تحریر: غلام مرتضیٰ باجوہ
پاکستانی قوم پریشان ہے کہ چندسالوں سے جاری سیاسی تحریک انصاف اور ایم کیو ایم کی جنگ کیا رنگ لائی گی۔؟ عمران خان کہتے ہیں کہ پاکستان تحریک انصاف ایسے کسی فورم پر نہیں بیٹھے گی جہاں ایم کیو ایم موجود ہوگی اور ایم کیو ایم کے اراکین کو تجویز دی ہے کہ وہ اپنے سربراہ الطاف حسین سے الگ ہو جائیں۔ وزیراعظم نواز شریف سانحہ ماڈل ٹاؤن کی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم کی رپورٹ پر عمل درآمد کریں۔ متحدہ قومی موومنٹ کے سربراہ الطاف حسین لندن میں بیٹھ کر پاکستان میں عوام کو ہلاک کرواتے ہیں۔وقت آگیا ہے کہ جو الطاف حسین کی دہشت گردی ہے اس کے خلاف ساری قوم کھڑی ہو کراچی کے لوگ سارے کھڑے ہوں، ہم کراچی میں اپنی ٹیم تیار کریں گے۔279 غریب گھرانے کے لوگ مارے گئے سانحہ بلدیہ ٹاؤن میں اور اب جے آئی ٹی کی رپورٹ کہتی ہے کہ انھوں نے بھتے کی وجہ سے وہاں آگ لگائی۔وزیراعظم نواز شریف آپ کو ساری سیاسی جماعتوں نے مینڈیٹ دیا ہے ، آپ کی ذمہ داری ہے آپ اس رپورٹ پر ایکشن لیں۔ الطاف حسین نے ہماری خواتین کے خلاف جو بات کی ہم اس پر برطانیہ کی عدالت میں جائیں گے۔ الطاف حسین کے خلاف منی لانڈرنگ کا الزام ہے اور جماعت کے سابق رہنما عمران فاروق کا کیس بھی موجود ہے۔جو دو گواہ حکومت نے عمران فاروق کے قتل کے حوالے سے یہاں رکھے ہوئے ہیں انھیں برطانیہ کے حوالے کیا جائے۔ وہ الطاف حسین کے خلاف برطانوی حکومت کو خط لکھیں گے کیونکہ زہرا شاہد کو الطاف حسین کے بیان کے بعد قتل کیا گیا۔ وہ کراچی کو الطاف حسین کی دہشت گردی سے بچائیں گے۔
دوسری جانب متحدہ قومی موومنٹ نے کراچی کی ایک فیکٹری میں آتشزدگی میں ملوث ہونے کے الزامات کی سختی سے تردید کی ہے۔ اس حادثہ میں اڑھائی سو افراد جاں بحق ہوئے تھے۔ تاہم ملک کی ایک اہم پارٹی پر رینجرز کی اعلیٰ سطحی تحقیقاتی کمیٹی کی یہ رپورٹ دلخراش اور افسوسناک ہے۔ گو کہ اس حقیقت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ یہ تحقیقاتی رپورٹ ایک گواہ کے اقبالی بیان پر استوار کی گئی ہے۔
متحدہ قومی موومنٹ کو گزشتہ تین دہائیوں میں ایک معتبر سیاسی قوت کی حیثیت حاصل ہوئی ہے۔ یہ قوت مقبولیت کے علاوہ اس کے نظم و ضبط کی بھی مرہون منت ہے۔ کیونکہ صرف عوامی مقبولیت کی بنیاد پر تو کئی دوسری پارٹیاں متحدہ سے کہیں زیادہ طاقتور اور مقبول ہیں۔ انہیں ملنے والے ووٹ بھی ایم کیو ایم کے مقابلے میں بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ لیکن ان بڑی پارٹیوں کے برعکس ایم کیو ایم سیاسی قوت کے عملی مظاہرہ کے لحاظ سے ہمیشہ بھرپور صلاحیت کا مظاہرہ کرتی رہی ہے۔
الطاف حسین یا پارٹی کی رابطہ کمیٹی جب چاہیں ایک کال پر کراچی اور حیدر آباد کو بند کروا سکتے ہیں اور درپردہ سیاسی مفادات کے حصول کے بعد مؤقف تبدیل کرتے ہوئے یک بیک بالکل متضاد مؤقف اختیار کرتے ہوئے اس ہڑتال کو ختم کروانے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔ یہ صورتحال خاص طور سے اس لئے چونکا دینے والی ہے کہ متحدہ کو ووٹ دینے والے لوگوں کی اکثریت شہری آبادی پر مشتمل ہے۔ ان پر یہ قیاس کرنا ممکن نہیں ہے کہ وہ کسی جاگیر دارانہ استبداد کی وجہ سے لیڈر کے حکم پر عمل کرنے کے پابند ہیں۔ اس آبادی میں تعلیم اور روزگار کی شرح بھی دوسرے عوامی گروہوں کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔ اس کے باوجود جس طرح ایم کیو ایم نے کراچی اور حیدر آباد کی شہری آبادیوں کو کسی جادوئی قوت کی بنیاد پر ” کنٹرول ” کیا ہے اس سے متعدد شبہات جنم لیتے رہے ہیں۔
عالمی میڈیا رپورٹس کے مطابق کہ شروع میں اگرچہ ایم کیو ایم کے خلاف بات کرنا ایک گناہ عظیم تصور کیا جاتا تھا لیکن یہ صورتحال آہستہ آہستہ تبدیل ہوئی ہے۔ گزشتہ کچھ عرصہ سے متحدہ اور اس کی قیادت پر طرح طرح کے الزامات سامنے آتے رہے ہیں۔ سب سے زیادہ تواتر سے جو الزام عائد کیا جاتا ہے وہ مسلح جتھوں یا عسکری ونگز کے ذریعے لوگوں کو ہراساں کرنا اور مالی وسائل جمع کرنا ہے۔ متحدہ کے قائد الطاف حسین خود بھی اکثر بھتہ خوری کا ذکر کرتے رہتے ہیں۔ اگرچہ وہ یہ الزام کراچی میں مدمقابل سیاسی فورسز کو بدنام کرنے کے لئے عائد کرتے ہیں۔ تاہم رابطہ کمیٹی اور پارٹی کے دوسرے درجے کے لیڈروں سے اظہار ناپسندیدگی کے دوران الطاف حسین نے ان لیڈروں پر مالی بدعنوانیوں کے سنگین الزامات بھی عائد کئے تھے۔ اس کے باوجود وہ خود یا رابطہ کمیٹی کبھی ان لیڈروں کے خلاف کوئی انضباطی کارروائی کرنے یا ان کے معاملات پولیس کے حوالے کرنے میں کامیاب نہیں ہوئی۔ اس طرز عمل کو بدعنوانی کی باالواسطہ سرپرستی کے ثبوت کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے۔
اس سیاسی مقابلہ بازی اور اس کے نتیجے میں طے پانے والے مفاہمتی معاہدوں کے نتیجے میں پولیس فورس کو بھی ایک غیر جانبدار پروفیشنل فورس بنانے کی بجائے سیاسی مفادات کا اکھاڑا بنا لیا گیا۔ جس پارٹی کو جتنا اختیار اور قوت حاصل ہوئی اس نے اسی قدر پولیس میں ” اپنے ” لوگوں کو بھرتی کروانے کے لئے اقدامات کئے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ جرائم کی روک تھام اور کراچی میں کسی حد تک امن قائم رکھنے کے لئے رینجرز گزشتہ کئی برس سے سول معاملات کی نگرانی پر مامور ہے۔
اب 2012 میں بلدیہ ٹائون کی فیکٹری میں آتشزدگی کے حوالے سے ایم کیو ایم پر الزامات عائد کئے گئے ہیں۔ اس سانحہ میں 258 افراد ہلاک ہوئے تھے اور تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق یہ آگ بھتہ خوری کی خاطر ایم کیو ایم کے لیڈروں نے لگوائی تھی۔ اس افسوسناک رپورٹ کے انکشاف کے بعد ایم کیو ایم نے بظاہر جارحانہ لیکن در پردہ مفاہمانہ حکمت عملی سے حسب سابق بحران پر قابو پانے کی کوشش کی ہے۔ یہ خبریں بھی سامنے آ رہی ہیں کہ ایم کیو ایم اس مشکل سے نکلنے کے لئے دوبارہ پیپلز پارٹی کے ساتھ تعاون پر آمادہ ہو رہی ہے اور جلد ہی سندھ حکومت میں شامل ہو جائے گی۔
اس پس منظر میں یہ سمجھنا مشکل نہیں ہے کہ ملک میں سیاسی بدعنوانی کا دائرہ کار صرف مالی معاملات تک محدود نہیں ہے بلکہ سیاسی پارٹیاں اپنے جرائم پر پردہ ڈالنے کے لئے بھی سیاسی رسوخ استعمال کرنے سے گریز نہیں کرتیں۔ تاہم بلدیہ ٹائون فیکٹری رپورٹ میں ایم کیو ایم پر براہ راست الزام سامنے آنے سے یہ بات بھی واضح ہوئی ہے کہ ملک کی سکیورٹی فورسز امن و امان اور قانون پر عملداری کی صورتحال سے مطمئن نہیں ہیں اور اسے تبدیل کرنا چاہتی ہیں۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ پشاور سانحہ کے بعد سامنے آنے والے حالات میں اس قسم کے کئی اشارے دیکھنے کو ملے ہیں کہ اب صاحبان بست و کشاد ملک میں لاقانونیت اور انتہا پسندی کے مزاج اور کلچر کو ختم کرنے کے لئے سنجیدہ ہیں۔ ایم کیو ایم کے خلاف رینجرز کی تازہ ترین رپورٹ کو بھی اسی تناظر میں دیکھنا ہو گا۔ متحدہ اور اس کی قیادت کو یہ باور کرنا ہو گا کہ انتہا پسندی کے خلاف مہم اسی وقت کامیاب ہو گی جب ملک میں سیاسی مفاد پرستی اور جبر و زبردستی کی صورتحال کو تبدیل کیا جا سکے۔ یہ تو ممکن ہے کہ ایم کیو ایم کسی نہ کسی طرح موجودہ بحران سے جانبر ہو جائے لیکن اگر اس نے مجرمانہ عناصر کی سرپرستی کے سلسلہ میں اپنا رویہ تبدیل نہ کیا تو اس پارٹی کا سیاسی مستقبل مخدوش ہو گا۔
تحریر: غلام مرتضیٰ باجوہ