تحریر: ڈاکٹر تصور حسین مرزا
راجہ پورس اور سکندر اعظم کے درمیاں اڑھائی ہزار سال پہلے لڑی گئی جنگ اسی خطے یعنی دریائے جہلم کے کناروں پر لڑی گئی تھی۔مورخین نے سکندر اعظم کے حملے اور راجہ پورس کی مزاحمت کو تاریخی داستان کے نام سے لکھی ہے۔آج سے ہزاروں سال قبل راجہ پورس کی طرح ہاتھیوں کو بھی اپنی دھرتی ماں سے محبت تھی۔ تاریخ گواہ ہے جب زخموں سے چور ، تیروں سے چھلنی راجہ پورس کا ہاتھی تھک ہار کر زمین پر بیٹھ گیا اور راجہ پورس زخموں کی پروا کئے بغیر فولادی قوت سے دشمن کے چھکے چھڑا رہا تھا ۔۔۔۔۔۔ اسی دوران راجہ پورس کا تمام جسم چھلی ہہو گیا۔۔ اور سکندر اعظم کا سپاہی جب پورس سکندری افواج کے نرغے میں آ گیا تو پکڑ کر گولی مار کر مارنا چاہتا تھا۔۔ راجہ پورس کا ہاتھی جو زخموں سے چور تھا دیکھ رہا تھا اچانک راجہ پورس کو ہاتھی نے سونڈ سے پکڑ کر اپنے اوپر دھکیل دیا۔ ، سکندر کی فوج نے راجہ پورس کے ہاتھیوں کا رستہ روکنے کے لئے ، ہاتھیوں کے پیر کاٹے گئے ، سونڈوں پر تلواریں چلائی گئی، راجہ پورس کے ہاتھیوں کا راستہ روکنے کے لئے آگ لگا دی گی۔
بابا بھلے شاہ کی بات یاد آگیء ہے،،،،،،،،،،، عشق نچایا تھیہ تھیہ
آج میرا مقصد راجہ پورس یا سکندر اعظم یا انکی لڑائی پر لکھنے کا مقصد نہیں ہے بلکہ ایک تاریخی فقرہ جب سکندر اعظم راجہ پورس کے قریب آیا تو اس نے ساری دشمنی بھول کر پورس سے کہا کیا تمھیں کس پاگل پن نے میرے مقابلے میں اترنے پر مجبور کیا تھا۔۔ راجہ پورس مسکرایا اورر بولا میرا خیال تھا کہ دنیا میں میرے سوا بہادر کوئی نہیں ۔سکندر نے کہا تم مجھ سے کس سلوک کی امید رکھتے ہو؟ راجہ پورس نے پھر وہ تاریخی جملہ کہا جس کو آج پچیس سو سال ہوگئے۔ اس سے قبل کہ راجہ پورس کا تاریخٰی جملہ لکھوں!یہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ دریائے جہلم اور جہلم کے ارد گرد کے علاقوں کی پٹی کو سیاست اور رفاح عامہ کے کاموں میں بڑی اہمیت حاصل ہیں۔تحریک انصاف کی بڑھتی ہوئی مقبولیت مسلم لیگ نواز ، پاکستان پیپلز پارٹی سمیت تمام مقامی و قومی سیاسی جماعتوں کے لئے درد سر ہے۔
پاکستان کی سیاست میں کوئی چیز حرف آخر نہیں ہوتی۔ پہلے وقت کے دانشوروں کا ایک محاورہ بڑا مقبول ہوتا تھا ۔ کہ جس سے دشمنی کا بدلہ لینا ہو اس کو اپنی جیب سے نشہ پر لگا دو جب پکہ نشئی بن جائے گا تو پھر ایسا ہی ہوگا کہ سانپ بھی مر جائے گا اور لاٹھی بھی نہیں ٹوٹے گئی۔ یہ جو تحریک انصاف میں سیاسی مجنوں ہی مجنوں آ رہے ہیں۔ لوگ جوق در جوق تحریک انصاف کی چھتری کا سایہ درجہ حرارت کی گرمائش کم کرنے کے لئے ڈھونڈ رہے ہیں ۔ یا پھر دوسرے الفاظ میں تحریک انصاف کو سیاسی مسافر خانہ کے طور پر آ کر ٹھہرے ہوئے ہیں۔اس سے پہلے کہ سیاسی مجنوں کی اقسام پر بات ہو یہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں تحریک انصاف کوئی علاقائی یا مقامی سیاسی جماعت نہیں بلکہ ایک قومی سطع کی متحرک سیاسی جماعت ہے جو ایک مخصوص نظریہ رکھتی ہے۔ تحریک انصاف کی جماعت کو یہ بھی اعزازحاصل ہیںایسے جیالے متوالے دیوانے شروع سے ہی میسر آگئے ہیں جنہوں نے عمران خان کا ویژن گلی گلی، نگر نگر، ڈگر ڈگر،کریہ کریہ بستی بستی پہنچا کر عوام کے دلوں کی دھڑکن بنا دیا جس کا واضع ثبوت میں یا میری کوئی دلیل نہیں بلکہ وہ آزادی مارچ ہے جو تاریخ کا سب سے بڑا مارچ ہے۔
بات کر رہا تھا دریائے جہلم کی پٹی کی جو دونوں جانب دریا کے ساتھ ساتھ علاقے ہیں PP 114 راجہ نعیم نواز آف پوران اور ممتاز سیاستدان حلقہ این اے 63 محمود مرزا جہلمی دو ایسے ہیرے ہیں تحریک انصاف کے پاس جو لوہا پتھر ان سے ملے گا وہ سیاسی میدان میں قیمتی گوہر ہی ثابت ہوگامعزرت کے ساتھ پاکستان کی سیاست کوئی اتنی اچھی نہیں جس پر فخر کیا جائے مگر سیاسی میدان میں گنتی کے چند لوگ ایسے بھی ہیں جنہوں نے سیاست کے میدان میں رہتے ہوئے خود کو زنا، شراب جوا سے نہ صرف بچائے ہی نہیں رکھا بلکہ اپنے پاس آنے والے لوگ بھی ایسے منتخب کئے جو بے داغ ماضی کے حامل رہے ہوں ۔ ذاتی اور سیاسی اختلافات اپنی جگہ مگر حقیقت کو دل سے تسلیم کرنا چاہیے ، اگر ہم حسد اور بغض کی عینک کے بغیر دیکھے تو تحریک انصاف میں بھی محمود مرزا جہلمی اور راجہ نعیم نواز جیسی شخصیات کا بے داغ ماضی پوری آب و تاب کے ساتھ چمکتا ہوا نظر آتا ہے۔
یہ ان سیاستدانوں کی صف میں شامل نہیں جہاں شراب و کباب ، کے ساتھ ساتھ قاتل مفرور اور اغوا برائے تاوان جیسے جرائم پیشہ افراد پر مشتمل سیاسی ڈیرہ ہو بلکہ عام سے شہریوں کی مانند اپنے اپنے ڈیروں میں رہتے ہوئے تحریک انصاف کے پلیٹ فارم سے خدمت خلق کرنے میں مشغول ہیں۔تحریک انصاف کے چیرمین عمران خان کو یہ بات ٹھنڈے دل و دماغ سے سوچنی چاہیے کہ جو لوگ دوسری پارٹیوں کو چھوڑ کر آرہے ہیں کیا وہ تحریک انصاف کے نظریاتی کارکن ثابت ہونگے یا وقتی طور پر تحریک انصاف کے پلیٹ فارم کو سیاسسی مسافر خانہ کے طور پر کچھ عرصہ رہنے کے بعد چھوڑنے کے لئے آ رہے ہیں؟اور جو بات سیاسی مجنوں کے حوالے سے ہیں تو مجنوں کی دو ہی اقسام ہیں ، چوری کھانے والے مجنوں اور خون دینے والے مجنوں، کسی بھی جماعت یا تنظیم کا جو اثاثہ ہیں وہ ورکر ہی ہوتے ہیں ، عموماً دیکھا گیا ہیں سیاسی پارٹیاں ورکروں کو کوئی خاص اہمیت نہیں دیتی، نعرے لگانے ، کرسیاں اور سٹیج کو ٹھیک کرنے ، جھنڈے بینرز یا پھر تقریر تک ہی رہے ہیں ۔اور اہم عہدے پر ان لوگوں کو بیٹھایا جاتا ہیں جو دوسری سیاسی پارٹیاں چھوڑ کر اپنی وفاؤں کا سیلا حاصل کرنے کے لئے ادھر کا رخ کرتے ہیں۔
کپتان کی تبدیلی کے نارے کے بعد تحریک انصاف کے ورکروں ، جیالوں میں بڑی حد تک سکون پایا جاتا تھا کہ تحریک انصاف روایتی یا حریف سیاسی جماعتوں سے الگ تھلگ مقام و مرتبہ رکھتی ہے۔
اب عمران خان چیرمین تحریک انصاف اور دیگر اعلیٰ عہدیدران کو اپنی تبدیلی والی پالیسی پر نظر ثانی کرنی ہو گئی ، ورنہ لوٹے ،لفافے او سیاسی یتیموں کی پارٹی جیسے القابات سے عوام اور تاریخ یاد کرے گئی۔کیونکہ عوام الناس ایسے بہت سے چہرے جانتے ہیں جنہوں نے اپنے دورے اقتدار میں عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ لوٹ کر کنگال کردیا۔ عوام سوچنے پر مجبور ہے کہ تحریک انصاف کے پاس ایسا کون سا امرت دارہ ہے ۔۔ کہ وہ سیاست دان اگر دیگر پارٹیوں میں ہوں تو کرپٹ مگر تحریک انصاف کی چھتری کے نیچے آئے تو پاک صاف ہو جاتے ہیں۔ کیا یہ صرف اقتدار اور کرسی حاصل کرنے کا چکر نہیں ؟
ابھی وقت ہی تحریک انصاف کو ملکی سطح کی سیاسی پارٹی بنانے کے لئے زیادہ سے زیادہ ممبر شپ کی ضرورت ہیں مگر ایسے اراکین جنکو دوسری سیاسی جماعتیں اور عوام رد کر چکے ہوں ان کو تحریک انصاف میں شامل کرنا سیاست اور عوام کے ساتھ خود تحریک انصاف کا بھی نقصان ہیں۔ نئی ممبر شپ کرنی چاہیے مگر پرانے ساتھیوں اور ورکروں کو اعتماد میں لیکر ۔۔ اگر ایسا نہ ہوا تو پھر تحریک انصاف کا حشر بھی دوسری سیاسی جماعتوں کی طرح ہوگا۔ٹکٹوں کی تقسیم کے لئے ذاتی پسند اور نہ پسند کی بجائے پہلے آئیے پہلے پائیے کی بنیاد پر ہونا چاہیے۔اگر یہ اعلان کر دیا جائے تو خون دینے والے مجنوں ہی عمران خان کو میسر آئیگے۔ جب ایسا ہو جائے گا تو پھر کہا جا سکتا ہے تبدیلی آ نہیں رہی بلکہ تبدیلی آچکی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر اصولوں اور ووٹوں سےراجہ پورس نے سکندر اعظم کو کہا تھا۔۔۔ جو ایک بادشاہ کو دوسرے بادشاہ سے کرنا چاہیے۔!!
تحریر: ڈاکٹر تصور حسین مرزا