تحریر : عبدالرزاق
جمعیت علمائے اسلام( ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے پنجاب اسمبلی کی جانب سے منظور کیے گئے تحفظ نسواں قانون پر اپنے بھر پور تحفظات ظاہر کرتے ہوے فرمایا ہے کہ وہ اس قانون کی منظوری کے خلاف عدالت جائیں گے ۔ مولانا فضل الرحمٰن نے حکومت پر سخت تنقید کرتے ہوے مذید فرمایا کہ قانون سازی کا محور پارلیمنٹ ہے۔ اور ملک میں قانون سازی کرتے وقت قران و سنت سے رہنمائی لینا اشد ضروری ہے اور بالخصوص شرعی معاملات کو وفاقی شرعی عدالت کے ذریعے حل کرنا چاہیے۔عرض حال یہ ہے کہ حقوق نسواں قانون کی منظوری کے بعد نہ صرف مولانا فضل الرحمٰن سیخ پا ہیں بلکہ وطن عزیز کے طول و عرض میں موجود جید علمائے اکرام کی ایک واضح اکثریت اپنی اپنی دانست میں اس قانون کی منظوری پر تحفظات کا شکار ہے جبکہ بعض جید علمائے اکرام اس قانون کی مخالفت میں خم ٹھوک کر میدان میں کود چکے ہیں جن میں امیر مرکزی جمعیت اہلحدیث پاکستان پروفیسر ساجد میر بھی نمایاں حیثیت میں کھل کر سامنے آئے ہیں۔
انہوں نے اپنے ایک بیان میں اس قانون کی منظوری کو منافی شریعت عمل قرار دیا ہے اور فرمایا ہے کہ ہم شہباز شریف کے اس اقدام کو مسترد کرتے ہیں۔ یہ قانون دین اسلامی کے ماتھے کے جھومرخاندانی نظام کا شیرازہ بکھیرنے کا پیش خیمہ ثابت ہو گا۔انہوں نے عہد کیا کہ وہ بیرونی آقاوں کو خوش کرنے کے اس اقدام کو کبھی پروان چڑھنے نہیں دیں گے۔پنجاب اسمبلی کی جانب سے تحفظ نسواں قانون کی منظوری کے بعد اس قانون کی حمایت میں اور مخالفت میں بیان بازی کا موسم اپنے عروج پر ہے۔ تبصروں اور تجزیوں کی برسات میں ہر کوئی اپنے اپنے فہم کے مطابق حصہ ڈالنے میں مصروف عمل ہے ۔
دونوں مکتبہ ہائے فکر پوری شدو مد سے دلیل اور استدلال سے لیس اپنی طرف سے علم کے دریا بہانے میں مشغول ہیں۔ ایک جانب علمائے اکرام کی واضح اکثریت اس قانون کی منظوری کو خاندانی نظام پر کاری وار قرار دیتی ہے اور اس امر کی جانب اشارہ کرتی ہے کہ اس اقدام سے مردوں کی حیثیت پر قدغن لگی ہے اورانہیں نجی زندگی میں ایسے ایسے بھیانک مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جس سے معاشرتی نظام کا حلیہ ہی بگڑ جائے گاجبکہ دوسری جانب اس نقطہ نظر کے بر عکس سوچ رکھنے والا طبقہ موجود ہے جس کے خیال میں پنجاب اسمبلی کے فلور پر منظور ہونے والا یہ قانون تاریخی اہمیت کا حامل ہے اور بالخصوص پنجاب حکومت اس قانون کے حوالے سے تمام تر دباو کو مسترد کرتے ہوے اس قانون کی منظوری سے لے کر اس پر عمل درآمد کی مہر ثبت کروانے تک پر عزم دکھائی دیتی ہے۔
اگر دونوں طبقہ ہائے فکر کی دلیلوں کو تجزیاتی نقطہ نگاہ سے دیکھا جائے تو فیصلہ کرنا مشکل دکھائی دیتا ہے کہ کس مکتبہ فکر کا استدلال زیادہ وزنی ہے۔اگر ایک جانب خواتین پر تشددکی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو خواتین پر وحشیانہ تشدد کی داستانوں سے تاریخ کے اوراق بھرے پڑے ہیں۔حقوق نسواں کو جس انداز میں پامال کیا جاتا رہا ہے وہ واقعات ہوشربا بھی ہیں۔ قابل مذمت بھی ہیں اور اس قسم کے اقدامات وقت کا اہم تقاضا بھی ہیں۔خاص کر وہ خواتین جو خاندانی اعتبار سے کمزور گھرانوں سے تعلق رکھتی ہیں متعدد اقسام پر مبنی تشد دکے واقعات کا شکار ہیں لھٰذا ان کی حفاظت کے لیے ایسے ہی کسی پائیدار اقدام کی ضرورت تھی تاکہ ان پر روا ظلم کے تسلسل کو روکا جا سکے اور قرین قیاس ہے حکومت پنجاب نے خواتین پر ہونے والے بد ترین تشددکے اسی پہلو کو مد نظر رکھتے ہوے قانون کو منظوری کا شرف بخشا ہو لیکن دوسری جانب وطن عزیز کے اس طبقہ کی آواز کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتاجن کے کندھوں پر دینی معاملات کی ذمہ داری عائد ہے اور وہ ہم سے کہیں بہتر انداز میں دینی معاملات و قوانین کی تشریح و توضیح کی قدرت رکھتے ہیں۔اگرچہ کچھ عالم دین ایسے ضرور ہیں جن کی بیان بازی پر حرف گیری ہو سکتی ہے مگر وطن عزیز میں ایک بہت بڑی تعداد ایسے علمائے اکرام کی موجود ہے جو اپنے قول و فعل اور فکر و عمل کے اعتبار سے قابل تقلید حیثیت کے حامل ہیں۔
ان مجسم فہم و فراست،حق گو اور دین اسلام کی روشنی سے منور شخصیات کی واضح تعداد بھی اس قانون کے حوالے سے اپنے تحفظات ریکارڈ کروا رہی ہے تو یوں صاحب ادراک ہستیوں کی دلیلوں کو نظر انداز کرنا بھی مناسب نہ ہو گا۔حکومت پر لازم تھا کہ اس قانون کو منظور کرتے وقت اس قدر جلد بازی کا مظاہرہ نہ کرتی۔ مشاورت کے عمل سے گزر کر اگر اس اقدام کو قانون کا درجہ دیا جاتا تو ممکن ہے حکومت کو اس قانون کی پر زور مخالفت کا سامنا نہ ہوتا۔ اور یہ تاثر بھی نہ ابھرتا کہ حکومت غیر ملکی آقاوں کو خوش کرنے کے لیے اس قانون کو منظور کر رہی ہے ۔اور پھر ایسا قانون جو حساسیت کے اعتبار سے غیر معمولی اہمیت کا حامل ہو یوں چشم زدن میں منظور کر لینا حکومتی دانش وبینش کے فقدان کی غمازی کرتا ہے۔مطلوبہ نتائج سے بے پرواہ ہو کر بغیر کسی تحقیق اور منصوبہ بندی کے محض حصول شہرت کی خاطر اس قانون کو لاگو کر دینا نہ صرف معاشرتی زندگی میں بے چینی اور اضطراب کا سبب بنے گا بلکہ حکومت کے لیے بھی مستقبل میں پریشانی کا باعث بنے گا۔
وہ اقدامات جن کے فروغ سے اس قسم کی قباحتیں خود بخود قابو میں آ سکتی ہیں حکومتی عدم توجہی کا شکار ہیں۔ ایک ایسا معاشرہ جو تعلیمی اور شعوری حوالے سے پست ترین درجہ پر فائز ہے تعلیمی اور شعوری میدان ہنگامی بنیادوں پر خصوصی اقدامات کا متقاضی ہے لیکن حکومت دور رس اور دور اندیشی پر مبنی منصوبوں کی تکمیل کے بجائے ہر چند مہینوں بعد ایسا اقدام اٹھاتی ہے جس سے معاشرتی تقسیم مذید تقسیم در تقسیم کی جانب محو سفر ہے اور اب خدا نہ کرے کہ حکومت کے اس عمل سے خاندانی نظام اور میاں بیوی کی تقسیم کا عمل شروع ہو جائے۔پاکستان میں مرد و خواتین کو شعوری اعتبار سے وہ درجہ کمال حاصل نہیں ہے جہاں وہ اس قانون کے حقیقی ثمرات سے مستفید ہونے کی بصیرت سے بہرہ ور ہوں۔
تحریر : عبدا لرزاق