گزشتہ دنوں مناواں ٹریننگ سینٹر میں نئی تشکیل پانے والی” کاؤنٹر ٹیررازم فورس کی پاسنگ آؤٹ پریڈکے موقعے پر وزیرِاعظم پاکستان میاں”نواز شریف” ،چیف آف آرمی سٹاف جنرل ”راحیل شریف ”اور وزیرِاعلیٰ پنجاب میاں”شہباز شریف”سٹیج پرکندھے سے کندھا ملاکر بیٹھے تھے ۔جب ایک ہی جگہ پرتینوںاعلیٰ ترین ”شریف”موجود ہوں توپھر” اَنہونی” کو ”ہونی”میں بدلنا کونسا مشکل کام ہے۔دہشت گردی کے خلاف ”شریفوں”کے اِس اجتماع کو دیکھ کرہمیں بھی یقین ہوچلا ہے کہ اب دہشت گردوں کے ”کھُنے”سینکنے میںتیزی آجائے گی اور یہ”شریفانہ اجتماع”بالآخر ”بدمعاشانہ دہشت گردی”کا خاتمہ کرکے ہی دَم لے گا ۔اِس سے پہلے صرف ایک”شریف”نے دہشت گردوںکو ”وَخت”میں ڈالا ہوا تھا لیکن اب توتین تین شریف اکٹھے ہوگئے ۔ویسے بھی ”شریفوں”کی عملداری میں”بدمعاشوں”کا کیاکام ۔
کاؤنٹر ٹیررازم فورس کے قیام کاتصور تو وزیرِاعظم صاحب کے ذہن میں پہلے ہی موجود تھا لیکن اِس تصوّر کو حقیقت میںبدلنے کے لیے اُنہیں کچھ عرصہ لگ گیا۔ اُنہوں نے جب اِس فورس کے قیام کے لیے میاںشہبازشریف صاحب کوکہا تووہ فوراََ تیار ہوگئے کیونکہ سبھی جانتے ہیںکہ ہمارے خادمِ اعلیٰ کوتو ایسے ”اوکھے اوکھے”کام کرنے میںمزہ ہی بہت آتاہے ۔اُنہوںنے 9 ماہ پہلے اِس فورس کے لیے نوجوانوں کا انتخاب کیااور پاک فوج کی زیرِ نگرانی ٹریننگ شروع کروا دی۔ کاؤنٹر ٹیررازم فورس کے پہلے بیچ میں405 جوان اور16 لڑکیاں شامل ہیں۔ میاں شہباز شریف صاحب کے مطابق اِس بیچ میں اکثریت ایم اے ،ایم فِل ،ڈاکٹرزاور انجینئرز اور ماہرینِ نفسیات کی ہے جواُس ناسور کو ختم کرنے کے لیے پُرعزم دکھائی دیتی ہے جو انسانیت کے نام پر بدنما داغ ہے ۔یہ سنگ دِل ،عیار ،مکار اور ابلیسیت کے علمبرداروں کا ایساگروہ ہے جو معصوم بچوں تک کو نہیں چھوڑتا ۔اُس کے نزدیک مسجد کا کوئی تقدس ہے نہ مدرسے کا۔
وہ مسجدوں، امام بارگاہوں اور سکولوں پرحملے کرکے اسے جہادکا نام دے کردینِ مبیں کو بدنام کرنے کی ناپاک کوشش کررہے ہیں۔یہ امر اب روزِروشن کی طرح عیاںہے کہ بیرونی قوتوں کے خفیہ ہاتھ اِن دہشت گردوں کی سرپرستی کررہے ہیں ۔اِن حالات میں ڈاکٹرز ،انجینئرز اوراعلیٰ تعلیم یافتہ افرادکا کاؤنٹر ٹیررازم فورس میں شامل ہونا اُن کے عزم بالجزم کی دلیل ہے اوروثوق سے کہاجاسکتاہے کہ یہ فورس انشاء اللہ پاک وطن کی مٹی کواِن دہشت گردوں کے ناپاک وجود سے پاک کردے گی ۔پاکستان میںدہشت گردی تو2007ء سے جاری ہے لیکن اِس دہشت گردی کے خلاف صرف افواجِ پاکستان ہی کارروائیاںکرتی رہی لیکن اندرونی دہشت گردی سے نپٹنے کے لیے سوائے پولیس کے کوئی فورس موجود نہیں تھی۔
پولیس کو کاؤنٹر ٹیررازم کی کوئی ٹریننگ تھی ،نہ اُس کے پاس مناسب اسلحہ اور دیگر سہولیات۔ موجودہ حکومت نے اسی کمی کو محسوس کرتے ہوئے ایسے اداروں کا قیام ضروری سمجھا جو اندرونی دہشت گردی کا خاتمہ کریں تاکہ فوج یکسو ہوکر سرحدوں کی حفاظت کرسکے۔ کاؤنٹر ٹیررازم فورس کے جوان جب پاسنگ آؤٹ کے لیے میدان میں اُترے تواُن کے چہروں پر عزمِ صمیم کی ایسی جھلک نمایاں تھی جسے دیکھ کراقبال کے ”شاہیں”کا تصور تازہ ہوگیا۔ اِن نوجوانوں کی چُستی اور پھرتی دیکھ کرہمیں یقین ہوگیا کہ اقبال کے یہ پُردَم شاہیں ہر میدان میں کامیاب ہوں گے کیونکہ
شاہیں کبھی پرواز سے تھک کر نہیں گرتا
پُر دم ہے اگر تُو تو نہیں خطرۂ افتاد
ہمیںیقین ہے کہ یہ پُرعزم جوان دہشت گردی کے سامنے سدّ ِ سکندری بن جائیں گے لیکن اِس کے لیے جس قومی یکجہتی کی ضرورت ہے ،وہ کہیں نظرنہیں آتی۔ وزیرِاعظم صاحب توکہتے ہی رہتے ہیںکہ چیلنجز سے نپٹنے کے لیے سیاسی جماعتوں کو متحد ہونا ہوگا کیونکہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے سیاسی استحکام ناگزیر ہے لیکن ہمیںیہ سیاسی استحکام کہیں نظر نہیں آتا۔ہر کسی کی اپنی اپنی ڈفلی اور اپنا اپنا راگ۔محترم عمران خاںاب بھی وہی رٹی رٹائی باتیں دہرا رہے ہیں اور جوابِ آں غزل کے طور پر وزیرِ اطلاعات جناب پرویز رشید بھی وہی کچھ کہہ رہے ہیںجسے سُن سُن کرکان پَک گئے ہیں ۔اُنہوںنے فرمایا”عمران خاں جھوٹ بولتے رہیں، ہم سچ سامنے لاتے رہیںگے ۔پاکستان کوسکون سے نہ رہنے دینا عمران خاںکی سیاست کا حصہ ہے۔
شیشے کے گھر میں بیٹھ کر دوسروں کو پتھر مارنے کی عادت اُن کو مہنگی پڑے گی ”۔ہم نے باربار عرض کیا کہ کپتان صاحب کے پاس گنوانے کوکچھ نہیں،جو نقصان ہوگا ،حکومت کاہی ہوگا لیکن ہماری کون سُنتاہے ۔کیا پرویز رشید صاحب کویہ بھی ادراک نہیںکہ ”شیشے کے گھر”میں ہمیشہ حکومت ہی ہوتی ہے، اپوزیشن نہیں۔ اپوزیشن کاکام توشیشے کے گھرکے مکینوں کو پتھر مارنا ہی ہوتاہے پھربھلا یہ پتھر مارنے کی ”عادت” خاںصاحب کوکیسے مہنگی پڑ سکتی ہے۔ ویسے صرف خاںصاحب ہی نہیں، حکومت پرتو چاروں طرف سے پتھروں کی برسات ہورہی ہے۔ خاں صاحب اگر جھوٹ بولتے ہیںتو ساراسچ پرویز رشید صاحب بھی نہیں بولتے ۔اِس باہمی چپقلش سے قوم پریشان اور سوچنے پر مجبور کہ آخرکس راہ کا انتخاب کرے کہ اِس گھور اندھیرے میں کوئی راہ دکھائی دیتی ہے نہ سجھائی۔ یہی عالم ہمارے سیاستدانوں کا ہے۔ عوام توہر پانچ سال بعدبڑے شوق سے قطار اندر قطار خوشیاں خریدنے نکلتے ہیں لیکن اُن کے ساتھ عشروںسے یہی ہوتا چلاآرہاہے کہ
کَل دھوپ کے میلے سے خریدے تھے کھلونے
جو موم کا پُتلا تھا ، گھر تک نہیں پہنچا ہے
اُن کی اُمیدیں نا اُمیدیوں اور سُکھ ،دُکھ میں ڈھلتے رہتے ہیں ۔پرویز رشید صاحب کہتے ہیںکہ پاکستان کو سکون سے نہ رہنے دیناعمران خاںکی سیاست کاحصہ ہے لیکن سچ تو یہ ہے کہ قومی مایوسی اوربے سکونی میں کچھ حصہ حکومت کابھی ہے ۔پرویز رشید صاحب سے سوال کیا جاسکتاہے کہ پونے دوسال میں حکومت نے کون سے ایسے کارنامے سرانجام دیئے ہیں جن پرفخر کیاجاسکے ؟۔سانحہ ماڈل ٹاؤن سے لے کرپٹرول کی قلت تک حماقتوں کی ایک طویل فہرست ہے جواِس حکومت کے کھاتے میں ہی جاتی ہے ۔پیپلزپارٹی کے گزشتہ دورمیں خادمِ اعلیٰ صاحب نے دوسال کے اندرلوڈشیڈنگ کے مکمل خاتمے کامتعددباراعلان کیالیکن اب ہمارے پانی بجلی کے وزیرخواجہ آصف صاحب فرماتے ہیںکہ 2018ء سے پہلے لوڈشیڈنگ کاخاتمہ ممکن نہیں۔بجا کہ تاحال حکومت پر کرپشن کاکوئی الزام نہیں لگا لیکن قوم سے تویہ وعدہ کیاگیاتھا کہ کرپشن کے مگر مچھوں کو سڑکوں پر گھسیٹا جائے گا۔ اُس وعدے کاکیا ہوا؟۔کیا قوم یہ یقین کرلے کہ
تیرے وعدے پہ جیئے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا
کہ خوشی سے مَر نہ جاتے ، اگر اعتبار ہوتا
اورحرف ِ آخریہ کہ ہمیں میاں برادران کی خلوصِ نیت پرکوئی شک ہے نہ اُن کے ”میڈ اِن پاکستان”ہونے پرلیکن اُن کا جن لوگوں نے گھیراؤ کر رکھا ہے، ہمیں اُن کی صلاحیتوں پر اعتبار ہے نہ نیتوں پر۔ کیا میاں صاحب اِس طرف بھی توجہ فرمائیں گے؟۔
تحریر : پروفیسر مظہر