اس سے حاسدین بھی انکار نہیں کرسکتے کہ تمام پاکستانی لیڈر گرم تعاقب کے باوجود ہنوزعمران خان کی مقبولیت کی گرد کو بھی نہیں پہنچ سکے ہیں، البتہ یہ علیحدہ لیکن حل طلب سوال ہے کہ ہوا کے دوش پر رواں عروج کا یہ برق رفتار گھوڑا خانِ خاناں کو منزل پر پہنچا کر دم لے گا یا پختونخوا کی سنگلاخ چٹانوں سے ٹکرا ٹکرا کر انہیں سیاسی طور پر لہولہان کردے گا؟ حضرت آتش نے کہا تھا۔
نقش پائے رفتگاں سے آرہی ہے یہ صدا
دو قدم میں راہ طے ہے شوقِ منزل چاہئے
اب ہم خان صاحب کے شوقِ منزل کو رندانہ کسوٹی پر جب پرکھتے ہیں تو کچھ دھندلی مخمور تصویر جو نظروں کے سامنے ناچتی نظرآتی ہے یہ ہے کہ خان صاحب یہ شوق عوامی قوت کے بجائے نادیدہ قوت کے بل بوتے پر سر کرنا چاہتے ہیں۔ اگر ایسا ہے تو پھر ظاہر ہے کہ منزل کا تعین بھی ’نادیدہ‘ ہی کریں گے ۔ تاریخ یہ ہے کہ ایسی منزل بھٹو صاحب تامیاں صاحب کئی سیاستدانوںکو ودیعت ہوئی لیکن جب یہ اصحاب اپنے شوق پر اتر آئے تو پھر ایسے راندہ درگاہ بنادئیے گئے کہ بھٹو صاحب تا میاں صاحب ہر ایک کوبلا امتیاز یہ کہنا ہی پڑا۔
نکلنا خلد سےآدم کا سنتے آئے ہیںلیکن
بڑے بے آبرو ہو کر ترے کوچے سے ہم نکلے
ذہن کے نہاں خانے میں یہ خیال اس باعث وارد ہوا کہ خبر شائع ہوئی ہے کہ ’’عمران خان نے تحریک انصاف کا پارٹی الیکشن کمیشن بند اور اس کے عملے کو فارغ کردیا ہے‘‘ یوں تو ابتدا ہی سے یہ تاثر عام تھا کہ عمران خان پارٹی کی تنظیم سازی میں دلچسپی نہیں رکھتے، اس کی متعدد وجوہات ہیں لیکن ایک وجہ جیسا کہ زیرک و جہاندیدہ جناب نجم سیٹھی صاحب نے تحریک انصاف کے الیکشن کمیشن بند ہونے کی خبر پر اپنے تجزیے میں بتائی،یہ ہے کہ ’’عمران خان جب پارٹی الیکشن کے توسط سے ایک جمہوری عمل کی طرف گئے تھے تو پارٹی میں پھوٹ (سرمایہ داروں اور حقیقی کارکنوں کے باہمی کشمکش کے باعث) پڑگئی تھی۔ اس انتخابی عمل کے ذریعے لوٹوں کی چھٹی ہونے لگی تھی چنانچہ پہلے پارٹی انتخابات ملتوی کردئیے گئے اور اب تحریک انصاف کے جماعتی الیکشن کمیشن کی چھٹی کردی گئی۔‘‘
واقعہ البتہ یہ ہے کہ عمران خان اپنی مقبولیت کو صرف اس وقت کیش کراسکیں گے جب ان کی تنظیمی ساخت مضبوط، معتبر اور ملک گیر ہولیکن تحریک انصاف تاحال ایسا بے ہنگم ہجوم ہے جسے وقتی مقصد کی خاطر تو بروئے کار لایا جاسکتا ہے، لیکن ایسے ہجوم سے کسی پائیدار کام یا تبدیلی کی توقع عبث ہی ہوگی۔ کہا جاتا ہے کہ تحریک انصاف جنرل حمید گل صاحب کے زرخیز ذہن کا شاہکار ہے ،جسے بعد ازاں دیگر مقتدر احباب نے گود لیا۔ منگل کوسید خورشید شاہ کایہ بیان نمایاں طورپر اخبارات میں شائع ہوا ہے کہ ’ہماری جماعت (پیپلزپارٹی)کسی آشا پاشا نے نہیں بنائی۔ کاش یہ بات سید صاحب اس وقت کہتے جب، جن کی طرف کھلا اشارہ ہے وہ منصب پر موجود تھے اور یا اس وقت کہتے جب پیپلز پارٹی کی وفاقی حکومت کی رٹ ایسے ہی اصحاب کے باعث سیوریج نالوں اور کچرے کے ڈھیروں میں پاش پاش عوام اور خود جیالوںکےلئےتعفن کا باعث بنی ہوئی تھی۔ کاش خورشید شاہ صاحب یہ بھی بتاتے کہ وہ کونسا دور تھا جب کسی انجانے خوف کے باعث ان کے صدر مملکت ایوان صدر میں اپنے سرہانے بندوق رکھ کر سوتے تھے؟ معاملہ یہ ہے کہ پاکستان میں جمہوریت اس لئے بھی پنپ نہیں پاتی کہ اس حمام میں سب ’’ایک جیسے‘‘ ہیں۔ پھر جہاں تک یہ لن ترانی ہےکہ پیپلز پارٹی کسی آشا پاشا نے نہیں بنائی ،تو پھر نہ جانے وہ کون تھے جو آمر مطلق ایوب خان کو ڈیڈی کہہ کر پکارتے تھے، یا پھر وہ کون تھے جو 15جنوری 1971کو لاڑکانہ میں آمر یحییٰ خان کے ہمراہ ’’مرغابیوں‘‘ کا شکار کھیل رہے تھے، پھر وہ جنرل یحییٰ خان اور ذوالفقار علی بھٹو کون تھے کہ جن کی انہی دنوں ڈھاکہ کے اخبارات میں صفحہ اول پر ایک تصویر چھپی جس میں یہ دونوں اصحاب المرتضیٰ کے وسیع اور خوبصورت سبزہ زار پر چہل قدمی کررہے تھے۔ کیا یہ وہ ملاقاتیں نہ تھیں جن پر پاکستان بنانے والے اور 1946کے انتخابات میں مسلم لیگ کو سب سے زیادہ نشستیں دینے والے بنگالیوں نے کہا تھاکہ بنگالیوں کے خلاف لاڑکانہ میں سازش ہورہی ہے۔ شہید بریگیڈیر صدیق سالک صاحب اپنی کتاب ’’میں نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا‘‘ کے صفحہ 44پر لکھتے ہیں کہ ’’ایک بنگالی دوست نے مجھ سے کہا کہ ذرا اس (یحییٰ خان) کو دیکھو، جب یہاں آتا ہے تو( 160نشستیں لینے والی) اکثریتی جماعت کے سربراہ شیخ مجیب الرحمن کو اپنے کسی اسٹاف آفیسر کے ذریعے ایوان صدر میں طلب کرتا ہے اور جب مغربی پاکستان جاتا ہے تو(82نشستیں لینے والی) اقلیتی جماعت کے سربراہ بھٹو کے گھر ٹھہرتا ہے۔‘‘ عرض ازبس اتنی سی ہے کہ جو الزام تحریک انصاف پر لگایا جارہا ہے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے کندھوں پر بھی ملکہ وکٹوریہ کے ایسے ہی ستاروں کے نشان دیکھے جاسکتے ہیں۔تاہم جو فرق تحریک انصاف اور ان جماعتوں بالخصوص پیپلز پارٹی میں ہے وہ یہ ہے کہ پیپلز پارٹی نے وردی کو بوسہ دینے کے بعد پوری توجہ تنظیم سازی پر مرکوز کردی تھی، اور بلا مبالغہ بھٹو صاحب اور بعد ازاں محترمہ بی بی شہید کے دور میں تنظیم کے حوالے سے پیپلز پارٹی کا کوئی مد مقابل نہ تھا۔جبکہ دوسری طرف تحریک انصاف اتنے سفر کے باوجود تاحال ہجوم ہے، یہ اب تک تنظیم نہیں بن سکی ہے چہ جائیکہ اسے تحریک مان لیا جائے ۔ یہی وجہ ہے کہ تحریک انصاف کو 2نومبر کو اپنی زندگی کا جو پہلا امتحان درپیش ہوا اس میں فیل ہوگئی۔ اگرچہ ’ترقی پاس‘ کے لئے عمران خان نے عدالت کا سہارا لیالیکن بہرصورت اس وقت تک تحریک انصاف کی اصل قوت آشکارہ ہوچکی تھی ۔ پرویز خٹک صاحب ، جو فاٹا کے پختونخوا میں انضمام کے حوالے سے کوششوں کے تناظر میں پختون بیلٹ کی سب سے مقبولیت شخصیت بن گئے ہیں، کے علاوہ کوئی استقامت کا مظاہرہ نہیں کرسکا۔ تنظیم ہوتی اور ہر طرف سے منظم کارکن جوق در جوق نکلتے، تو مسلم لیگی انتظامیہ کس کس کا راستہ روک پاتی۔ لیکن اور کسی کا کیا گلہ کہ خود خانِ اعظم عمران خان شیخ رشید کے بار بار اکسانے پر بھی گھر سے باہر نہ نکل کے آئے۔ عمران خان کی بعض مخصوص مجبوریوں کا تاثر اپنی جگہ، لیکن یہ بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ اس روز اگر عمران خان گرفتار ہوجاتے تو اسلام آباد بند کرنے سے بھی بڑا مقصد یعنی اقوام عالم میں ایک لیڈر کے طورپر قبول عام مل سکتی تھی لیکن کیا کیا جائے کہ ایسا ہونہ سکا۔ رشکی دہلوی نے کہا تھا۔
یہ مرتبہ بلند ملا جس کو مل گیا
ہر مدعی کے واسطے دارورسن کہاں
بشکریہ جنگ