لاہور (ویب ڈیسک) میں کل جب مسقط سے لاہور پہنچا تو کئی ادھورے کام یاد آئے۔ یاد آیا کہ وزیر اطلاعات و ثقافت فیاض الحسن چوہان نے الحمرا لاہور میں کل پاکستان محفلِ مشاعرہ کے انعقاد کا کہا تھا۔ انہیں فون کیا تو وہ بہاولپور میں تھے۔ پھر یاد آیاکہ وزیراعلیٰ عثمان بزدار نامور کالم نگار منصور آفاق اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ سے سرائیکی زبان کے سب سے اہم شاعر اقبال سوکڑی کے ساتھ لاہور میں ایک شام منانے کا وعدہ کیا تھا۔ میں نے وزیراعلیٰ کے ترجمان ڈاکٹر شہباز گل کو فون کیا تو انہوں نے بھی یہی کہا کہ ہم ابھی بہاولپور میں ہیں، واپس آتے ہیں تو ملتے ہیں۔ میں نے فوراً چیک کیا کہ یہ بہاولپور میں کیا ہو رہا ہے تو کئی عجیب و غریب منظر دکھائی دئیے۔ عثمان بزدار کی گاڑی بہاولپور ایئر پورٹ سے سرکٹ ہائوس روانہ ہوئی تو انہوں نے کہا ’’گاڑی بہاولپور جیل کی طرف موڑ دو۔ وزیراعلیٰ کے لئے ایئر پورٹ سے سرکٹ ہائوس تک روٹ لگایا گیا تھا مگر وہاں کی پولیس اور عوام نے پہلی بار یہ عجیب و غریب منظر دیکھا کہ روٹ کسی اور سڑک پر لگا ہوا ہے اور عوامی وزیراعلیٰ کی گاڑی کسی اور سڑک پر بغیر پروٹوکول کے چل رہی ہے۔ ایک شعر جو میں نے کبھی عمران خان کے لئے کہا تھا۔ وہی اس وقت عثمان بزدار کی نذر کرتا ہوں۔۔ لاکھوں ہیں جانثار کروڑوں دعائیں ہیں ۔۔ تیرے پروٹوکول میں پولیس ہو نہ ہو ۔۔۔ وزیراعلیٰ نے بہاولپور جیل کا اچانک دورہ کیا۔ سپرنٹنڈنٹ موجود نہیں تھے، بیرکس کا معائنہ کیا اور ناقص انتظامات پر ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ جیل کو معطل کر دیا۔ قیدیوں سے پوچھا کہ سردی سے محفوظ رہنے کا انتظام درست ہے یا نہیں۔ کوئی اور مسئلہ ہے تو مجھے بتائیں، اُن کی شکایات سنیں۔ کم عمر قیدی بچوں سے بات چیت کی۔ بیرکوں کے ٹی وی فوری طور پر ٹھیک کروانے کاحکم دیا۔ اُن کے کچن میں گئے۔ پلیٹ میں پڑا ہوا سالن اور روٹی کھا کر کھانے کا معیار چیک کیا اور کھانے کے بارے میں غلط بیانی پر جیل حکام کی سرزنش کی۔ وزیراعلیٰ ماڈل بازار گئے، آتشزدگی سے متاثرہ دکانداروں سے گفتگو کی۔ انہیں ان کے نقصان کے ازالے کی یقین دہانی کرائی اور حکم دیا کہ فوری طور پر متاثرہ دکانوں اور اسٹالز مالکان کے نقصانات کا تخمینہ لگایا جائے اور دکانوں کی دوبارہ تعمیر کے لئے فوری اقدامات کیے جائیں۔ وزیراعلیٰ بہاولپور وکٹوریہ اسپتال کی ایمرجنسی میں بھی اچانک پہنچ گئے، مریضوں اور لواحقین سے گفتگو کی، ان سے انتظامات کے متعلق پوچھا۔ یقیناً اُن کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے پنجاب حکومت کے باقی وزیروں نے بھی وہاں اپنے محکموں کی کارکردگی کا تفصیلی جائزہ لیا ہو گا۔ تاریخ میں پہلی بار بہاولپور میں پنجاب کابینہ کا اجلاس منعقد کرنے کا مقصد ہی یہی تھا کہ پنجاب کا وہ علاقہ جو محرومیوں کا شکار ہے، وہاں کے لوگوں کو احساس ہو کہ وہ بھی اُسی طرح پنجاب میں رہتے ہیں جس طرح باقی لوگ۔ بہاولپور میں کابینہ اجلاس سے عوام کو یہی پیغام دیا گیا ہے کہ پنجاب کے تمام لوگ برابر ہیں اور اُن کے ساتھ برابری کی سطح پر سلوک کیا جائے گا۔ یقیناً اس اجلاس سے احساسِ محرومی میں کچھ کمی ہو گی۔ تھل، روہی اور چولستان میں بہتری آئے گی جہاں کی سلگتی ریت میں صرف پیاس اگتی ہے۔ جہاں شاعر یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ ’’میں تسا میڈی دھرتی تسی۔ تسی روہی جائی۔ میکوں آکھ نہ پنج دریائی۔ (میں پیاسا، میری دھرتی پیاسی۔ مجھے پیاسی روہی نے جنم دیا ہے۔ مجھے پانچ دریائوں والا مت کہو) اسی حوالے سے مہرے والا جام پور کے عاشق بزدار کا یہ مصرع تو چہار دانگ مشہور ہو چکا ہے۔ ’’اساں قیدی تخت لہور دے‘‘۔ وقت وقت کی بات ہے اس وقت تو تختِ لاہور پر ایک بزدار ہی تخت نشیں ہے مگر اُس بزدار نے عوام کو تخت پر بٹھا کر تخت اپنی گردن پر اٹھا لیا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کا حامی و ناصر ہو۔ اس وقت بہاولپور میں پنجاب کابینہ کا اجلاس شروع ہے۔ بیس نکاتی ایجنڈے پر غور کیا جا رہا ہے۔ سرائیکی علاقے کی محرومیاں ہی زیر بحث ہیں، خاص طور پر تعلیمی اداروں اور اسپتالوں میں بہتری کے متعلق نئے اقدامات کئے جا رہے ہیں۔ اُس علاقے کے ہر چھوٹے بڑے شہر، ہر قصبے گائوں میں ترقی کے لئے کئی نئے پروجیکٹ شروع کئے جانے لگے ہیں تاکہ وہاں کے لوگوں کو بھی وہی سہولتیں میسر ہوں جو باقی پنجاب کے لوگوں کو حاصل ہیں۔ جنوبی پنجاب کے تیرہ اضلاع ایسے ہیں جہاں پنجاب کے اکیس اضلاع کے مقابلے میں انفرااسٹرکچر بری طرح تباہ ہے۔ نو زائیدہ بچوں کی شرحِ اموات بہت زیادہ ہے۔ پینے کا صاف پانی ایک سنگین مسئلہ ہے۔ دور دراز علاقوں کے لوگ ابھی تک اُسی تالاب سے پانی پیتے ہیں جہاں سے جانور یعنی اکیسویں صدی میں بھی ٹوبہوں سے پانی پیا جا رہا ہے۔ یہاں کے دیہات میں کہیں بھی گیس نہیں۔ دور دراز علاقوں میں بجلی بھی موجود نہیں۔ خود وزیراعلیٰ عثمان بزدار کے گھر میں بجلی نہیں تھی۔ ان کے علاقے میں ان کے وزیراعلیٰ بننے کے بعد بجلی فراہم کی گئی ہے۔ وہ علاقےسیوریج کے شعبےمیں بہت پیچھے ہیں۔ وہاں اب بھی انسانی گندگی انسانی سروں پر اٹھائی جارہی ہے۔ یہ اضلاع کسی بھی معاملے میں اقوام متحدہ کے ملینیم ڈویلپمنٹ گولز پر پورے نہیں اتر رہے۔ زراعت کے شعبے میں بھی یہاں کے حالات بہت ابتر ہیں۔ کسان تقریباً تباہ ہو چکا ہے۔ ان اضلاع میں بہاولپور، بہاولنگر، رحیم یار خان، ڈیرہ غازی خان، لیہ، مظفر گڑھ، راجن پور، ملتان، خانیوال، لودھراں وہاڑی، بھکر اور میانوالی شامل ہیں۔عثمان بزدار نے وزیراعلیٰ بنتے ہی کہا تھا ’’آنے والے دنوں میں جنوبی پنجاب میں بسنے والوں کو کام کیلئے لاہور نہیں آنا پڑے گا‘‘۔ اس بات پر بھی غور کیا جا رہا ہے کہ فوری طور پر ایک سیکرٹریٹ جنوبی پنجاب میں بھی بنا دیا جائے۔ علاقے کے لئے ایک علیحدہ چیف سیکرٹری اور آئی جی پولیس ہو۔ اسی طرح باقی تمام انتظامی شعبوں کے سربراہوں کے دفاتر بھی اس علاقے میں بنا دئیے جائیں کہ وہ لوگ جو ڈیڑھ دن کا سفر کر کے لاہور پہنچتے ہیں، صرف ایک کلرک سے ملنے کے لئے کئی کئی دن ہوٹلوں میں ٹھہرتے ہیں، انہیں اس مشکل سے نجات دلائی جائے۔ مجھے اس حوالے سے فاروق روکھڑی کا ایک گیت یاد آ رہا ہے جسے عطا اللہ عیسٰی خیلوی نے گایا ہے۔ دکھاں دی اپیل کرے کیویں مجبور وے ۔۔ اُچیاں عدالتاں دے پینڈے وڈے دور وے ۔