تحریر: ایم ایم علی
آج کل قومی اسمبلی میں تحریک انصاف کو ڈی سیٹ کر نے یا نہ کرنے کا معاملہ زیر بحث ہے ،کچھ سیاسی جماعتوں کا خیال ہے کہ تحریک انصاف کے ممبران استعفے دے چکے ہیں اور اس کے علاوہ تحریک انصاف کے قائد عمران خان نہ صرف اس پارلیمنٹ کو جعلی پارلیمنٹ کہتے رہے ہیں
بلکہ پارلیمنٹ کے اند ربیٹھے ممبران کے بارے میں بھی سخت الفاظ استعمال کرتے رہے ہیںاور اب تحریک انصاف کو اس پارلیمنٹ میں رہنے کا کوئی حق حاصل نہیںلہذہ اس بنیاد پر تحریک انصاف کو ڈی سیٹ کر دینا چاہیے ،لیکن دوسری طرف کچھ سیاسی جماعتوں کا خیال ہے کہ تحریک انصاف کو ڈی سیٹ کرنے سے جمہوریت کو نقصان پہنچے گا اور اس عمل سے کوئی اچھی راویت بھی قائم نہیں ہوگی۔
اس سارے معاملے میں حکومت وکٹ کے دونوں جانب کھیل رہی ہے یعنی حکومت تحریک انصاف کو ڈی سیٹ بھی نہیں کرنا چاہتی لیکن دوسری طرف اس معاملے کو حل کرانے میں بھی دلچسپی بھی نہیں لے رہی بلکہ اس معاملے کو طول دے رہی ہے، لگتا یوں ہے کہ حکومت ڈی سیٹ کے معاملے پر تحریک انصاف کو ذہنی طور پر اور سیاسی طور پر دبائو میں رکھنا چاہتی ہے۔حالانکہ یہ معاملہ اتنا پچیدہ ہے نہیں جتنا اس کو بنایا جارہا ہے اگر حکومت یہ معاملہ حل کرنا چاہے تو چند گھنٹوں میں یہ معاملہ حل کیا جا سکتا ہے اس معاملے کا حل بے حد سادہ ہے، کہ اگر پارلیمنٹ میں تحریک انصاف کو ڈی سیٹ کرنے کی تحاریک لائی جاتی ہے تو مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی اگر اس تحاریک کی مخالفت کر تے ہوئے اس تحاریک کے حق میں ووٹ نہیں ڈالتے تو تحریک انصاف کو ڈی سیٹ کرنے کی تحاریک ناکام ہو جائے گی ،لیکن حکومت اور دوسری کئی سیاسی جماعتوں کی طرف سے اس معاملے پر سیاست کی جارہی ہے ۔(یار لوگوں ) کا کہنا ہے کہ یہ بات تو طے ہے کہ حکومت کسی بھی صورت میں تحریک انصاف کو ڈی سیٹ نہیں کرے گی۔
کیونکہ حکومت نے بڑی مشکل سے جس معاملے کو سلجھایا ہے اس کو ایک بار پھر الجھانے کی سنگین غلطی نہیں کرے گی ،حکومت تو بس ڈی سیٹ کے معاملے کو لے کر انجوائے کر رہی ہے قارئین کرام ! تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان بظاہر تو یہ کہہ رہے ہیں کہ حکومت نے اگر ان کو ڈی سیٹ کرنا ہے تو کردے وہ اگلے ہی دن الیکشن کمپین چلانا شروع کر دیں گے لیکن یار لوگوں کا خیال ہے کہ عمران خان کی طرف سے اسطرح کے جارحانہ بیان جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ اور ڈی سیٹ کے حوالے سے تحریک انصاف پر پڑنے والے پریشر کو ریلیز کرنے کیلئے ہیں اگر زمینی حقائق کا بغور مشاہدہ کیا جائے تو بات واضح طور پر نظر آ رہی ہے کہ تحریک انصاف فی الفور کوئی بڑی تحریک چلانے کی پوزیشن میں نہیں ،پچھلے سال انہی دنوں میں جب عمران خان صاحب نے لانگ مارچ کا اعلان کیا تھا تو انہوں نے اس وقت بھی حسب عادت بڑے بڑے دعوئے کیے تھے کہ ہم لاکھوں لوگ اکھٹا کر لیں گے۔
اس حکومت کو ختم کر کے اور وزیر اعظم سے استعفی لے کر ہی واپس لوٹیں گے وغیرہ وغیرہ۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ یہ دعوئے محض سیاسی بیانات ہی ثابت ہوئے اور تحریک انصاف ملکی تاریخ کا طویل ترین احتجاج ریکارڈ کروانے کے باوجود بھی حکومت سے کوئی ایک مطالبہ بھی نہ منوا سکی حالانکہ اس وقت ملک کا سیاسی ماحول تحریک انصاف کے حق میں نظر آرہا تھا ،لیکن اس کے برعکس آج سیاسی ماحول حکومت کے حق میں نظر آرہا ہے اور بالخصوص جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ نے حکومت کو مزید مضبوط کر دیا ہے ،اس وقت تحریک انصاف دفاعی لائن پہ کھڑی ہے جبکہ حکومت فرنٹ لائن پر ۔قارئین کرام! اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ اگر آج تحریک انصاف فرنٹ لائن سے دفاعی لائن پر آ کر کھڑا ہونے پر مجبور ہوگئی ہے تو اس میں تحریک انصاف کی قیادت کی اپنی غلطیاں شامل ہیں ۔حکومت بھی اگر آج فرنٹ لائن پر کھڑی ہے تو اس کو بھی تحریک انصاف کی غلطیوں سے سبق سیکھنا چاہیے۔
کیونکہ حکومت کے پاس تو ویسے بھی غلطیوں کی گنجائش بہت کم ہوتی ہے۔بہرحال بات ہورہی تھی تحریک انصاف کے ڈی سیٹ ہونے یا نہ ہونے کے حوالے سے،عمران خان نے اسلام آباد کے ڈی چوک میں جوش خطابت میں پارلیمنٹ سے استعفے دینے کا جو اعلان کیا تھا اور ڈی چوک میں کنٹینر پر کھڑے ہو کر پارلیمنٹ کے بارے میں جو الفاظ استعمال کرتے رہے آج وہ اعلان اور الفاظ ڈی سیٹ کی صورت میں ڈراونا خواب بن کر تحریک انصاف کے سامنے کھڑے ہیں۔
قارئین کرام ! تحریک انصاف نے ڈی چوک سے لے کر ڈی سیٹ کی تحاریک تک کیا کھویا کیا پایا اس پر کالم پھر سہی۔لیکن اس وقت ہماری ملکی سیاست کا المیہ یہ ہے کہ ایک ملک کے مختلف علاقوں میں سیلاب نے تباہی مچا رکھی ہے سیلا ب متاثرین کھلے آسمان تلے بے یارو مدد گار پڑے ہیں ان کا کوئی پر سان حال نہیں اور دوسری طرف ان کے منتخب نمائندے ملک کے سب سے بڑے ایوان میں بیٹھ کر کسی اور مشغلے میں مصروف ہیں ہمارے ان سیاستدانوں کو سیلاب متاثرین کی فکر کی بجائے یہ فکر زیادہ ستا رہی ہے کہ تحریک انصاف کو ڈی سیٹ کیا جائے یا نہیں۔
سیلاب متاثرین اس نتظار میں بیٹھے ہیں کہ کب ان کے منتخب نمائندے سیاسی محاذ آرائی کو ختم کر کے ان کے مسائل کی طرف بھی توجہ دیں گے پچھلے سال انہی دنوں جب ایک طرف سیلاب نے تباہی مچا رکھی تھی تو دوسری طرف کچھ جماعتوں نے حکومت اور اس کی حلیف جماعتوں کو نیچا دیکھانے کیلئے ڈی چوک پر اپنا پنڈال سجا رکھا تھا اور اس سال بھی جب ایک طرف سیلاب نے تباہی مچا رکھی ہے تو دوسری طرف کچھ سیاسی جماعتوں نے پارلیمنٹ میں سیاست کا بازار گرم کر رکھا ہے ۔قارئین! تحریک انصاف اور حکومت کے درمیان ڈی چوک سے شروع ہونے والی سیاسی محاذ آرائی تحریک انصاف کی ڈی سیٹ تک آن پہنچی ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے بہر حال ( یار لوگوں ) کا کہنا ہے کہ فیصلہ کرنے والوں نے فیصلہ کر دیا ہے کہ اس بار اونٹ کو کس کروٹ بیٹھانا ہے ،بس اب اس فیصلے پر عمل درآمد ہونا باقی ہے۔
تحریر: ایم ایم علی