یہ روایت دنیا بھر میں موجود ہے کہ اپوزیشن جماعتیں الیکشن سے قبل نہ صرف اپنا منشور، پالیسی اور وژن پیش کرتی ہیں بلکہ آپریشنل معالات جیسے شیڈو بجٹ اور حکومت کے پہلے 100دن کی ترجیحات کی تفصیل بھی عوام کے سامنے رکھتی ہیں۔ پاکستان میں بھی اس روایت کی بنیاد تحریک انصاف نے اپنے 100 روزہ پلان کے زریعے رکھ دی ہے۔
پی ٹی آئی کے 100روزہ پلان میں خارجہ، داخلہ، زرعی اورمعاشی شعبوں پر خاص فوکس کیا گیا ہے۔شاہ محمود قریشی کو پی ٹی آئی کا شیڈو وزیر خارجہ تصور کیا جا رہا تھا مگر آج اس نے داخلہ اور شیریں مزاریں نے خارجہ پالیسی پر تفصیلات بیان کر کے یہ واضح اشارہ دیا ہے کہ شاہ صاحب وزیر اعلی ٰپنجاب جبکہ شیریں مزاریں وزیر خارجہ کی امیدوار ہیں۔
جیسا کہ متوقع تھا داخلی معاملات میں پی ٹی آئی نے طاقت کی نچلی سطح پر منتقلی اور داخلی اتحاد کو مرکزی جگہ دی۔ اس کی سٹریجٹیک پالیسی کے مطابق فاٹا کو کے پی میں ضم کرنا، پنجاب کی دو حصوں میں تقسیم، ناراض بلوچوں کی قومی دھارے میں واپسی ، بلدیاتی نظام کی مزید نچلے لیول پر منتقلی اور گڈ گورننس شامل ہیں۔
جہانگیر ترین کی زرعی پالیسی کا بنیادی فوکس زرعی ریسرچ اور زرعی ایمرجنسی کے نفاذ پر تھا۔ زرعی ایمرجنسی کے آپریشنل پلان میں وہی پرانی باتیں جیسے کسانوں کی مالی امداد، سبسڈیز، سستے قرضوں جیسے منصوبے تھے جن کا پچھلی حکومتیں بھی بار بار اعلان کرتی رہی ہیں اور اس پر کچھ حد تک عملدرآمد بھی ہوتا رہا ہے۔ اس پالیسی میں نئی بات زرعی ریسرچ پر فوکس ہے۔ حالانکہ یہ 100 روزہ ایجنڈے میں کسی طرح بھی فٹ نہیں بیٹھتا مگر پاکستان کی زراعت کے مستقبل کے لئے یہ ایک بہترین اور بنیادی قدم ہے۔
اسد عمر پر سب کی نظریں تھیں کہ وہ بدحال معیشت کے لئے کس جادو کی جپھی کا اعلان کرتے ہیں مگر اسد عمر کے اعلان کردہ نکات میں سے ایک بھی 100 روزہ پلان کا حصہ نہیں تھا بلکہ یہ لانگ ٹرم معاشی پالیسی کا اعلان تھا۔ اس کی وجہ شائد یہ بھی ہے کہ معیشت کے متعلق 100 روزہ پلان بنانا غیر منطقی ہے کیونکہ معیشت ایک منظم سسٹم کا نام ہے اور اسے 100 روزہ قید میں بند نہیں کیا جا سکتا۔ البتہ پہلے 100 دن کے متعلق اس عمر نے بینکنگ، ایف بی آر اور ٹیکس ریفارمز پیکج کا ذکر ضرور کیا۔اس پیکج کے خدوخال البتہ غیر واضح ہیں۔ لانگ ٹرم معاشی پالیسی میں سب سے اہم نقطہ یہ تھا کہ اداروں کو بیچنے کی بجائے انہیں بہتر کیا جائے گا تاکہ یہ ادارے ایک طرف تو منافع کما کر حکومتی بجٹ خسارہ کم کریں اور دوسری طرف ان قومی اداروں میں نئی ملازمتوں کے زریعے روزگار کے لاکھوں مواقع پیدا کئے جا سکیں۔ ان سفید ہاتھیوں کو منافع بخش کاروبار میں تبدیل کرنا اتنا آسان نہیں ہے۔ اسد عمرکی زندگی کا سب سے چلینجنگ مرحلہ شروع ہونے والا ہے۔
خارجہ پالیسی میں تمام روائتی باتوں کے ساتھ ساتھ ایک دلچسپ اعلان جسے آج کی ہیڈ لائن ہونا چاہئے وہ نیشنل سیکیورٹی آرگنائزئشن بنانے کا اعلان تھا۔ حالانکہ نیشنل سیکیورٹی کونسل پہلے سے موجود ہے جس میں فوج اور سول حکومت کے سربراہان داخلہ پالیسی میں ایک دوسرے کی رائے دریافت کرتے ہیں مگر یہ نیشنل سیکیورٹی آرگنائزیشن اس لحاظ سے منفرد ہے کہ یہ دفتر خارجہ کے تحت کام کرے گی۔ یعنی پی ٹی آئی نے واضح اشارہ دیا ہے کہ وہ اپنی خارجہ پالیسی میں فوج کے موقف کو بہتر طریقے سے شامل کرے گی۔ میرے نزدیک یہ سول ملٹری تعلقات کے تناظر میں ایک انتہائی مثبت اور دور رس قدم ہے۔
یہ 100 روزہ پلان کسی بھی طرح سے پرفیکٹ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ زرعی قانون سازی اور زرعی ٹیکس اصلاحات اس پلان میں شامل نہیں۔ خارجہ پالیسی کے پہلو کو شائد جان بوجھ کر کسی بھی قسم کے تنازعے سے بچنے کے لئے محدود رکھا گیا۔ شدت پسند تنظیموں کے متعلق بھی کوئی واضح حکمت عملی پیش نہیں کئی گئی مگر اس کے باوجود پاکستان میں یہ ایک اچھی روایت کا آغاز ہے جس میں وقت کے ساتھ ساتھ مزید بہتری آتی جائے گی۔ سب سے اہم بات ان تمام نقاط پر ڈیلیور کرنا ہے۔