رپورٹ ؛اصغر علی مبارک سے
پاکستان سپر لیگ کا پہلا مرحلہ اپنے اختتام کو پہنچا اور فیصلہ ہوگیا کہ پلے-آف میں کون کون سی ٹیمیں مدمقابل ہوں گی۔ ایک مرتبہ پھر اسلام آباد یونائیٹڈ، کراچی کنگز، پشاور زلمی اور کوئٹہ گلیڈی ایٹرز اگلے مرحلے میں پہنچی ہیں جبکہ پچھلے سال کی طرح لاہور قلندرز نے سب سے پہلے واپسی کی راہ لی، ساتھ ہی نو آموز ملتان سلطانز بھی، جس نے آغاز تو کامیابیوں کے ساتھ کیا تھا مگر پھر وہ یہ سلسلہ جاری نہ رکھ سکی اور آخری دن پشاور اور کراچی کی کامیابیوں کے ساتھ ہی اُن کے باہر ہونے کا پروانہ بھی آگیا۔22 فروری سے 16 مارچ تک کھیلے گئے پہلے مرحلے میں کئی شاندار مقابلے دیکھے گئے۔ ہم نے اس دوران سنسنی خیزی اور ہیجان انگیزی کو عروج پر دیکھا۔ چوکوں اور چھکوں کی برسات بھی دیکھی اور آخری گیند پر چھکے کے ذریعے فتوحات بھی۔ وکٹیں بکھرتے اور حوصلے ٹوٹتے ہوئے بھی ملاحظہ کیے، لیکن پی ایس ایل 3 کے کچھ پہلو ایسے بھی تھے جو کسی اسکور کارڈ یا ریکارڈ بک میں نہیں جائیں گے بلکہ وہ صرف ذہنوں میں تازہ رہیں گے۔ پلے-آف شروع ہونے سے پہلے ان دلچسپ یادوں کو پھر تازہ کرتے ہیں۔ سب سے پہلے تیسرے سیزن کا سب سے بڑا راز!
ڈین جونز اسلام آباد یونائیٹڈ کے کوچ ہیں، وہی ٹیم جس نے رواں سیزن میں سب سے زیادہ فتوحات حاصل کیں بلکہ مسلسل 6 مقابلے جیت کر اپنی دھاک بھی بٹھائی۔ جب ہمیں دیگر تمام ٹیموں کے کوچز ٹریننگ کٹ میں نظر آتے، تب بیشتر مقابلوں میں ڈین جونز کو کوٹ پہنے، ٹائی لگائے دیکھا اور اُن کے ہاتھ میں نظر آتی ایک سرخ ڈائری! ناظرین تو خیر ایک طرف، مائیکل سلیٹر جیسے کمنٹیٹر کے ذہن میں بھی سوالات گردش کر رہے تھے کہ آخر اس ڈائری میں ایسا کیا ہے کہ اسلام آباد ایک کے بعد دوسرا مقابلہ جیتتا چلا جا رہا ہے؟ایک بار تو وہ ڈائری ’چُرانے‘ میں کامیاب بھی ہوگئے لیکن ڈین جونز سخت ناراض ہوئے اور اپنی ڈائری واپس لے لی۔ بہرحال، پہلے راؤنڈ کے آخری مقابلے میں انہوں نے ڈائری کے 2 صفحات کھول کر کیمرے کو بھی دکھائے، اُن صفحات میں کیا ہے؟ ۔کراچی اور لاہور کے مقابلے میں جذبات بالکل ویسے ہی ہوتے ہیں جیسے بین الاقوامی کرکٹ میں پاکستان اور بھارت کے۔ وہ الگ بات کہ یہاں بھی ایک ہی ٹیم کا پلڑا زیادہ بھاری رہا ہے۔ اس بار جب دونوں ٹیمیں دوسری مرتبہ مقابل آئیں تو ہمیں ایک شایانِ شان مقابلہ دیکھنے کو ملا جو سپر اوور تک گیا۔ آخری گیند پر 3 رنز کی ضرورت تھی جب عثمان شنواری کی گیند پر سہیل اختر آؤٹ ہوئے اور کراچی جیت گیا! کے نعرے لگے، اگلے مرحلے تک رسائی کی نوید سنائی گئی لیکن یہ کیا؟ ری پلے میں معلوم ہوا کہ یہ گیند تو نو-بال تھی۔ عثمان شنواری کا یہ ’بمراہ مومنٹ‘ کراچی کو بہت مہنگا پڑا کیونکہ اگلی گیند پر مقابلہ ٹائی ہوگیا اور میچ سپر اوور میں چلا گیا جہاں کراچی کو شکست ہوئی۔پی ایس ایل 3 میں جن نوجوانوں نے سب سے زیادہ متاثر کیا اُن میں سے ایک لاہور قلندرز کے شاہین آفریدی بھی تھے۔ کراچی کے خلاف اسی سپر اوور والے مقابلے میں شاہین نے آخری اوور کی دوسری گیند پر شاہد آفریدی سے چھکا کھایا لیکن اگلی ہی گیند پر انہیں کلین بولڈ بھی کردیا۔ وکٹ لینے کے بعد شاہین اپنے روایتی انداز میں فضاء میں اچھل کر جشن منانے ہی والے تھے کہ انہیں کچھ یاد آ گیا، سر جھٹکتے ہوئے اپنا ہاتھ چوما اور شاہد آفریدی کی طرف اشارہ کرکے اپنی محبت کا اظہار کیا۔ اس نوجوان باؤلر کے رویّے نے کروڑوں پاکستانی کرکٹ شائقین کے دل جیت لیے۔
ملتان سلطانز کے خلاف ہونے والے مقابلے کے بعد شاہد آفریدی نے نوجوان سیف بدر سے چھکا کھایا اور اگلی ہی گیند پر انہیں آؤٹ کرکے میدان سے باہر بھیجنے کا اشارہ کیا تھا۔ جس پر انہیں خاصی تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا اور نتیجہ ’لالا‘ کی جانب سے معافی کی صورت میں نکلا۔ جب راؤنڈ مرحلے کا آخری مقابلہ ہوا تو شاہد آفریدی نے اسلام آباد یونائیٹڈ کے کپتان مصباح الحق کو کلین بولڈ کردیا۔ وہ بھی جشن منانے گئے، لیکن یکدم رک گئے اور یوں ایک لیجنڈ نے دوسرے لیجنڈ کا احترام کرکے دکھایا۔لاہور نے مسلسل 6 شکستیں کھائیں اور اس کے بعد پے در پے 3 فتوحات حاصل کیں۔ کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے خلاف کامیابی سب سے حیران کن تھی لیکن اسی مقابلے نے دنیا کو یہ بھی دکھایا کہ قلندروں کے ڈریسنگ روم کا ماحول اصل میں کیا ہے اور یہی ان کی شکستوں کی اہم ترین وجہ بھی ہے۔سہیل خان اپنا چوتھا اور اننگز کا 19واں اوور پھینک رہے تھے۔ 3 گیندوں کے بعد فیلڈنگ میں تبدیلی کی جارہی تھی لیکن ڈیپ بیک وارڈ اسکوائر پر موجود یاسر شاہ کی توجہ کہیں اور تھی۔ بارہا آوازیں دیے جانے پر جب یاسر متوجہ نہ ہوئے تو باؤلر سہیل خان نے گیند اچھال کر ان کی طرف پھینک دی۔ وہ تو خوش قسمتی تھی کہ گیند یاسر شاہ کو لگی نہیں لیکن اس رویّے نے بہت کچھ ظاہر کردیا۔ کچھ دیر دونوں کے درمیان گرما گرمی بھی ہوئی، یاسر شاہ نے بہت غصے سے گیند واپس ان کی طرف پھینکی۔ کپتان برینڈن میک کولم درمیان میں آئے اور انہیں ٹھنڈا کیا۔ ایسا منظر شاید ہی کبھی کرکٹ میں دیکھا گیا ہو۔وہاب ریاض کی مونچھیں تیسرے سیزن کے آغاز سے ہی موضوع بنی ہوئی تھیں۔ انہیں ’دیسی مچل جانسن‘ بھی کہا گیا لیکن اپنی کارکردگی سے انہوں نے واقعی ثابت کیا کہ وہ ’مچ‘ سے کم نہیں۔ 14 وکٹوں کے ساتھ وہ پشاور کے کامیاب ترین باؤلر رہے لیکن اس پر ان کا جشن منانے کا خاص انداز بھی مقبول ہوا جب وہ کسی کھلاڑی کو آؤٹ کرکے مونچھوں پر ہاتھ پھیرتے تھے۔ لاہور قلندرز کے خلاف آخری مقابلے میں وہاب ریاض نے واحد وکٹ آغا سلمان کی لی اور آؤٹ کرتے ہی اپنی مونچھوں پر ہاتھ پھیرنا شروع ہی کیا تھا کہ نجانے کہاں سے حسن علی آگئے، ان کا ہاتھ ہٹایا اور خود ان کی مونچھوں کو تاؤ دینے لگ گئے۔پی ایس ایل 3 میں بھی سب سے پہلے لاہور باہر ہوا اور آخری روز، آخری مقابلے کے ساتھ ہی ملتان کی واپسی کے ٹکٹ بھی کٹ گئے۔ یوں پاکستان کے سب سے بڑے صوبہ پنجاب کی دونوں ٹیمیں باہر ہوگئی جس پر کسی منچلے سے پھبتی کسی کہ اب پی ایس ایل ٹرافی بھی کہہ رہی ہے کہ ’پنجاب نہیں جاؤں گی!‘