تحریر: میر افسر امان
اس میں کوئی شک کی بات نہیں کہ جمہوری دور میں مسائل کا حل اسمبلی ہی ہے۔ یوڈیشنل کمیشن کے فیصلے کے بعد عمران خان صاحب نے اسمبلی میںبھر پور شرکت کا اعلان کر دیا ہے آئندہ سڑکوں پر نہ آنے اور اسمبلی میںبھرپور کردار کرنے کے فیصلے کے مطابق تحریک انصاف اسمبلی میں موجود بھی ہے۔اگر عمران خان کے ١٢٦ دن کے دھرنے اور اس کے نتائج پر تجزیہ کیا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ مجموئی طور پر پاکستان کے عوام میں الیکشن کی خرابیوں کے متعلق شعور ضرور بیدار ہوا ہے۔ گو کہ اس شعور کے عوض قوم کا کافی وقت بھی ضائع ہوا اور اس وقت کے درمیان پاکستان کی ترقی کی رفطار بھی دھیمی رہی۔
اگر بڑے کنویس میں دیکھا جائے تو اس کے بغیر کوئی چارہ بھی نہیں تھا۔کیا پاکستان کی تاریخ میں کبھی کسی حکومتی پارٹی نے سیدھے طریقے سے احتجاج کرنے والے کی بات مانی ہے۔بھٹو صاحب کے دور ہی کو دیکھ لیں قومی اتحاد کو کتنے پاپڑ بیلنے پڑے تھے تب جا کر وہ مانے تھے ۔یہ علیحدہ بات ہے کہ اس پرعمل سے پہلے ہی ڈکٹیٹر ضیا الحق نے ملک میں مارشل لا لگا دیا تھا۔ بہر حال اس جد و جہد کے بعد پاکستان کی تاریخ کا ایک بڑا یوڈینشنل کمیش ایک معاہدے کے تحت جسے ایک صدارتی آرڈینس کے ذریعے تشکیل دیا گیا، جس کے تین رکنی ٹیم کی سربرا ہی پاکستان کی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس صاحب نے کی۔ اس کمیشن نے کافی محنت کے ساتھ پاکستان کی جمہوری تاریخ کا فیصلہ دیا۔ اس فیصلے کے دور رس نتائج نکلیں گے اس کی روشنی میں پاکستان جمہوری طور پر ترقی کرے گا۔
سیاسی پارٹیاں اس فیصلے کی روشنی میں آئندہ کا لائحہ عمل طے کیا کریں گی۔ کچھ ٹی وی اینکر قانون دانوں کو پروگرام میں بلا کر اس یوڈیشنل کمیشن کی آئینی حثیت پر پروگرام کر رہے ہیں جو نامناسب ہے۔ہمار ی ان سے گزارش ہے کہ پاکستان کو آگے بڑنے دیں پیچھے کی طرف نہ دھکیلیں۔ اس سے ہٹ کر کہ اس فیصلے سے نواز لیگ کی جیت ہوئی یا تحرک انصاف کی ہار ہوئی ہے۔ اس فیصلے سے پاکستانی قوم کی جیت ہوئی ہے ۔ ملکی الیکشن کے حوالے سے اس کے سامنے معاملات کھل کر سامنے آ گئے۔ گوکہ قوم کو پہلے بھی معلوم تھا کہ الیکشن میں سیاسی پارٹیاں اور ہر امیدوار اپنے اپنے طور پر دھاندلی کرتے ہیں۔ سب کو معلوم ہے کہ ٢٠١٣ء کے الیکشن میں پیسہ پانی کی طرح بہایا گیا۔
الیکٹرونک میڈیا پر اربوں روپے اشتہار کی مد میں خرچ کیے گئے۔پرنٹ میڈیا اوردوسرے اخراجات کا حساب لگایا جائے تو الیکشن کمیشن کے مقرر کردہ اخراجات سے کئی گنا زیادہ ہوتے ہیں کیا یہ دھاندلی نہیں تو کیا ہے؟ الیکشن کمیش کے فارم پر امیدوارن نے جو اثاثے ظاہر کرتے ہیں وہ اصل اثاثوں سے میل نہیں کھاتے۔ اس میں بڑے بڑے سرمایا دار اور جاگیردار شامل ہیں ۔یہ آئین کی٦٢ ٦٣کی خلاف ورزی ہے ۔اس پر الیکشن کمیشن نے کسی کے خلاف بھی کاروائی نہیں کی؟ یہ سارے کام ٢٠١٣ء کے الیکشن میں ہوئے ۔ کراچی کے الیکشن کے لیے الیکشن کمیشن نے کہا تھا کہ ہم منصفانہ الیکشن نہیں کروا سکے۔
ملک کی تمام پارٹیوں نے کہا تھا کہ الیکشن میں دھاندلی ہوئی ہے کچھ تو یوڈیشنل کمیشن میں پیش بھی ہوئیں۔یوڈیشنل کمیشن نے کہا ہے الیکشن کمیشن ٢٠١٣ء کے الیکشن صحیح طریقے سے نہیں کرواسکا۔تحریک انصاف نے بھی یہ سبق سیکھا کہ بغیر ثبوت الزامات تو شاید سیاسی دھنگل میں لگائے جا سکتے ہیں مگر جب عدالتی کاروائی ہوتی ہے تو اس میں ٹھوس ثبوت اور شہادتیں ضرورت ہوتیں ہیں جو تحریک انصاف عدالتی کاروائی میں پیش نہیں کر سکی۔عمران خان نے خود بھی سبق سیکھا کہ کرکٹ اور سیاست میں بہت فرق ہے۔ چالیس دن سے زیادہ اسمبلی سے باہر رہنا غیر آئینی ہے تو حامد خان صاحب اور تحریک انصاف کے دوسرے قانون جاننے والوں نے عمران خان کو وقت پر کیوں نہیں مشورا دیا تھا۔ اسی طرح بقول حامد خان جب تحریک انصاف اگر اپنے سیکرٹری جنرل کی وجہ سے قانونی غلطیاں کر رہی تھی تو اُس وقت کیوں نہیں الرٹ کیا گیا جو اب حامد خان ٹی وی ٹاک میں بڑی باتیں کر رہے ہیں۔جب چھ میں سے پانچ پوئنٹ مان لیے گئے تھے تو آخری پوئنٹ پر اسرار ساری جدو جہد کو لے ڈوبا۔
خیرجو ہو چکا سو ہو چکا ۔اب جب تحریک انصاف اسمبلی میں آگئی ہے تو ضرورت اس عمل کی ہے کہ اسمبلی کی کاروائی کو اچھے ماحول میں چلانا نواز لیگ کا کام ہے۔وہ ایک بڑی پارٹی ہے اس کو بڑے پن کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ اس کے پاس ٣٢ مجارٹی موجود ہے۔ جہاں تک پی ٹی آئی کو چالیس دن اسمبلی سے غیر حاضری کی وجہ سے اسمبلی سے ڈی سیٹ کرنے کے موشن کا تعلق ہے تو مولانا فضل ا لرحمان صاحب تو تحریک انصاف کی مخالفت میں شروع سے ہیں۔ اسی طرح ایم کیو ایم بھی تحریک انصاف کے خلاف ہے پی ٹی آئی نے الطاف حسین صاحب کے خلاف لندن میں مظاہرہ کیا ہے۔ یہ دونوں مل کر اسمبلی میںتحریک انصاف سے پرانے بدلے چکانے چاہتے ہیں۔ نواز لیگ کے کچھ طبع آزما ممبر اسمبلی بھی نا سمجھی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ انہیں گزشتہ دور کی پیپلز پارٹی اور نواز لیگ کی کش مکش یاد نہیں رہی۔ پیپلز پارٹی دانش مندی کا ثبوت دیتے ہوئے اسمبلی میں کسی بھی ناچاکی کے خلاف ہے جس کا اُس نے بیان جاری کر کے عملی ثبوت بھی پیش کر دیا ہے۔
لہذا چالیس دن کی غیر حاضری جو کہ واقعی غیر آئینی ہے کو جواز بنا کر نواز شریف صاحب نے ایک ہفتے تک کش مکش کو طویل کر کے دانش مندی کا ثبوت نہیں دیا۔اسی جاری سیشن میں ووٹنگ کروا کرتحریک انصاف کوبڑے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہوئے اسمبلی میں کام کرنے کاموقع دیا جاتا تو بہتر تھا۔ ابھی اس کو مزید طول دینا دانش مندی نہیں ہو گی۔ ملک کے قیمتی دو سال کش مکش کی نذر ہو گئے۔ قوم کا کافی نقصان ہو چکا ہے۔بھارت آنکھیں دکھا رہا ہے۔بھارت کے اندر اُس کی اپنی ناہلی کی وجہ سے دہشت گردی ہوتی ہے تو بغیر ثوبت فوراً پاکستان پر الزام دھر دیتا ہے۔بھارت کے فلم ساز پاکستان کے خلاف فلمیں ریلیز کر رہے ہیں۔ پاکستان سے بھاگے ہوئے دہشت گرد افغانسان میں بیٹھ کر پاکستان کے خلاف کاروائیں کر رہے ہیں۔ ملک کے اندر دہشت گردی جاری ہے۔
ضرب عضب کی وجہ سے پورے پاکستان میں عوام نے سکھ کا سانس لیا ہے۔ٹارگٹڈ آپریشن کی وجہ ٢٥ سال بعد کراچی میں امن قائم ہوا ہے۔تاجروں نے بھی تصدیق کی ہے کہ ١٠ سال کے بعد ہماری تجارت صحیح ڈگر پر آئی ہے۔ان حالات میںکون جیتا کون ہارا کی گردان کو چھوڑ کر ملک کو صحیح ڈگر پر چلانے کی ذمہ داری ہماری سیاسی پارٹیوں پر عائد ہوتی ہے۔ لہٰذا سیاسی پارٹیاں اب پاکستان پر رحم کریں یوڈیشنل کمیشن کی سفارشات کو بھی مد نظر رکھیں اورقومی اسمبلی کی انتخابی اصلاحات کمیٹی میں بیٹھ کر آئندہ الیکشن غیر جانبدار اور آئین کے مطابق کرانے کی تدبیریں کریں۔ پڑوسی ملک کے انتخابی طریقے سے استفادہ کرتے ہوئے پاکستان کے آئندہ انتخابات کو الیکٹرونک طریقے سے کروائیں اور مہذب ملکوں کی طر ح ہارنے والے جیتنے والے کو مبارک باددیں۔ اور پانچ سال جیتنے والی سیاسی پارٹی کو اسمبلی میں آئین کے مطابق کام کرنے اور اپنے منشور پر عمل کرنے کا موقع دیں۔ حقیقی اپوزیشن حکومت کے غلط کاموں پر گرفت کرے جو جمہوری طریقہ ہے تاکہ پاکستان کی سیاست صحیح پٹڑی پر چلتی رہے اور کسی بھی طبع آزما آمر کو پھر جموریت پر شب خون مارنے کاموقع نہ ملے۔ عوام کی فلاح بہبود کے لیے اسمبلی میں آئین کے تحت فیصلے ہوں۔ یہ ہی جمہوریت کو مستقم کرنے اور پھولنے پھلنے کا طریقہ ہے۔
تحریر: میر افسر امان، کلامسٹ
کنوینر کالمسٹ کونسل آف پاکستان