جرمنی (انجم بلوچستانی) برلن بیورو کے مطابقسابق صدر PPP برلن ظہیر اداس اپنی تکلیف دہ بیماری کا مردانہ و ار مقابلہکرنے کے ساتھ ساتھ پارٹی امور کے بارے میںفکرمند رہتے ہیں۔یوم تاسیس پر ان کا یہ کھلا خط پیپلز پارٹی کیلئے قابل غور ہے:
”چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو ٤٨ یوم تاسیس کے موقعہ پراندرون وبیرون ملک تمام پارٹی تنظیموں کو توڑ کرپارٹی ری آرگنائزیشین کاا علان کریں، پنجاب میں پارٹی زبوں حالی کا نوٹس لیتے ہوئے،چاپلوسوں،جی حضوریوںاور مفاد پرست عناصر کو معطل کرکے پارٹی کے دیرینہ کارکنوں پہ مبنی نئی تنظیموں کا اعلان کرتے ہوئے پنجاب پیپلز پارٹی کی قیاد ت قائد عوام کے معتمد ساتھی ملک غلام مصطفے کھر کو دے کر پارٹی کو انقلابی بنیادوں پہ استوار کرنے کی ابتدا کریں۔”یہ باتیں پاکستان پیپلز پارٹی برلن کے سابق صدر ظہیر اداس نے یو م تاسیس پر اپنا انٹرنیشنل کے توسط سے ایک اخباری بیان جاری کرتے ہوئے کہیں۔
انہوں نے پارٹی چیئر مین بلاول بھٹو سے دردمندانہ اپیل کرتے ہوئے کہا کہ” پاکستان پیپلز پارٹی ،جو پاکستان کی سب سے بڑی پارٹی تھی، پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ پنجاب اسکا قلعہ تھا،آج مفاد پرستوں، جی حضوریوںاور نااہل افراد کے کردار کی وجہ سے ناکامی سے دوچار ہے۔ اسکا فوری نوٹس لیتے ہوئے پارٹی کو انقلابی بنیادوں پر آرگنائز کرنے کیلئے اندورن و بیرون ملک تمام تنظیموں کوتوڑ کرری آرگنائزیشن کا اعلان کریں، اور تمام صوبوں تمام ضلعی اور تحصیلوں کی سطع تک پارٹی کے بنیادی کارکنوں پر مبنی تنظیموں کا اعلان کریں تاکہ وہ بنیادی کارکن جوبدظن ہو کر گھروں میں بیٹھ گئے ، انہیں دوبارہ ایکٹیو کرکے تنظیمیں آرگنائز کی جا سکیں۔حالیہ الیکشن میںپنجاب میں پی پی پی کو ناکامی سے دوچار کرنے والے عہدیداروں کو فوری طور پر معطل کرکے اسکے لئے اہل عہدیداروں کا اعلان کریں۔
پنجاب پیپلز پارٹی کو نئے سرے سے آرگنائز کرنے کیلئے پنجاب پیپلز پارٹی کی قیادت قائد عوام کے معتمد ساتھی غلام مصطفےٰ کھر، جنہیں قائد عوام نے اپنا جانشین قرار دیا تھا، کے انقلابی ہاتھوں میں دیں تاکہ پارٹی انقلابی بنیادوں پہ آرگنائز ہو سکے۔جن چاپلوسوں ومفاد پرستوں نے سازشیں کرکے انہیں قیادت سے علیحدہ کروایاتھا، انہیں علم تھا کہ مصطفے کھر کی موجودگی میں ان کی دال نہیں گلتی۔ سیاست میں تو کبھی ایک ووٹ بھی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔
ایک اتنے بڑے رہنما کو پارٹی سے علیحدہ کر دینا ایک سراسر غلط فیصلہ تھا۔جو لوگ بغلیں بجا رہے ہیں کہ انہوں نے پارٹی سے انہیں نکلوا کر ناکام کر دیا تباہ کر دیا ،وہ پارٹی کی حالت زار کو بھی دیکھیں کہ بہتر ساتھیوں سے علیحدہ ہو کر پارٹی آرگنائزیشن کس زبوں حالی کا شکار ہے۔ جب پنجاب پیپلز پارٹی کی قیادت انکے ہاتھ میں تھی، عوام ان کی قیادت پر ناز کیا کرتے تھے۔انہیں پارٹی میں واپس لاکر انہیں ان کا مقام دیا جائے، تاکہ پی پی پی پنجاب شہید بھٹو کی پارٹی کہلوا سکے اور بہتر طور پہ انقلابی بنیادوں پر استوار ہوسکے۔ مصطفے کھرمیںقائد عوام کا ساتھی ہونے کے ساتھ انقلابی جدوجہد کا جذبہ بھی موجود ہے۔انہوں نے پنجاب پی پی پی کو بے مثل قیادت دی
بیرون ملک، جلاوطنی کے زمانہ میں یورپ بھر میں تنظیمیں بنائیں، پارٹی کو آمرانہ شکنجے سے چھڑانے کیلئے جمہوریت کی بحالی کے لئے بھر پور جدوجہد کی۔ ان کے آ جانے سے پارٹی اعتماد کے ساتھ کامیابی و کامرانی کی طرف گامزن ہو گی اور ذوالفقار علی بھٹو کی پارٹی بن سکے گی۔یہ ٹھیک ہے کہ اب وہ ساتھی نہیں رہے،قائد عوام کی طرح سبھی ساتھی ایک ایک کرکے بچھڑ گئے ،آج معراج خالد نہیں رہے ،جتوئی صاحب ،پیرزادہ صاحب اور رامے بھی نہیں۔اپنی وفائوں کی بے مثل داستان رقم کرنے والے مخدوم امین فہیم صاحب بھی بچھڑ گئے۔اسکے علاوہ بھی آج ایشیاسرخ ہے کا نعرہ نہیں چل سکتا ،دیوار برلن اسے اپنے ساتھ بہا کر لے گئی۔آج جنگ صرف رائٹ اور رانگ کی رہ گئی ہے،اسلئے اپنے رائٹ کیلئے لڑناچاہئے۔”
ظہیر اداس نے بلاول بھٹو سے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ” آپ یہ کام بہ اسانی سرانجام دے سکتے ہیں، اپنے نانا محترم کے انقلابی نقش قدم پہ چلتے ہوئے پارٹی کو انقلابی بنیادوں پر پھر سے آرگنائز کریں۔ عوام آپ کی آواز پر لبیک کہنے کے منتظر ہیں۔ اپنے نانا کے نقش قدم پہ چلتے ہوئے آپ یہ معرکہ سرانجام دے سکتے ہیں۔پارٹی میں بہت سوں کو یہ بات اچھی نہیں لگتی کہ پارٹی دیرینہ کارکنوں اور لیڈروں پہ منظم ہو۔ ڈاکٹر دانش ایک مرتبہ اپنے پروگرام میںکہہ رہے تھے کہ میںنے جناب آصف علی زرداری سے اپیل کی تھی کہ پنجاب میں پیپلز پارٹی کا مقام چاہتے ہیں تو جناب غلام مصطفے کھر کو واپس لے آئیں،لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔
غالبا ٧٢ کی بات ہے ،جب جناب مصطفٰے کھر اور قائد عوام کے اختلاف ہوئے تھے تو قائد عوام انہیں منانے ایک دن میں تین مرتبہ ان کی رہائش گاہ پہ لاہور گئے تھے۔یہ تھا اس عظیم قائد کا کردار۔راقم نے ایک ملاقات میں جناب غلام مصطفے کھر سے اسکی تفصیلات پوچھی تو انہوں نے بتایا کہ جب ہم ٦٩،٧٠ میں جلسے کررہے تھے، توہماری طاقت غریب کارکنان تھے، جو پھٹے پرانے کپڑے پہنے ہوتے تھے ،لیکن اقتدار کے بعد پھر شیروانیوں میں ملبوس شرفاء نے کارکنوں کی جگہ لینی شروع کی ،تو میں نے اسکی مخالفت کی لیکن جب قائد منانے آئے تو میں پھر سے ساتھ ہو لیا۔چیئر مین صاحب یہ کام وقتی طور پر مشکل لگتا ہو لیکن جب بلاول بھٹو اس کے لئے جدوجہدکریں گے توکارکن لیڈران کو منائیں گے اور انقلاب کا خود بخود نئے سرے سے آغاز ہو گا۔”
ظہیر اداس نے اپیل میں مزید کہا کہ” جیسے آپ پچھلے دنوںجلسہ میں کارکنوں میںآکر گھلے ملے تو پورے ملک میں اس پہ تبصرے ہوئے اور اس انقلابی اقدام کی تعریف کی گئی کہ شہید بابا اور بی بی صاحبہ کی یاد تازہ ہوگئی ہے۔آپ خود اسکے لئے رول پلے کریں،تمام ناراض کارکنان ولیڈران کو واپس لائیں ۔اسکے لئے میری پارٹی کے شریک چیئر مین جناب آصف علی زرداری ، بی بی شہید کے آصف سے بھی اپیل ہے کہ آپکو ایک پانچ سالہ دور مکمل کرنے پر پاکستان کے عوام اک بزرگ سیاست دان اور کامیاب رہنما کا درجہ دے چکے ہیں۔جب اس پانچ سالہ دورمیں روز حکومت گرا دی جاتی تھی، آپ نے جمہوریت کی بقا کیلئے ہر مشکل کا سامنا،ہر سازش کا مقابلہ کیا۔
آپ جمہوریت بچانے کیلئے ان سے ہاتھ ملا سکتے ہیں،جنہیں آپ نے قاتل لیگ کے نام سے نوازاتھا،تو آپ کیلئے ناراض کارکنوں کو گلے لگا کر تنظیم کو آر گنائز کر لینا کو ئی مشکل بات نہیں۔ہم امید کرتے ہیںجمہوریت کی بحالی کیلئے قائدعوام اور بی بی صاحبہ کے مشن سے وفا کرتے ہوئے آپ کسی قربانی سے گریز نہیں کریں گے۔اگر آج اسکے لئے نہ سوچا گیا،اقدامات نہ کئے گئے ،تو ہماری داستان تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں۔
پاکستان پیپلز پارٹی وہ جماعت ہے جس کو ہمارے شہداء نے اپنے خون سے سینچاہے۔یہی وجہ ہے کہ کوڑوں، قید وبند کی سزائوں،اندرونی وبیرونی سازشوں اورتمام تر منافقت کا مقابلہ کرنے کے باوجود آج بھی پارٹی زندہ ہے۔ہم تمام اراکین پی پی آپکی سپاہ ہیں اور آپکی آواز پہ لبیک کہیںگے، میری دردمندانہ اپیل ہے کہ جناب مصطفے کھرکو پارٹی میں مقام دیں، جناب ڈاکٹر غلام حسین صاحب کو واپس لائیں اور ان تمام لیڈران و کارکنان سے کام لیں،جنہوں نے قربانیاں دیں، ساتھ دیا۔ آپ اقدام کریں ۔ ذرانم ہو تویہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی۔”