تحریر: اختر سردار چودھری کسووال
عیدالفطر کے دن ضلع ہوشیارپور کے گاؤں میانی افغاناں میں حبیب جالب مارچ کی 24 تاریخ کو 1928 ء میں پیدا ہوئے، آپ کے والد کا نام عنایت اللہ والدہ کا رابعہ بصری تھا۔ باپ جفت ساز تھا، اس کے بنائے ہوئے کھسے علاقے بھر میں مشہور تھے ۔ 1942 ء میں حبیب بھی پنجم پاس کرکے گاؤں سے دہلی آگیا۔جہاں انہیں سکول میں داخل کروا دیا گیا۔ دہلی میں اس کے بھائی مشتاق احمد پہلے نوکری کر رہے تھے اور ان کے محکمے سے ” آج کل ” شائع ہوتا تھا ،جس کے مدیر جوش ملیح آبادی تھے ۔ اس طرح ان کو شعراء کی قربت حاصل ہو گئی جس وجہ سے ساتویں جماعت کے امتحانی پرچے میں ”وقت سحر” کا جملہ بناتے ہوئے شعر ہوگیا۔
وعدہ کیا تھا آئیں گے امشب ضرور وہ
وعدہ شکن کو دیکھتے ”وقت سحر” ہوا
دلی میں ہی حبیب نے دوسرا شعر بھی کہہ دیا تھا۔ اسکول کے سامنے مسجد تھی، اساتذہ اور طلباء نماز پڑھتے تھے ، نماز کے بعد دعا بھی ہوتی تھی تو ایک دن حبیب نے شعر کہا
مدتیں ہوگئیں خطا کرتے
شرم آتی ہے اب دعا کرتے
جب وہ نویں جماعت میں پہنچے تو پاکستان کا قیام عمل میں آیا،چنانچہ ان کے والدین دوسرے مہاجرین کی طرح پاکستان آ گئے ۔ انہوں نے کراچی کو اپنا مسکن بنایا۔ جہاں بڑے بھائی مشتاق نے محکمہ اطلاعات و مطبوعات میں شمولیت اختیار کی۔ حبیب کو والدین نے گورنمنٹ ہائی اسکول جیکب لائن کراچی میں داخل کرادیا۔ حبیب جالب ایک عوامی شاعر تھے، انہوںنے عوام الناس کے خیالات اور جذبات کی ترجمانی انتہائی خوبصورت انداز سے کی کہ آج بھی ان کی غزلیں نظمیں عوامی اجتماعات میں پڑھی جاتی ہیں۔ دل میں اتر جانے والی شاعری کے خالق محبوب شاعر کو عوام نے ”شاعر عوام ” کا خطاب دیا ۔حبیب جالب کی سب سے مشہور نظم جس نے حبیب کو حبیب جالب بنایا وہ تھی ”دستور” اس نظم سے ہی جالب کی انقلابی شاعر کے دور کا آغاز ہوا۔ اس نظم نے حکومت وقت کو بھی ہلاکر رکھ دیا، حبیب جالب نے اپنی یہ نظم سب سے پہلے مری کے ایک مشاعرہ میں پڑھی تھی، پھر کیا تھا، گلی گلی کوچہ کوچہ ہر ایک زبان پر
یہی نظم تھی ۔اور آج تک ہے ۔
دیپ جس کا محلات ہی میں چلے
چند لوگوں کی خوشیوں کو لے کر چلے
وہ جو سائے میں ہر مصلحت کے پلے
ایسے دستور کو صبح بے نور کو
میں نہیں مانتا ، میں نہیں جانتا
حبیب جالب کو اس نظم کی پاداش میں جیل جانا پڑا۔ نظریاتی طو پر حبیب جالب سوشلسٹ خیالات رکھتے تھے ۔ انہوں نے ولی خان کی جماعت نیشل عوامی پارتی میں باقاعدہ شمولیت اختیار کرلی تھی اور آخر وقت تک اسی جماعت سے وابستہ بھی رہے ۔
مجھے فکر امنِ عالم ، تجھے اپنی ذات کا غم
میں طلوع ہورہا ہوں ، تو غروب ہونے والا
حبیب جالب نے 1956ء میں لاہور میں رہائش اختیار کی۔پہلا مجموعہ کلام برگ آوارہ کے نام سے 1957ء میں شائع ہوا۔
پاکستان میں 1958ء میں پہلا آمریت کا دور شروع ہوا ،1962ء میں اسی ایوبی آمریت نے نام نہاد دستور پیش کیا ،جس پر جالب نے اپنی مشہور زمانہ نظم کہی میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا۔ 1970ء کے انتخابات کے بعد جنرل یحییٰ خان کے دور میں بھی جالب خاموش نہ رہا۔
گماں تم کو کہ رستہ کٹ رہا ہے
یقیں مجھ کو کہ منزل کھو رہے ہو
1974 ء میں وزیر اعظم بھٹو جن کے کندھوں پے بیٹھ کر مسند اقتدار پر پہنچے تھے، ان سب کو نام نہاد حیدرآباد سازش کیس میں بند کردیا،اسی دور میں جالب نے کہا۔
قصر شاہی سے یہ حکم صادر ہوا،
لاڑکانے چلو، ورنہ تھانے چلو۔
ضیاء الحق کے مارشل لاء کے دور میں جالب نے کہا،ظلمت کو ضیا ئ، صر صر کو صبا ،بندے کو خدا کیا لکھنا۔
آمریت کے بعد جب پیپلز پارٹی کا پہلا دور حکومت آیا اور عوام کے حالات کچھ نہ بدلے تو جالب صاحب کو کہنا پڑا
وہی حالات ہیں فقیروں کے
دن پھریں ہیں فقط وزیروں کے
ہر بلاول ہے دیس کا مقروض
پاؤں ننگے ہیں بے نظیروں کے
آپ نے فلمی گیت بھی لکھے، ان میں فلم ”زرقا” گلوکار مہدی حسن کا یہ گانا بہت مقبول ہوا ۔
تو کہ ناواقفِ آدابِ غلامی ہے ابھی
رقص زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے
جالب کو دکھوں اور بیماریوں نے گھیر لیا تھا، ان کی صحت دن بدن گرتی ہی جارہی تھی۔ آخریہ بے مثال شاعر 12 اور 13 مارچ 1993 ء کی درمیانی رات ساڑھے 12 بجے شیخ زید اسپتال لاہور میں اس فانی دنیا سے کوچ کر گیا ۔
اب رہیں چین سے بے درد زمانے والے
سو گئے خواب سے لوگوں کو جگانے والے
آپ کو نگار ایوارڈ ، انجمن تحفظ حقوق نسواں ایوارڈ ، گریجویٹ ایوارڈ، حسرت موہانی ایوارڈ ، جمہوریت ایوارڈ ، سوھن سنگھ جوش ایوارڈ، قومی فلم ایوارڈ ، نگار ایوارڈ اور ، نشان امتیاز بعد از مرگ حکومت پاکستان نے عطا کیا۔حبیب جالب پر تحقیق و توصیفی کام کرنے والوں میں مجاہد بریلوی کا نام سب سے اہم ہے انہوں نے حبیب جالب پر درج ذیل کتب لکھ کر حق دوستی ادا کر دیا ”جالب جالب’ ‘کوئی تو پرچم لے کرنکلے ” بیادِ جالب” وغیرہ
حبیب جالب کامجموعہ ”سر مقتل” ان کی سیاسی شاعری ہے۔ ایوب خان کے دور میں یہ مجموعہ چھپا اور چھپتے ہی ضبط کر لیا گیا۔اس سے جالب اور مشہور ہوئے ۔بحرحال حبیب جالب کے جو مجموعے منظر عام پر آئے، ان میں برگ آوارہ، سرمقتل، عہد ستم، ذکر بہتے خون کا، گوشے میں قفس کے ، عہد سزا، حرف حق،صراط مستقیم۔گنبدِ بیدار، احادِ ستم اس شہر خرابی میں ،جالب نامہ، حرف سردار، کلیات حبیب جالب اور فلمی گیتوں کا مجموعہ رقصِ زنجیر شامل ہے ۔
تحریر: اختر سردار چودھری کسووال