تحریر : ملک ارشد جعفری اٹک
کافی دنوں سے پنجاب کے مختلف شہریوں میں جاکر لوگوں سے پتا کررہا ہوں کہ قومی لیٹروں کے بارے میں جن جن کے پاس کوئی ثبوت ہے تو مجھے دیں لوگوں کی باتیں سن کر دل خون کے آنسو روتا ہے کہ واقعی میرا ملک ڈاکوئوں کے نرغے میں ہے ہر کسی کی ایک دعا ہے کہ ملک میں اب کوئی خمینی آجائے تاکہ ان ملک دشمنوں کو گرفتار کرے گی اور لوٹی ہوئی دولت ان سے لیکر قومی خزانہ میں جمع کرائی جائے تاکہ ہمارا پیار املک پھلے پھولے میں آج پنجاب کے ایک شہر شیخوہ پورہ میں آیا جہاں پر ایک سیاسی شخصیت نے جو کچھ عرصہ پہلے کونسلر کی سیٹ نہیں جیت سکتا تھا اس نے علاقے میں منت سماجت کر کے حکومتی پارٹی میں شمولیت اخیتار کی اور اب وہ اربوں کی جائیداد کا مالک چند سالوں میں بن گیا۔
سرگودھا اورفیصل آبا دمیں اس کی جائیدادیں موجود ہیں جو اس نے اس حکومت میں رہ کر بنائی۔شیخوہ پورہ میں بہت بڑاپیٹرول پمپ اور ایک شوگر مل میں حصہ دار ٹھہرا اور بہت بڑی لینڈکروزر میں بیٹھ کر باڈی گارڈوں کے ساتھ شہر کا چکر لگاتا نظر آیا لیکن ان کی کرپشن کون پکڑے ؟من پسند لوگوں کو کئی مراعات دلوارہے ہیں اور بڑے بڑے بینر ر لگاوا کر اپنی اور اپنے ساتھیوں کا تعارف کروا رہے ہیں۔
اسی طرح میرے شہر اٹک میں بھی چند سیاسی بونوں نے مختلف اداروں میں اپنے نام کے بینرز مختلف ہسپتالوں اور دیگر سرکاری اداروں میں لگوا رکھے ہیں تاکہ ادارے کے سربراہان اور چھوٹے ملازمین ان کے ناجائز کام کریں ان کو مقامی سیاسی نمائندوں کی پشت پنائی حاصل ہے اور یہ انہی اداروں میں کئی ایسے لوگوں کو بھاری نظرانے لے کرمعذورں کے کوٹے میں بھرتی میں کروا چکے ہیں۔
جودر حقیقت میںمعذروں کے ذمرے میں نہیں آتے اور بھرتی کرنے والے افسران نے بھی یہ نہیں پوچھا کہ یہ معزور ہیں بھی کہ نہیں؟ کیونکہ کسی ڈاکٹر کی یہ جرت نہیں کہ ان کے بھیجے ہوئے لوگوں کو ان کی مرضی کے مطابق سرٹیفیکٹ نہ دیں کیونکہ سیاسی ٹائوٹوں کی چٹ ان غیرمعذور لوگوں کے پاس ہوتی ہے۔
جبکہ حقدار معذور گھروں میں اپنی نوکر ی کی تلاش کی امید دل میں رکھ کراس دنیا سے کوچ کر جاتے ہیں۔بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام بھی اسی طرح چل رہا ہے کہ جو بیوہ اور غریب ہیں وہ اسی انتظار میں ہیں کہ ہمیں کب حکومت کی طرف سے کوئی مراعات ملے گی لیکن ان کا حق ان کو نہیں دیا جارہا اور جو پہلے سے طاقتور جن کے خاوند زندہ ہیں اور سرکاری ملازمتیں میں بھی کر رہے ہیں ان کی عورتوں کو بے نظیر انکم سپورٹس کی رقم دی جا رہی ہے۔
ٹائوٹوں نے اس وقت ان لوگوں سے نظرانے لیکر اپنے محل اور قیمتی گاڑیاں خرید رکھی ہیں جس پر کسی ایجنسی کی نظر نہیں ہے اور ہر ادارے میں ان ٹائوٹوں نے اپنے من پسند اہلکار لگوا رکھے ہیں جو ان کو ماہانہ اپنی حرام کی کمائی سے حصہ دیتے ہیں اوراسی طرح کئی اور بلیک میلر بھی اس وقت مختلف طریقوں سے لوگوں سے بھاری نظرانے بلیک میل کر کے جمع کر رہے ہیں۔
راتوں رات امیر بن رہے ہیں لیکن ان کو پوچھنے والا کوئی بھی نہیں کیونکہ یہ مقامی سیاسی لوگوں کے ڈیروں کے طواف کرتے ہیں اور کئی ضلعی افسران کے پاس جاکر بیٹھ کر ان کے ساتھ تصاویر بنا کر لوگوں کے سامنے اپنے آپ کو نمایاں کرتے ہیں تاکہ عوام یہ سمجھیں کے ان کی بہت بڑی اپروچ ہے اور یہ شرافت کا لبادا اوڑھ کر اس طرح غریبوں کو لوٹ رہے ہیںجیسے بھوکے بھیڑے اپنے شکارکو لمحوں میں بھمبھوڑ ڈالتے ہیں۔
اب حالت یہ ہے کہ دوسرے صوبوں کے سیاستدان بھی چیخ اٹھے ہیں کہ سندھ کی طرح پنجاب میں کب ہو گا احتساب ؟ وہ تو یہ بھی مطالبہ کر رہے ہیں کہ پنجاب میں کرپشن اور بدعنوانی اور دہشت گردی کے خلاف رینجز آپریشن کرے۔کب رینجرزان ڈاکوئوں سے میرے غریب لوگوں کی لوٹی رقم ان حرام خوروں کے پیٹوں سے نکالیں گے اور کب یہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے جائیں گے۔
ان حکمرانوں سے خیر کی توقع نہیں رکھی جا سکتی کیونکہ جو کل تک تیل بیچا کرتے تھے آج اربوں پتی کیسے بن گئے۔ شہباز شریف کو چاہیے کہ وہ اب لمبے گم شو پہن کر ان کرپٹ عناصر کے خلاف بھی لنگوٹا کس لیں ورنہ تاریخ میں غرق ہونے میں دیر نہیں لگتی۔
تحریر : ملک ارشد جعفری اٹک
0321-5215037