پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کی سرگرم خاتون رہنما ثنا اعجاز نے پشاور پولیس کو درخواست دی ہے کہ انھیں نہ صرف جان سے مارنے کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں بلکہ 11 مئی کو ایک نامعلوم شخص نے ان پر پستول بھی تان لیا۔
’فون پر دھمکیاں تو مجھے ایک عرصے سے دی جا رہی تھیں، جون سنہ 2018 میں پہلی مرتبہ ایک شخص مجھ سے ملنے آیا اور کہا کہ پی ٹی ایم کو خیر باد کہہ دو ورنہ آپ کو جان سے مار دیں گے۔‘
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ثنا اعجاز کا کہنا تھا کہ انھوں نے ان دھمکیوں کو کبھی بھی سنجیدہ نہیں لیا، لیکن چھ مئی کو آنے والی کال اور پھر 11 مئی کو ان پر پستول تانے جانے کے واقعہ نے انھیں پولیس کو ایف آئی آر کے لیے درخواست دینے پر مجبور کر دیا۔
خیال رہے کہ پی ٹی ایم نے ثنا اعجاز کو مبینہ دھمکیاں ملنے پر جمعرات اور جمعہ کی درمیانی شب سوشل میڈیا پر ہش ٹیگ ’ثنااعجاز کو دھمکیاں دینا بند کرو‘ مہم بھی چلائی۔
تحریک کے سربراہ منظور پشتین نے ٹویٹ کرتے ہوئے ثنا اعجاز کو دھمکیاں ملنے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ پشتون سرزمین پر دھمکیوں سے آواز دبانے کی پالیسی پرانی ہے۔
ثنا اعجاز کی جانب سے پشاور پولیس کو دی گئی درخواست میں کہا گیا ہے کہ چھ مئی کو شام 6 بج کر 15 منٹ پر انھیں ایک نمبر سے کال آئی اور جان سے مارنے کی دھمکیاں دی گئی۔
درخواست میں وہ نمبر بھی لکھا گیا ہے، جن کا کنٹری کوڈ برطانیہ کا ہے لیکن باقی ہندسے برطانیہ کے عام فون نمبر سے زیادہ ہیں۔
ان کے بقول 11 مئی کو جب وہ ایک ٹیکسی میں پشاور کے علاقے حیات آباد سے یونیورسٹی ٹاون کی جانب جا رہی تھی تو سرخ کار میں سوار ایک شخص نے ان پر پستول تان لیا۔
ثنا اعجاز نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے پولیس کو دی گئی درخواست کے بارے میں کہا کہ ان کی جدوجہد پاکستان کے آئین اور قانون کے تحت ہے اور انھوں نے کوئی غیر قانونی کام نہیں کیا ہے۔
’جس طرح ہماری تنظیم کی جدوجہد پاکستان کے آئین اور قانون کے اندر ہے بالکل اسی طرح میری جدوجہد بھی آئین اور قانون کے اندر ہے۔ پاکستان کے ایک شہری کی حیثیت سے میری حفاظت میرا آئینی اور قانونی حق ہے۔‘
34 سالہ ثنا اعجاز گذشتہ دس سالوں سے پشاور میں ایک سماجی اور سیاسی کارکن کی حیثیت سے کام کر رہی ہیں۔
پی ٹی ایم سے پہلے وہ نیشنل یوتھ آرگنائزیشن کی صوبائی نائب صدر اور پختونخوا اولسی تحریک کے ساتھ ساتھ مختلف سماجی اور سیاسی تنظیموں سے منسلک رہی ہیں۔