تحریر:بلال احمد
دنیا میں اس وقت سات ارب افراد کو روزانہ پانی اور خوراک کی ضرورت ہوتی ہے جن کی تعداد سنہ دوہزار پچاس تک بڑھ کر نو ارب ہونے کی توقع ہے۔ ہرانسان روزانہ دو سے چار لیٹر پانی پیتا ہے جس میں خوراک میں موجود پانی بھی شامل ہے۔ پاکستان دنیا کے ان سترہ ممالک میں شامل ہے جو پانی کی قِلت کا شکار ہیں۔ پاکستان میں پانی کی مقدار اور معیار دونوں کے مسائل ہیں۔ جب پاکستان وجود میں آیا تو اس وقت ہر شہری کے لیے پانچ ہزارچھ سوکیوبک میٹر پانی تھا جو اب کم ہو کر ایک ہزار کیوبک میٹر رہ گیا ہے اور سنہ دو ہزار پچیس تک آٹھ سو کیوبک میٹر رہ جائیگا۔ خوراک کادارومدار بھی پانی پر ہی ہوتاہے اس لیے پانی کے مزید ذخائر بنانیکی اشد ضرورت ہے کیونکہ سنہ انیس سو چھہتر کے بعد سے پانی کا کوئی اہم ذخیرہ تعمیر نہیں ہوا۔
پانی کی مقدار میں کمی کے علاوہ اس کا معیار بھی انتہائی پست ہے اور عالمی ادارہ صحت کے معیار کے مطابق پاکستان کی صرف اٹھارہ فیصد آبادی کو پینے کا صاف پانی ملتا ہے۔ پاکستان میں پانی سے متعلق قومی پالیسی بنانیکی ضرورت ہے تاکہ پانی کے نئے ذخیرے تعمیر کیے جائیں، پانی کو محفوظ بنانیکی ٹیکنالوجی استعمال کی جائے اور بارش کے پانی کو زراعت کیلیے استعمال کے قابل بنایاجائے۔ پاکستان میں پانی کی کمی دور کرنے کے لیے پانی کو ذخیرہ کرنیکی ضرورت ہے اگرسیلاب کے پانی کو محفوظ کر لیا جاتا تو یہی پانی زراعت اور بجلی پیدا کرنے کے کام آتا۔آلودہ پانی سے جو مسائل پیدا ہورہے ہیں انہیں عوام میں شعور بیدار کرکے کم کیا جاسکتاہے۔ آلودہ پانی کی وجہ سے ملک میں بچوں کی اموات کا سب سے بڑا سبب ڈائریا ہے اور بچوں میں غذائی کمی کی ایک بڑی وجہ بھی پانی ہے۔ملک میں پینے کے صاف پانی کی عدم دستیابی کسی قدرتی آفت سے کم نہیں۔ پاکستان میں پینے کے صاف پانی کی عدم دستیابی ایک سنگین مسئلہ بن چکا ہے اور ہر سال چالیس ہزار بچے اس کے باعث اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ آلودہ پانی پینے کے باعث ہونے والی ہلاکتیں ملیریا یا ہیپا ٹائٹس سے ہونیوالی ہلاکتو ں سے کہیں زیادہ ہیں جبکہ 80 فیصد بیماریاں اسی وجہ سے جنم لیتی ہیں۔
حکومت پنجاب نے صاف پانی گھر گھر تک پہنچا نے کا اعلان کیا تھا لیکن اس پر عدم توجہ کے باعث کام نہ ہو سکا۔ فلٹریشن پلانٹ لگانے کے لئے اربوں روپے مختص کرنے کے باوجود پنجاب بھر کے شہرہ گندہ پانی پینے پر مجبور ہیں۔پنجاب حکومت کی جانب سے ایک سال قبل کئے جانیوالے اقدامات ردی کی ٹوکری کی نذر ہو گئے۔صوبے کی6کروڑسے زائدآبادی صاف پانی سے محروم ،حکمرانوں وبیوروکریسی کی جانب سے چپ سادھ لی گئی، صاف پانی میسر نہ ہونے کے باعث ہزاروں افراد نزلہ ، کھانسی، ہیپاٹائٹس بی سی ، جگر و دیگر بیماریوں میں مبتلاہو گئے۔ 1343 سکیمیں شروع کی گئیں لیکن فنڈز کی عدم دستیابی کے باعث بند ہو گئیں، جو نئی حکومت کے آنے کے بعد بھی تاحال دوبارہ شروع نہ کی جا سکیں۔ سابق چیف سیکرٹری پنجاب ناصر محمودکھوسہ کی سربراہی میں ایک اعلیٰ سطحی میٹنگ ہوئی تھی جس میں صوبے میں پینے کے صاف پانی کے حوالے سے اہم معاملات زیر غور آئے ، انہوں نے اعلیٰ افسران و متعلقہ اداروں کو صاف پانی کی دستیابی کے حوالے سے پلان مرتب کرنے کے احکامات جاری کئے لیکن بعض ناگزیر وجوہات کے باعث اس پر عملدرآمد نہ ہو سکا، جبکہ موجودہ حکومت کے لئے بھی صاف پانی ایک بڑا چیلنج بن چکا ہے۔
اس وقت صوبے میں 21 ہزار 817 دیہاتوں کے 3کروڑ 84 لاکھ 40 ہزار افراد صاف پانی سے محروم ہیں۔ واٹر سپلائی سکیموں کی ناکامی کی وجوہات میں 49 فیصد تکنیکی، 26فیصد فنڈز کی عدم دستیابی اور 25 فیصد ناقص انتظامات شامل ہیں۔ پنجاب حکومت کی جانب سے میلینیم ڈویلپمنٹ گول کے تحت 2015 تک 80 فیصد شہری اور 64فیصد دیہی آبادی کیلئے واٹر سپلائی سکیمیں مکمل کرنے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔ واسا زندہ دلان لاہور کو 24 گھنٹوں کے دوران 16 سے 18 گھنٹے کی بجائے 4 گھنٹے پینے کا پانی فراہم کرے گا چوری کا کنکشن پکڑا جانے پر دوسال قید 5 ہزار جرمانہ ہو گا واسا کی سمری پر” جیکا” نے منظوری دے دی۔ وزیر اعلیٰ پنجاب سے منظوری کے بعد باقاعدہ قانون سازی کے لئے بل پنجاب اسمبلی میں پیش کیا جائے گا تاہم لاہوریوں کو دو گھنٹے صبح دو گھنٹے شام کے اوقات میں پانی کی فراہمی کے فیصلہ پر وزیر اعلیٰ سے منظوری حاصل کرنے کے بعد عمل درآمد شروع ہو جائے گا۔ واسا کے ذمہ دارا ذرائع کا کہنا ہے کہ واسا کے ماہر انجینئرز کی ایک رپورٹ کے بعد وزیراعلیٰ پنجاب کو ایک سمری پیش کی گئی ہے کہ زندہ دلانِ لاہور جس کی آبادی ایک کروڑ دس لاکھ سے زائد ہے اور اس میں سے 6 کروڑ 50 لاکھ آبادی کو واسا 24 گھنٹوں میں 16 سے 18 گھنٹے ( روزانہ) پینے کا صاف پانی فراہم کر رہاہے اس مقصد کے لئے واسا کے 491 ٹیوب ویل کام کر رہے ہیں جن سے لاہوریوں کو روزانہ 430 ملین گیلن پانی روزانہ کی بنیاد پر فراہم کیا جا رہا ہے۔
انجینئرز کی رپورٹ اور وزیر اعلیٰ کو بھجوائی جانے والی سمری میں بتایا گیا ہے کہ واسا کے 491 ٹیوب ویل جن میں سے 105 سے 110 ٹیوب ویل انتہائی کمزور ، بوڑھے اور اپنی عمریں پوری کر چکے ہیں جس کے باعث روزانہ کی بنیاد پر 430 ملین گیلن پانی کی فراہمی انتہائی مشکل ہے اور اس کے باوجود صارفینکی ڈیمانڈ میں ہر سال 20 سے 30 فیصد اضافہ ہو رہا ہے جس کے باعث واسا کے ماہر انجینئرز نے تجاویز پر مبنی رپورٹ تیار کی ہے کہ پانی کی فراہمی کی(ڈیمانڈ) کو کم سے کم کیا جائے۔ جس میں صارفین کو 16 سے 18 گھنٹے کی بجائے 4 سے 6 گھنٹے پینے کا پانی فراہم کیا جائے، جس سے ٹیوب ویلوں کی مرمت سمیت مختلف اخراجات، بجلی کے استعمال میں کمی سمیت پانی چوری اور پانی کے بے دریغ استعمال کا سلسلہ ختم ہو سکے گا۔ واسا حکام کی اس سمری کی جاپان کی کمپنی جیکا نے منظوری دے دی ہے جبکہ پنجاب سٹی گورنمنٹ امپروومنٹ پروجیکٹ ( پی سی جی آئی پی ) نے بھی منظوری دے دی ہے جس پر منظوری کے لئے سمری وزیر اعلیٰ پنجاب کو بھجوا دی گئی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس کے ساتھ ساتھ پانی چوری کے خلاف بھی الگ سے سمری بھجوائی گئی ہے جس میں پانی کا ناجائز کنکشن پکڑے جانے پر دو سال قید اور 50 ہزار روپے جرمانہ ہو گا۔
تاہم اس کے لئے قانون سازی کا عمل مکمل ہونے تک پانی چوروں کو چھوٹ حاصل ہو گی اس حوالے سے واسا کے ڈائریکٹر محمد شکیل کشمیری نے بتایا کہ پانی کی ڈیمانڈ کو کم سے کم کیا جا رہا ہے۔ اس پروگرام کے تحت 75 فیصد پانی کی بچت ہو گی اور اس سے صاف پانی کے ذخائر بھی آئندہ سالوں تک کارآمد رہ سکیں گے ، جبکہ پانی چوری ، ٹیوب ویلوں کی مرمت و دیگر اخراجات سمیت بجلی کی بچت سے واسا خسارہ سے نکل سکے گااس میں دو گھنٹے صبح ، دو گھنٹے شام پانی کی فراہمی کی تجاویز پر وزیر اعلیٰ سے منظوری کے بعد عمل درآمد شروع ہو جائے گا جس کے لئے صارفین پانی کے بے دریغ استعمال کی بجائے گھروں میں ٹینکیوں اور دیگر ذرائع کے ذریعے سٹور کر سکیں گے، جس سے صارفین کو پانی کے بلوں میں بھی ریلیف دیے جانے پر بھی غور کیا جا رہا ہے۔
تحریر:بلال احمد