پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت کی جانب سے کفایت شعاری مہم کے سلسلے میں جن چار ہیلی کاپٹرز کو نیلام کرنے کا اعلان کیا ہے ان میں سے ایک بھی اڑان بھرنے کے قابل نہیں ہے۔
یہ ہیلی کاپٹر ماضی میں وفاقی حکومتوں کو امریکہ کی جانب سے دیے گئے تھے۔
چاروں ہیلی کاپٹرز ایک طویل عرصے سے پرزوں کی عدم دستیابی کی وجہ سے خراب حالت میں ہیں اور ان میں سے ایک بھی اڑان بھرنے کی صلاحیت (ایئر وردینیس) نہیں رکھتا۔
وزیراعظم عمران خان کے معاون خصوصی نعیم الحق کی جانب سے وفاقی حکومت کے زیر استعمال چار ہیلی کاپٹرز اور آٹھ بھینسوں کو نیلام کرنے کے اعلان والی ٹویٹ کے بعد وزیراعظم کے دفتر سے کابینہ ڈویژن کو ایک خط بھیجا گیا ہے جس میں چار ہیلی کاپٹرز کو نیلام کرنے کی تیاریاں کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
اس خط میں بھینسوں کا کوئی ذکر نہیں ہے جس کی وجہ ذرائع یہ بتاتے ہیں کہ ہیلی کاپٹر چونکہ کابینہ ڈوویژن کے زیرانتظام ہے اس لیے اسے ہیلی کاپٹرز کی نیلامی کی ذمہ داری دی گئی ہے۔
اس مراسلے کے جواب میں کابینہ ڈویژن نے وزیراعظم کے دفتر کو ان ہیلی کاپٹرز کی ’حالت زار‘ سے آگاہ کیا ہے جس کے مطابق ان چاروں میں سے ایک بھی ہیلی کاپٹر اس حالت میں نہیں ہے کہ اسے فوری طور پر فروخت کیا جا سکے کیونکہ ان سب کو اڑنے کے قابل بنانے کے لیے اچھی خاصی رقم خرچ کرنی پڑے گی۔
یہ چاروں ہیلی کاپٹرز پاکستان کو امریکہ نے ریلیف اور ریسکیو کے لیے تحفتاً دیے تھے۔
بیل ہیلی کاپٹر کمپنی کے بنائے ہوئے دو یو ایچ -ون ایچ ہیلی کاپٹر ماڈل 1971-74 اور دو 1993-1992 میں پاکستان آئے تھے۔
اس کے بعد پاکستان نے مزید کچھ چھ ہیلی کاپٹرز خریدے جو کہ نئے ماڈلز کے تھے اس لیے ان پرانے ہیلی کاپٹرز کی ضرورت نہیں رہی۔ ذرائع کے مطابق چاروں پرانے ہیلی کاپٹر غیر استعمال شدہ حالت میں کئی سال سے ہیلی پورٹس پر کھڑے ہیں۔
کابینہ ڈویژن کے ماہرین کا کہنا ہے کہ 1993-92 ماڈل کے ہیلی کاپٹرز کو تو چند پرزے ڈال کر قابل استعمال بنایا جا سکتا ہے لیکن اس پر بھی کروڑوں روپے خرچ ہوں گے۔
جبکہ 1974-71 ماڈل کے ہیلی کاپٹرز کو اڑنے کے قابل بنانا مزید مہنگا اور مشکل کام ہو گا۔ ہیلی کاپٹر دنیا بھر میں کافی معروف ہیں اور مختلف مقاصد کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں
ماہرین کا کہنا ہے کہ ہیلی کاپٹرز کی مینٹی نینس ایک بہت مہنگا کام ہے کیونکہ ہیلی کاپٹرز میں بعض پرزے ایسے ہوتے ہیں جنہیں ایک خاص مدت کے بعد بدلنا ہوتا ہے چاہے یہ ہیلی کاپٹر استعمال ہو یا نہ ہو۔
ذرائع کے مطابق ان ہیلی کاپٹرز کو فروخت کرنے میں ایک اور مسئلہ جو درپیش ہے وہ یہ کہ یہ تمام ہیلی کاپٹرز گو کہ ریلیف کے کام کے لیے آئے تھے لیکن یہ وہ ماڈلز ہیں جن پر جدید اسلحہ بھی نصب کیا جا سکتا ہے اس لیے انہیں کسی مقامی خریدار کو فروخت نہیں کیا جا سکتا۔
لیکن ان ہیلی کاپٹرز کی جو حالت ہے اور جتنے پرانے یہ ماڈلز ہیں، ان کا عالمی منڈی میں خریدار ڈھونڈنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہو گا۔
ذرائع کے مطابق ان ہیلی کاپٹرز کی قسمت کا حتمی فیصلہ وزیراعظم عمران خان کابینہ ڈویژن کی جانب سے بریفنگ کے بعد کریں گے۔