تحریر : صاحبزادہ نعمان قادر
لیجئے جناب تحریک انصاف کی قیادت بالآخر ضلع لیہ کے مخلص اور محب وطن ورکرز کو انصاف دینے میں کامیاب ہوگئی ہے کرپشن کی بنیاد پر اپنے سر پر صدارت کا ”ہما ” بٹھانے والی نام نہاد صدارت کا طوق گلے میں ڈالے ضلعی صدر یاسر عرفات کو بے انتہا کرپشن ثابت ہونے پر ضلعی صدارت سے فارغ کر دیا گیا ہے کارکنان میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے اور ہر ایک کی زبان پر ایک ہی نعرہ ہے کہ ”کرپٹ صدرکا تکبر خاک میں ملا خدا خدا کر کے ”داتا کی نگری شاہ جمال اچھرہ کے باسی اور جماعت اسلامی سے کرپشن کی بنیاد پر نکالے گئے جس شخص نے یاسر عرفات کے سر پر ”ہما ” بٹھایا تھا آج کل وہ بھی اپنی کمپنی ”کسان کیئر ” کے لیے بینک سے ڈھیر ساری رقم نکلوا کر واپس نہ کرنے کے سلسلہ میں ایف آئی اے کے زیر عتاب ہے اور اُس پر کمپنی ڈائریکٹر سمیت فراڈ کا مقدمہ درج ہو گیا ہے
اب کل ہی لاہور کی بینکنگ عدالت کے جج رانا عبد الجبار نے بینک فراڈ کیس میں صوبائی صدر اعجاز احمد چوہدری کی 12فروری تک عبوری ضمانت منظور کر لی ہے دوران سماعت اعجاز چوہدری کی جانب سے موقف اختیار کیاگیا کہ ایف آئی اے نے پنجاب بینک سے 50لاکھ روپے فراڈ کا جھوٹا اور بے بنیاد مقدمہہ درج کر رکھا ہے ضلعی صدر کو بر طرف کرنے سے تو یہی پتہ چلتا ہے کہ پی ٹی آئی میں ”تطہیر ” کا عمل شروع ہو گیا ہے اگر ایسا ہوتا ہوا نظر آیا تو پھر ضلع لیہ میں تو گنتی کے ہی ورکرز رہ جائیں گے کیونکہ پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کرنے والے لوگوں کی اکثریت ”صوفی سوپ ” سے دھلی ہوئی
تھی
اگر ان کے دامن نچوڑیں جائیں تو جسم کے ہر عضو سے کرپشن کی میل بر آمد ہو گی یہ موسمی بٹیرے اور ”لُٹیرے ”اپنے کالے کرتوت چھپانے کے لیے اندرا گاندھی کی طرح دھوتیاں بدلنے کی روش پر چلتے ہوئے پارٹیاں بدلتے نظر آتے ہیں اس بات کا اظہار خود عمران خان نے بھی گزشتہ روز اپنی پریس کانفرنس میں کیا تھا کہ ”پی ٹی آئی کے جس ممبر نے بھی سینٹ کے الیکشن میں پیسے لے کرکسی دوسری پارٹی کو ووٹ ڈالے اُس کو پارٹی سے نکال دیا جائے گا ”عمران خان کو اِن موسمی بٹیروں کے حرص کا پتہ تھا کہ اِن کے سامنے نظریات نہیں صرف پیسہ ، پیسہ اور صرف پیسہ ہے پی ٹی آئی کے اکلوتے ضلعی ایم پی اے عبد المجید نیازی کو اُس وقت تو خیال نہیں آیا تھا کہ جب اِنہی صفحات کے ذریعے ہم نے کہا تھا
صوبائی صدر اعجاز چوہدری کے لے پالکوں سے بچا جائے اورانٹرا پارٹی الیکشن میں نظریاتی و فکری ورکرز کو آگے لایا جائے مگر اِنہی لوگوں نے ہماری باتوں کو اہمیت نہ دی اور اپنی دولت کے بل بوتے پر ضلعی صدر کو اپنے گھر کی لونڈی کی طرح ڈیل کیا اسی دوران مجھے ایک واقعہ یاد آرہا ہے کئی سال پہلے کی بات ہے کہ پی پی پی ضلع لیہ کے نام نہاد (برائے نام )الیکشن ہونا قرار پائے تھے
تو ضلع لیہ کے تمام ورکرز کو بسوں کے ذریعے چنبہ ہائوس لاہور لایا گیا ورکرز کو باہر لان میں ٹھہرایا گیا اور بند کمرے میں مشاورت شروع ہو گئی مشیروں میں ملک نیاز احمد جکھڑ ، مہر فضل حسین سمرا ، سیہڑ گھرانے کے سرخیل و دیگر ایلیٹ کلاس کے لوگ شامل تھے ، سب کی متفقہ رائے تھی کہ ضلعی صدر ایسے شخص کو بنایا جائے جو ہماری ہر بات پر ”یس سر ” کہے
اور جب ہم دفتر آئیں تو ہمارے لیے ٹیبل صاف کرے اور چائے کی پیالی پکڑ کر آواز لگائے کہ ”سر چائے حاضر ہے ”جو فیصلہ ہم کر دیں بلا چوں چراں سر ِ تسلیم خم کر دے ”بند کمرہ سیشن میں منعقدہ بہت ”اہم اجلاس”
میں بالآخر کافی غور و خوض اور طویل مشاورت کے بعد نتائج کا اعلان کر نے کے لیے ”محب وطن اور قوم کے خیر خواہ قائدین ” ایک ساتھ مشاورتی کمرہ سے فاتحانہ انداز سے بر آمد ہو کر ورکرز کے جھرمٹ میں آگئے ۔۔۔۔۔۔۔۔سخت گرمیوں میں جھلستے ورکرز نے پارٹی کے ساتھ کمٹمنٹ کا اظہار کرتے ہوئے ”جیوے جیوے، بھٹو جیوے ” کا نعرہ ء مستانہ بلند کر دیا
دیوانہ وار قائدین کی ” شان ” میں نعرے لگانے لگے ،قائدین نے باہر تشریف لاکر روسٹرم کے سامنے کھڑے ہو کر اعلان فر مایا کہ ”بھٹہ خاندان کی پی پی پی کے لیے بہت زیادہ خدمات کو سامنے رکھتے ہوئے ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ضلعی صدارت کا تاج عبد المجید بھٹہ کے سر پر رکھا جاتا ہے”کیونکہ قائدین کا متفقہ فیصلہ تھا ورکرز خوشی سے جھومنے لگے ، رقص کرنے لگے ، ”اندر کہانی” سے بے خبر ورکرز نے عبد المجید بھٹہ کو کاندھوں پر اُٹھا لیا ، یوں چُپ چاپ بھٹہ صاحب نے جس طرح اپنا پیریڈ مکمل کیا سیاسی شعور اور ادراک رکھنے والے سب افراد کو معلوم ہے ۔۔۔۔۔۔ضلعی صدر کی ایک بھی نہیں چلتی تھی سارے فیصلے اِنہی سرداروں ، جکھڑوں ، سیہڑوں اور مہروں کے گرد ایسے گھومتے تھے جیسے موت کے کنویں میں موٹر سائیکل گھومتا ہے
پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی الیکشن میں بھی ایسا ہی ہوا جو ورکرز اِن موسمی بٹیروں اور لُٹیروں کی آنکھوں میں آنکھ ڈال کر بات کرتے تھے اور اِن کے کالے کرتوت غریب ورکرز کے سامنے لاتے تھے اُن کو کھُڈے لائن لگانے کی بھر پور منصوبہ بندی کی گئی اور یوں اِن لُٹیروں کی ملی بھگت سے جینوئن ، مخلص اور نظریاتی ورکرز انٹرا پارٹی الیکشن ہار گئے بلکہ ضلع لیہ میں توراتوں رات مُک مُکا ہو گیا تھا اور غریب ورکرز کی اُمیدوں پر پانی پھر گیا جب یاسر عرفات کی صدارت کا نوٹیفیکیشن جاری ہو گیا پھر کیا ۔۔۔۔۔۔ فصلی بٹیرے ضلعی صدر کے آگے پیچھے یوں خجل خوارہوتے دکھائی دیے جیسے مکھیاں حلوائی کی دُکان پر ”برفی ” اور ”جلیبی ” کے آس پاس بھنبھناتی ہیں ضلعی صدر کی لہریں بہریں ہونے لگیں ۔۔۔۔خوب مال پانی اکھٹا کیا
اور رات دن نیازی کے ڈیرے پر مُنڈلاتے ہوئے اُنہیں دیکھا گیا اور عام الیکشن میں جس طرح اُمیدواروں سے پیسے لے کر اُنہیں جاوید ہاشمی کے ذریعے ٹکٹیں دلائی گئی سارا جگ اس بات کا شاہد ہے ہمارے ”راہنمایان ِ قوم ” نے قوم سے اتنے جھوٹ بولے ہیں کہ اب ان کی کسی سچی بات پر بھی یقین کرنے کو دل نہیں کرتا باب العلم ، صاحب نہج البلاغہ ، حامل ذو الفقار حضرت علی کرم اللہ وجہ الریم سے کسی نے پوچھا ”آخر جھوٹ بولنے سے کیا نقصان ہو تا ہے حالانکہ جھوٹا آدمی ہر طرف سے فائدہ ہی اُٹھاتا ہے اور جھوٹ موٹ بول کر اِدھر اُدھر سے نفع سمیٹ لیتا ہے
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فر مایا ”ایسا چند دن ہو تا ہے اس کے بعد جھوٹ بولنے والے کو سب سے بڑا نقصان یہ ہو تا ہے کہ اس کی سچی بات کا اعتبار اور اعتماد ختم ہو جاتا ہے ”مگر بد قسمتی یہ ہے کہ قوم کا حافظہ بھی بہت ہی کمزور ہے بلکہ اب تو روز بروز بڑھتی ہوئی مہنگائی نے ویسے ہی عوام کی” مت ”مار دی ہے اگر عوام اپنے حافظے پہ ذرا سا بھی زور دے اور تصور میں لائے ”تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو ہمیں تو سب کچھ یاد ہے
ناں ” کوٹھوں پر جس طرح ہر رات بستر بدلتے ہیں اس سے کہیں بڑھ کر ہمارے سیاستدانوں کے اصول اور قاعدے بدلتے ہیں بلکہ اب تو پارٹیاں اور وفا داریاں بدلتے بھی دیر نہیں لگتی ،ایوان ِ اقتدار میں کھنکتی ڈالروںاور سکوں کی ذرا سی جھنکار سے ہمارے ”راہنمایان ِ قوم ” کے دل بھی دھڑکنا شروع کر دیتے ہیں اور مرغ بسمل کی طرح تڑپنا شروع کر دیتے ہیں کہ کب اس جھنکار کی مسحور کن آواز سے براہ راست لطف اندوز ہوا جائے بس ایک میٹنگ ہوئی اور فوراََ بعد پریس کانفرنس کھڑکائی جاتی ہے کہ ” ہم نے اصولوں کے فروغ اور عوام کی خدمت کے لیے فلاں لیگ یا پارٹی میں شمولیت کا فیصلہ کیا ہے ”
ہماری سیاست کا رویہ تشد آمیز اور ہنگامہ خیز ہے ، ہمارے مذہبی رویوں میں آتشیں اور زلزلہ آفریں جراثیم پائے جاتے ہیں ، ہماری بد قسمتی ہے کہ ہم آج تک اپنی سیاست میں استقلال ، مذہب میں استدلال اور سو سائٹی میں اعتدال پیدا نہیں کر سکے ہمارے سیاسی اکابرین کی اگر فہرست پیش کی جائے کہ جنہوں نے قیام ِ پاکستان کی جدو جہد میں عملاََ حصہ لیا تو عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ ایسے اُجلے اور نکھرے کردار کے لوگ بھی پاکستان کی سرزمین پر موجود تھے ؟ ان لوگوں کو بلا شبہ پہاڑی کا چراغ اور زمین کا نمک کہا جا سکتا ہے ، مگر افسوس اس بات کا ہے
آج ہماری سیاسی قیادتیں دماغ ، فکر ، کردار ، اوریجنیلٹی ، بیدار مغزی اور کشادہ نگہی سے یکسر کیوں محروم ہیں ؟ ”راہنمایان ِ قوم ” اپنا سارا زور اور توانائی دولت ، عصبیت ، طاقت ، جہالت ، خوشامد ، ذاتی وفاداری اور بونے پن پر کیوں صرف کر رہے ہیں ؟برملا کہا جا سکتا ہے کہ سرزمین پاک نہ تو فکری لحاظ سے بانجھ پن کا شکار ہے اور نہ ہی ذہنی طور پر بنجر ہے اللہ تعالیٰ نے اس کے سینے میں ایسے ایسے خزانے چھپا دیے ہیں اگر اُن کو صحیح جگہوں پر استعمال کیا جائے تو آج دنیا ہماری دہلیز کی محتاج ہو اور کاسہ لے کر ہمارے دروازے پر کھڑی اپنی سانسوں کو باقی رکھنے کے لیے بھیک مانگ رہی ہو ،مجھے اس موقع پر آبروئے صحافت جناب ِ مجید نظامی مرحوم کی وہ بات شدت سے یاد آرہی ہے
جو آپ نے کئی سال پہلے ”پاکستان تھنکرز فورم ” کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہی تھی کہ ”اسلام آباد میں امریکی سفیر مسٹر مونجو کا پاکستان میں مقام برطانوی عہد کے وائسرائے سے کم نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ ہماری دھرتی کا غریب ووٹر آج بھی حلقہ کے وڈیرے کی دہلیز پر ہاتھ باندھے غلاموں کی طرح اِسی انداز میں کھڑا نظر آتا ہے آنے والے الیکشن میں عمران خان بھی ٹکٹیں اُنہی لٹیروں کو دے گا
جنہوں نے ملک و قوم کا پیسہ بڑی بے دردی سے لوٹا ہے کیونکہ اِن کا مقام بھی پارٹی میں کسی وائسرائے سے کم نہیں ہوتا ، اُنہیں بھی وہی کروفر اور پروٹو کول ملتا ہے کیونکہ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو کبھی اِس پارٹی میں اور کبھی اُ س جماعت میں شمولیت کا ڈھونگ رچا کرغریب عوام کو بے وقوف بناتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔غریب ورکر پہلے بھی نعرے لگاتے تھا آنے والے الیکشن میں بھی اُس کا مقدر نعرے ہی ہوں گے ۔۔۔۔۔۔اِن لُٹیروں کے وارے نیارے ہوں گے ،اب بھی یہ ”لیڈر ” کوشش کریں گے کہ کسی ”ہو میو پیتھک ” ضلعی صدر کو سامنے لایا جائے تاکہ ہماری کرپشن پر پردہ پڑا رہے ،رہے نام اللہ کا۔۔۔ باقی سب مایہ ہے
تحریر : صاحبزادہ نعمان قادر