تحریر : سید انور محمود
چودہ اگست 2014ء سے سولہ دسمبر 2014ء تک عمران خان احتجاج، جلسے اور دھرنے کی سیاست کرتے رہے، تحریک انصاف کے پانچ ارکان ایسے تھے جنہوں نے کھل کر پارٹی لیڈرشپ کے فیصلے سے اختلاف کیا اورقومی اسمبلی کے تمام اجلاسوں میں شرکت کرتے رہے، پانچ میں سےتین ارکان کو پارٹی سے نکال دیا گیا لیکن وہ اپنے اس موقف پر قائم رہے کہ ‘عوام نے ہمیں اسمبلیوں میں جاکر عوامی مسائل حل کرنے کےلیے منتخب کیا ہے، دھرنوں کی سیاست کےلیے نہیں’۔ اسلام آباد کے 126 دن کے دھرنےمیں ہر روز الزام تراشیاں کی جاتی تھیں، کبھی سول نافرمانی پر اکسایا گیا، دھرنے میں کارکنان نے پارلیمنٹ ہائوس کا دروازہ توڑ دیا کچھ کارکنان نے پی ٹی وی پر حملہ کرڈالا، میڈیا کے ساتھ اور خاصکر خواتین ورکر کے ساتھ بھرپور بدتمیزی کا مظاہرہ کیا گیا۔
دھرنے کے دوران ہی تحریک انصاف کے اراکین نے قومی اسمبلی سے استعفیٰ دے دیا، گیلی شلواریں ،بزدل اور چور اس طرح کے نازیبا الفاظ سیاسی مخالفین کے لیے بولے گئے، یہ سیاہ باب جمہوری تاریخ میں کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا،عمران خان روز انقلاب کی تاریخیں دیتے رہے لیکن 126 روز گزر گئے انقلاب نہیں آیا،آتا بھی کیسے، انقلاب عوام لاتے ہیں امپائر نہیں۔’’ دھرنے اور اس کے بعد انکوائری کمیشن کی کارروائی کے دوران عمران خان اور ان کی جماعت کے راہنماء مسلسل مسلم لیگ (ن) پی پی پی، جے یو آئی (ف)، ایم کیو ایم اور دیگر جماعتوں کو تنقید کا نشانہ بناتے رہے۔
پندرہ ستمبر 2014ءکو کنٹینر پر کھڑئے ہوکردھرنے کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان فرمارہے تھے، ’’ایاز صادق سن لو! تم ہمارے استعفے منظور نہ کر کے آئین اور اپنے حلف دونوں کی خلاف ورزی کررہے ہو۔ ہم استعفے دے چکے ہیں اور اس جعلی قومی اسمبلی کومسترد کرچکے ہیں۔ تم کسی صورت اب ہمارے انقلاب کا راستہ نہیں روک سکتے۔ ہمارا اس جعلی مینڈیٹ والی قومی اسمبلی سے اب کوئی تعلق نہیں رہا۔ جعلی الیکشن کمیشن اور دو نمبر پارلیمنٹ کی کوئی حیثیت نہیں‘‘۔عمران خان جو ان اسمبلیوں کوجعلی مینڈیٹ والی اسمبلی کہکر مسترد کرچکےتھے حسب دستور یوٹرن لیکر اسمبلی میں واپسی کا اعلان کیا۔ پانچ اپریل 2015ء کوتحریک انصاف کی کور کمیٹی کے اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے عمران خان فرمارہے تھے کہ”کل سے قومی اسمبلی کے اجلاسوں میں شرکت کریں گے، جوڈیشل کمیشن کا فیصلہ ہو گیا، اب دھاندلی کے خلاف کمیشن میں، سڑکوں پر اور اسمبلی میں بھی آواز بلند کریں گے’’۔ استعفوں کے باوجود اسی اسمبلی میں آ کر بیٹھ گئے جسے وہ عوام کی نمائندہ تصور نہیں کرتے تھے۔
ایک اور تماشہ یہ ہوا کہ اسپیکر ایاز صادق نے تحریک انصاف کے ارکان کو ان کی غیر حاضری کا معاوضہ بھی ادا کردیا، جب ’’غیر حاضر‘‘ ارکان نے لاکھوں روپے وصول کر لئے تو سیاسی حلقوں میں تحریک انصاف پر شدید تنقید شروع ہو گئی جس کے بعد عمران خان نے وصول کر دہ تمام تنخواہ واپس کرنے کا اعلان کر دیا لیکن تاحال تحریک انصاف کے کسی ایک رکن نے بھی اپنی تنخواہ واپس نہیں کی۔ اصول کی بات یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے ممبران اسمبلی سے مستعفی ہوچکے تھے ، سارا میڈیا عمران خان کے اُن بیانات کو ہائی لائٹ کررہا تھا جبکہ اے این پی کے ذاہد خان عمران خان سے سوال کررہے تھےکہ 126 دن کنٹینر پر کھڑئے ہوکر اس اسمبلی کو بوگس اور اس میں بیٹھنے والے ممبران کو بدعنوان کہنے والے عمران خان کا بدعنوانوں کی اس بوگس اسمبلی میں کیا کام؟ بقول ذاہد خان عمران خان اور اُنکے ساتھی اسمبلی کے ممبر نہیں رہے۔ استعفی دینے کے بعد اسپیکر صرف آپ کے دستخط کی تصدیق کرتا ہے وہ یہ نہیں پوچھتا کہ آپ استعفی دینا چاھتے ہیں یا نہیں۔
جوڈیشل کمیشن کے فیصلے کے بعد جس میں تحریک انصاف کے تمام الزامات کو رد کیا گیا ، تحریک انصاف سیاسی طور پر بہت کمزور ہوگئی اورمعذرت خواہانہ طرز عمل اختیار کرنے پر مجبورہو گئی ہے۔ جبکہ متحدہ قومی مومنٹ اور جمعیت علما ء اسلام (ف) جن کو پاکستان تحریک انصاف کے لگائے زخم ابھی تک مندمل نہیں ہوئے نے پی ٹی آئی کے ارکان کی ایوان سے مسلسل چالیس روز بغیر اطلاع غیر حاضری آئینی مسئلہ کھڑا کر دیا اور پاکستان تحریک انصاف کو جوڈی چوک سے آئے تھے ڈی سیٹ کرنے کےلیے دو تحاریک پیش کر دیں، یہ تحاریک پی ٹی آ ئی کے 28ارکان کوقومی اسمبلی سے رخصت کرنے کےلیے تھیں۔
ایم کیو ایم اورجمعیت علما اسلام (ف) نے ایوان سے مسلسل 40روز بغیر اطلاع غیر حاضر رہنے پر پاکستان تحریک انصاف کے ارکان کے سروں پر “ڈی سیٹ” ہونے کی تلوار لٹکا دی۔ جوڈیشل کمیشن کے فیصلے کے بعد عمران خان نے قومی اسمبلی کو تسلیم کرنے کا اعلان تو کر دیا لیکن ابھی تک عمران خان قومی اسمبلی میں واپس نہیں آئے۔ جب وہ آخری باہر قومی اسمبلی کے اجلاس میں آئے تھے تو وزیر دفاع خواجہ آصف نے انہیں ’’ شرم وحیا‘‘ کا ایسا درس دیا جسپر شاید وہ ا بھی تک تلملا رہے ہیں۔ اسپیکر سردار ایاز صادق نے اس ایشو کو آئندہ ’’پرائیویٹ ممبرز ڈے‘‘ تک موخرکر دیا اور کہا کہ اس سلسلے میں جمعیت علما ء اسلام اور ایم کیو کی قیادت سے بات چیت کر کے اس معاملہ کا حل تلاش کیا جائے گا۔ بعد میں یہ معاملہ 4 اگست تک ملتوی ہوا۔
وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر تحریک انصاف کے اراکین کی اسمبلی کی رکنیت منسوخ کرنے سے متعلق قومی اسمبلی میں قرارداد پیش کی گئی تو حکمران جماعت اس کی مخالفت میں ووٹ دے گی۔ اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ حکمراں جماعت پاکستان تحریک انصاف کو ملنے والے مینڈیٹ کو تسلیم کرتی ہے اور وزیر اعظم چاہتے ہیں کہ حزب مخالف کی جماعت پارلیمان میں اپنا کردار ادا کرے۔ وزیرِ اعظم نواز شریف نے بھی متحدہ قومی موومنٹ اور جمعیت علمائے اسلام ف کے رہنماؤں پر زور دیا تھا کہ وہ پارلیمنٹ میں حزبِ اختلاف کی جماعت تحریک انصاف کے ارکان کی پارلیمانی رکنیت ختم کرنے کے بارے میں قراردادیں واپس لے لیں۔ لیکن حکومت اتنی ہمت نہیں کرپائی ان قرارداد کو قومی اسمبلی میں مسترد کرتی۔
وزیر اعظم نواز شریف نے مولانا فضل الرحمان سے اور اسپیکر ایازصادق نے الطاف حسین سے بات کرکے اس مسلہ کو حل کیا، اسپیکر ایاز صادق کے الطاف حسین سے بات کرنے پر عمران خان غصہ ہورہے تھے لیکن یہ حقیقت ہے کہ الطاف حسین کی مرضی کے بغیر ایم کیو ایم اپنی قرارداد کبھی بھی واپس نہ لیتی۔ تحریک انصاف کے اراکین نے قومی اسمبلی کے بائیکاٹ کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ جب تک اُن کو ڈی سیٹ کرنے کی تحریکوں پر فیصلہ نہیں ہو جاتا اس وقت تک وہ ایوان میں نہیں آئیں گے۔ ایم کیو ایم اورجمیعت علماء اسلام (ف) کی جانب سے 22 اپریل کو جمع کرائی گئی تھیں جو بغیر کسی شرط کے واپس لےلیں گیں
پی ٹی آئی کے ارکان کا ڈی سیٹ ہونے کا معاملہ ختم ہوگیا ہے۔ اس اسمبلی کی اب تین سال کی معیاد باقی ہے، امید کی جانی چاہیے کہ پی ٹی آئی آیندہ تین سال حکومت کو ایک بھرپور اپوزیشن کے روپ میں نظر آئے گی۔ موجودہ سیاسی صورتحال میں عمران خان اور تحریک انصا ف کے لیے بھی بہت سے سبق ہیں، جو انہیں مستقبل کی سیاست کے حوالے سے مد نظر رکھنا ہوں گے۔ عمران خان کو چاہیے کہ جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ کو من وعن تسلیم کریں اور اپنے لب ولہجے میں سختی کم کریں۔
تحریر : سید انور محمود