تحریر : انجینئر افتخار چودھری
یہ خبر میرے لئے حیران کن تھی کہ عمران خان نے کشمیر کو تین حصوں میں تقسیم کرنے کی تجویز دی ہے۔میرا خیال ہے پاکستان تحریک انصاف کو اس غلط خبر کی وجہ سے دھچکہ لگا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ عمران خان کی جانب سے یہ بیان کس زمرے میں لیا جاتا ہے۔ اسے صحافی کی غلط جان بوجھ کر رپورٹنگ یا پھر ایک غلطی بس ایسے ہی جیسے ہمارا میڈیا بعض اوقات ادھر ادھر کی چھوڑ دیتا ہے۔ کوئی تین سال پہلے کی بات ہے میں جدہ سے پاکستان آیا تھا۔ ان دنوں حریت کانفرنس کا ایک وفد میر واعظ فاروق کی قیادت میں پاکستان آیا ہوا تھا دیگر نامور لوگوں کے علاوہ مولوی عباس انصاری بھی اس وفد میں شامل تھے۔
برادر نعیم الحق نے مجھے بھی میزبانوں کی صف میں کھڑا کر دیا ۔جناب چیئرمین عمران خان چیئرمین تحریک انصاف جناب جاوید اختر ہاشمی صدر پاکستان تحریک انصاف جناب سردار اظہر طارق مرکزی فنانس سیکریٹری اور دیگر چند احباب بھی اس نشست میں شامل تھے جنہوں نے مقبوضہ کشمیر سے آئی ہوئی قیادت سے ملاقات کی۔مجھے بہت اچھی طرح یاد ہے جب کشمیری بھائیوں نے بات چھیڑی اور استفسار کیا کہ پاکستان تحریک انصاف کا کشمیر کے بارے میں کیا مو ء قف ہے؟جواب میں عمران خان نے دوٹوک کہا جو آپ کا مو ء قف ہے۔کوئی تاخیر کوئی تعطل اور کوئی ابہام نہ تھا۔
جناب چیئرمین نے میر واعظ عمر فاروق اور اس پورے وفد کو اپنی گفتگو کے سحر میں جکڑ لیا۔ان کا کہنا تھا کہ ہم کشمیریوں پر ہونے والے بھارتی مظالم پر خاموش نہیں رہ سکتے ہم چاہتے ہیں کہ خطے میں امن قائم ہو ہماری خواہش ہے کشمیری اپنی رائے کا اظہار کریں ۔ہماری کوئی دوسری خواہش یا مطالبہ نہیں کشمیر یوں کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت حق رائے شماری ملنا چاہئے۔
چائے کی اس پیالی پر تو کوئی ابہام نہ تھا سجاد لون اور دیگر کے سوالات بھی ہوئے کشمیری بھائیوں نے دل کھول کر عمران خان سے بات کی۔انہیں اس کا جواب وہی ملا جو وہ چاہتے تھے۔اس گفتگو میں سائیڈ گپ شپ بھی رہی۔ابھی ٢٠١٣ نہیں آیا تھا ایک صاحب نے مجھ سے چھبتا ہوا سوال کیا؟کہ ہم تحریک انصاف کو پاکستان کی بڑی پارٹیوں میں تو شمار کرتے ہیں لیکن مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کے بعد۔ان کا کہنے کا مقصد واضح تھا کہ آپ تیسرے درجے کی پارٹی ہیں۔
میرا جواب تھا گو میں اسے آداب میزبانی کے خلاف گردانتا ہوں لیکن بات کی ہی ایسے تھی کہ جواب دیے بغیر نہیں رہ سکا میں نے بھی کہہ دیا کہ حضرت اصل میں ہم بھی آپ کو مقبوضہ کشمیر کی ق لیگ سمجھتے ہیں اور ہمیں بھی علم ہے کہ اصل قیادت علی گیلانی کی ہے لیکن آپ آئے ہیں تو ملنا توتھا ہی۔میرا مقصد کسی کی دل آزاری نہیں تھا لیکن میرا یہ ذاتی نقظہء نظر تھا جو موصوف کے سوال کا جواب تھا۔
میں نے اپنے محبوب اخبار میں یہ خبر دیکھی تو رہ نہ سکا۔کل مرکزی دفتر جانا تھا مجھے برادر نعیم الحق سے مل کر استفسار کرنا تھا کہ ان چند سالوں میں کیا ہماری پارٹی نے اپنا نقطہ ء نظر بدل لیا ہے۔چند سال کیا عمران خان دو روز پہلے لاہور میں جو کچھ فرما رہے تھے یہ بات اس کے بلکل الٹ ہے۔لیکن اچھا ہوا ایک اچھے ترجمان کی حیثیت سے ان کا بیان آ گیا ہے جس میں انہوں نے اس بیان کی سختی سے تردید کی ہے۔
آج کل کشمیر میں انتحابات ہونے والے ہیں تحریک انصاف پہلی بار میں میدان میں اتر رہی ہے۔اس قسم کا بیان کیا تحریک انصاف کو چاروں شانے چت گرانے کے لئے گڑا گیا ہے ؟ایک طرف میرا قائد اور دوسری طرف وہ لوگ جن سے میرا ایک عشرے سے زائد کا تعلق ہے جنہیں میں بہت اچھی طرح جانتا ہوں جس اخبار میں دس سال سے لکھتا ہوں ۔یہ ہوا کیا ہے؟ کیا اس انٹرویو کی ریکارڈنگ موجود ہے؟ اگر ہے تو اسے سامنے آنا چاہئے مجھے دکھ اس بات کا ہے کہ پارٹی میں آٹھ سال سے میڈیا ڈیپارٹمینٹ سے منسلک رہا ہوں۔
آج کل انٹرا پارٹی انتحابات کی وجہ سے ذمہ داری نہیں ہے لیکن اخبار کے ذمہ داران کو تو پتہ ہے وہ پہلے تو مجھے بتا دیتے میں بھی بنی گالہ آ جاتا یا اس شہہ سرخی کو بناتے ہوئے پوچھ ہی لیتے کہ عمران خان کو کیا ہو گیا ہے؟ظاہر ہے یہ بیان اگر ان کی جانب سے ہے تو پی ٹی آئی کشمیر میں خاک الیکشن لڑے گی
بہر حال آج برادر نعیم الحق کی تردید آ گئی ہے۔تحریک انصاف کا مو ء قف بلکل واضح ہے ۔ہم کشمیریوں کی جد وجہد آزادی کو سلام پیش کرتے ہیں ہم سمجھتے ہیں کہ بھارت غاصب ہے اور اس نے اپنے ہی لیڈر کے وعدے کو ٹھوکر مار کر کشمیریوں کو محکوم بنا رکھا ہے۔ اس پار اور دوسری جانب کے کشمیری ان کو آزادی اظہار کا موقع دیا جائے رائے شماری کرائی جائے اور انہیں موقع دیا جائے کہ وہ ہند کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں یا پاکستان کے ساتھ۔ تحریک انصاف گلگت و بلتستان کی ھیئت کو بھی بدلنے کی مخالف ہے۔ ہمیں اس بات کا احساس ہے کہ کشمیر پاکستان کی شہہ رگ ہے اور بانی ء پاکستان قائد اعظم کی سوچ سے ہٹ کر چلنا تحریک انصاف کی موت ہے۔
تحریر : انجینئر افتخار چودھری