہے۔ جب تک لیگ مکمل طور پر پاکستان نہیں آ جاتی اس وقت تک سٹیڈیم بھرنے کے لیے ٹور آپریٹرز کو ساتھ ملانے اور پی ایس ایل میں مزید پروفیشنل ازم لانے کی ضرورت ہے۔ پی ایس ایل میں امپائرنگ کا معیار بہت خراب ہے۔ اس میں بہتری کے لیے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ امپائر فیصلوں میں بہت وقت لیتے ہیں، بعض اوقات ٹیمیں مقررہ وقت میں اوورز مکمل نہیں کر پاتیں۔ امپائرز کو غلطیوں پر کوئی جرمانہ نہیں ہوتا نہ ہی میٹنگ کر کے انہیں کچھ بتایا گیا ہے۔ امپائرنگ کے معیار کو بہتر بنانا ضروری ہے۔