تحریر: غلام مرتضیٰ باجوہ
آج کل پنجاب بھر میں ہرطرف پنجاب فوڈ اتھارٹی کے چھاپوں اور کارروائیوں پر بحث جاری ہے لیکن اس بحث کے دوران شہری یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ پنجاب فوڈ اتھارٹی کے ان چھاپوں اور کارروائیوں میں کتنی حقیقت اور کتناافسانہ ہے۔اسی حوالے سے صوبائی وزیر خوراک بلال یاسین کا کہناہے کہ فوڈ اتھارٹی پنجاب کی مہم صوبے بھر میں جاری ہے اور ناقص اشیاء سے بچاؤ کیلئے قانون سازی بھی کی گئی ہے پنجاب کے 36اضلاع میں مضر صحت اشیاء کیخلاف مہم چلائی جارہی ہے ،ضلعی سطح پر ٹیمیں پوری طرح سے متحر ک ہیں۔ پنجاب فوڈ اتھارٹی کو تین سال قبل متعارف کروایا گیاہے ،ملاوٹ روکنے کیلئے کئی لیبارٹریز کام کر رہی ہیں ،تمام پہلوؤں سے جائزہ لے کر کارروائی کرتے ہیں۔
دوسرے جانب پنجاب فوڈ اتھارٹی کی سربراہ محترمہ عائشہ ممتازکاکہناہے کہ پنجاب فوڈ اتھارٹی آرڈیننس ترمیم شدہ 2011ء میں ترمیم کرکے 2015ء کا نیا آرڈیننس جاری کردیا گیا ہے جس کے تحت فوڈ اتھارٹی کی خصوصی عدالتیں قائم کی جارہی ہیں اور خلاف ورزی کے مرتکب افراد کے خلاف درج مقدمات کو ناقابل ضمانت جرم قرار دے دیا گیا ہے جبکہ عدالتوں کے باقاعدہ قیام تک مجسٹریٹ دفعہ 30 خصوصی اختیارات کے تحت کام کرتے رہیں گے۔وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کے حکم پر تمام ڈی سی اوز اور ڈسٹرکٹ فوڈ کنٹرولرز کی نگرانی میں کمیٹیاں قائم کردی گئی ہیں۔ ناقص اور غیر معیاری اشیائے خوراک فروخت کرنے والوں کے گرد گھیرا تنگ کررہے ہیں اور اب کسی ایسے شخص کو معاف نہیں کیا جائے گا جو شہریوں کو ناقص اشیائے خوردونوش، مضر صحت گوشت یا کیمیکل یا پانی ملا دودھ فراہم کرنے کا ذمہ دار ہوگا۔ مجھ پر کسی قسم کا کوئی دباؤ نہیں، خاتون ہونے کے ناطے بھی مردوں کے اس معاشرے میں مجھے نہ کوئی خوف آتا ہے نہ کوئی شرم۔
اس سلسلے میں فوڈ اتھارٹی کی سربراہ کو ملک بھر کے شہروں، قصبات،دیہات اور سمندر پار پاکستانیوں نے بھی امریکہ، کینیڈا، سعودی عرب، دبئی اور لندن سے بھی پنجاب فوڈ اتھارٹی کی سربراہ کو شہریوں نے بہترین خدمات پر زبردست خراج تحسین پیش کیا۔ محفلوں میں جاری بحث بھی معززین کہتے ہیں کہ لوگوں کو پیسا کمانے کی ہوس نے اس قدر گھٹیا بنا دیا ہے کہ وہ اس خواہش کی تسکین کے لیے ایمان جیسی دولت کی بھی پروا نہیں کرتے۔ اپنا تو اْن کا خانہ خراب ہے ہی ساتھ کئی اوروں کو بھی بے ایمان بنا رہے ہیں۔ جب لوگ آپ پر اعتبار کرتے ہیں تو اس کے پیچھے بہت سی محنت کارفرما ہوتی ہے جس کا حق آپ وقت جیسی عظیم نعمت کی صورت میں ادا کرتے ہیں۔ میں فو ڈ چین کی بات کرتاہوںآپ ایک ہوٹل بناتے ہیں اور ایسا معیار دیتے ہیں کہ لوگ کسی اور ہوٹل کے بارے میں سوچنا بھی پسند نہیں کرتے۔
ایسا اعتماد حاصل کرنے میں ایک عمر لگتی ہے اور پھر ایک دن آتا ہے کہ لوگ آپ پر اندھا اعتبار کرنے لگتے ہیں پھر آپ وقتی فائدے کیلئے لوگوں کے اس اندھے پن کا فائدہ اْٹھاتے ہیں اْن کے اعتبار کو ٹھیس پہنچاتے ہیں۔پیسہ آپ کے اعصاب پر کچھ یوں سوار ہوتا ہے کہ آپ لوگوں کو خوراک کی صورت میں زہر کھلانے لگتے ہیں۔ سبز مرچ میں اینٹیں، دودھ میں سرف، گھی میں آلواور آٹے میں خراب روٹیاں ملا کر بیچ دیتے ہیں۔ اور انتہایہ ہے کہ آپ حلال گوشت کی بجائے گدھے اور کتے جیسے جانوروں کا گوشت انسانوں کو کھلارہے ہیں۔ کھلانے والے ساتھ یہ بھی کہتے ہیں۔
’’عام لوگ تو دور کی بات پاکستان کے حکمرانوں اور بڑے لوگوں میں سے کوئی ایسا نہیں ہے جس کو ہم نے گدھے اور کتے کا گوشت نا کھلایا ہو‘‘یہ کہتے ہوئے وہ دلیل دیتے ہیں کہ ہم اس طرح ان لوگوں سے ان کی نااہلی کا انتقام لیتے ہیں۔ پاکستان اور اس کے عوام کی ستم ظریفی دیکھے کے اس حوالے سے کوئی قانون ہی نہیں جو ایسے لوگوں کو سزا دے سکے سننے میں آیا ہے کہ اب حکومت نے اس سلسلے میں کوئی پیش رفت کی ہے۔ ماہرین اور مبصرین کا کہناہے کے اس بات میں کوئی شک نہیں کہ وہ لوگ جو عزت دار کے روپ میں پاکستانی قوم کے اعتبار کے ساتھ کھیل رہے ہیں اْن کی حرکتوں کو عوام کے سامنے لانے کے لیے پنجاب فوڈ اتھارٹی پوری تندہی سے کام کر رہی ہے اس کا کریڈٹ جاتا ہے ،متحرمہ عائشہ ممتاز اور اْن کی ٹیم کو جو ہر روز سفید چادر میں چھپے بھیڑیوں کو بے نقاب کر رہی ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ صوبائی وزیر خوراک بلال یاسین کو معلوم ہونا چاہے کہ مضر صحت اشیاء فروخت کرنیوالے کیخلاف کارروائی کرنے کا طریقہ کار پاکستان کے آئین میں موجودہے۔کئی سالوں سے پنجاب میں مسلم لیگ ن کی حکومت قائم ہے۔ سلاٹر ہاوسسزز میں زندہ ، مردہ حلال اور حرام کی تمیز مکمل طور پر ختم ہو چکی ہے۔ صوبائی وزیر خوراک اور پنجاب فوڈ اتھارٹی قانون کے مطابق کارروائیوں مصروف ہے توپھر ان لوگوں کیخلاف کیوں نہیں کررہی جن کی سرپرستی میں سب کچھ ہورہاہے۔جوعوام کے ٹیکسوں سے ارب روپے تنخواہیں لے رہیں ہیں۔جوچھاپے اور کارروائی کی گئی ہے ان کی رپورٹ منظر عام کیوں نہیں لائی گئی۔ صوبائی وزیر خوراک اور پنجاب فوڈ اتھارٹی کومضر صحت اشیاء فروخت کرنیوالے اور ان کی سرپرستی کرنے والے عناصر کا منظر عام پر لاناہوگا۔ قانون کے مطابق یونین کونسل ،ٹی ایم اے،تحصیل انتظامیہ ،ضلع انتظامیہ کے ان تمام ملازمین کیخلاف کارروائی کرناہوگی جو ان عناصر کی سرپرستی کررہے ہیں۔ورنہ کارروائیوں میں کوئی حقیقت نہیں صرف ایک افسانہ ہو گا ۔جس کے ذریعہ شہرت تومل سکتی ہے مگر کامیابی نہیں۔
تحریر: غلام مرتضیٰ باجوہ