تحریر : ہدا عقیل
14اگست 1947وہ تاریخ ساز دن ہے جب قائدِاعظم محمد علی جناح نے انتھک محنت کے بعد ہمیں ایک مضبوط اور مستحکم قوم بنانے کے لئے پاکستان جیسی آزاد سرزمین دی، انہوں نے سب پاکستانیوں کو ایک پلیٹ فارم پر کھڑا کیا اور ہم اور آپ جیسے نوجوانوں سے اپنے وطن کے لئے کسی بھی قربانی سے دریغ نہ کرنے کا عہد لیا لیکن مجھے یہ کہتے اور لکھتے ہوئے بہت ہی افسوس ہو رہا ہے کہ ہم نوجوان آزادی کے اس مقصدسے کنارہ کش ہوچکے ہیں جس کا اشارہ ہمیں اس شعر میں ملتا ہے،
ہم لائے ہیں طوفان سے کشتی نکال کے
اس ملک کو رکھنا میرے بچوں سنبھال کے
آج کے اس جدید دور میں جہاں پوری دنیا نئے علوم سے فائدہ اٹھا رہی ہے وہاں ہماری قوم انٹرنیٹ پر فضول وقت ضائع کرنے میں مصروف ہے ہاتھوں میں موبائل لئے اپنے اردگرد سے بے خبر نوجوان ایک الگ ہی دنیا میں مصروف دکھائی دیتے ہیں ، ٹیلی وژن پر چوبیس گھنٹے کی نشریات کی بھرمار نے رہی سہی کسر نکال دی ہے اور یوں آج کا نوجوان مستقبل کی فکر سے لاپرواہ ہوکر انجان خلاؤں میں بھٹکتا دکھائی دیتا ہے۔
دیکھا جائے تو ہم صرف چودہ اگست یا پھر دیگر قومی دنوں پر پاکستانی بن جاتے ہیں اورباقی سارا سال ہمیں ذرا بھی پرواہ نہیں ہوتی کہ اس ملک کی تعمیر و ترقی کے لئے ہم کیا کرسکتے ہیں، ہم اپنے ان بزرگوں جنہوں نے ہمارے روشن مستقبل کے لئے اپنے گھر بار جان و مال کی قربانی دے کر ہجرت کی اور ان لاکھوں شہیدوں جنہوں نے اپنے لہو سے اس سوہنی دھرتی کی مانگ بھری کو فراموش کر دیتے ہیں۔
یومِ آزادی جب بھی آتا ہے
یاد قربانیاں دلاتا ہے
کتنے گم نام اہلِ غم کا لہو
چاند تارے میں جگمگاتا ہے
قائد اعظم نے نوجوان نسل میں وحدت پیدا کرنے کے لئے فرمایا، ’’ آپ کی ریاست کی بنیاد رکھ دی گئی ہے اب یہ آپ پر منحصر ہے کہ آپ اسے نہایت تیزی سے تعمیر کریں، اتنا اچھا جتنا کہ ممکن ہو‘‘۔ہمیں اس بات سے بھی کوئی مطلب نہیں رہاکہ قائدِ اعظم جیسی عظیم ہستی جس کی وجہ سے آج دنیا ہمیں پاکستانی کہتی ہے انہوں نے آخر دم تک پاکستان کو ہمارے نام کرتے کرتے موت کو گلے لگا لیا ، ہم ان کے فرمودات پر عمل کرنے کی بجائے فقط یومِ آزادی پر اپنے گھروں کی چھتوں پر سبز ہلالی پرچم لہرا کر سمجھتے ہیں کہ ہم نے اپنا فرض پورا کردیا جبکہ اس ملک کے لئے اصل فرض تو ہمارے اوپرابھی بھی قرض ہے جسے ہم سب کو ادا کرنا ہے۔
میرے عزیز ہموطنو اگر آپ فیس بک ، ٹوئٹر اور دیگر سوشل میڈیا پر جشنِ آزادی کی مبارکباد پیش کر چکے ہیں تو آئیں اس ملک کی تعمیر و ترقی کے لئے عملی قدم اٹھائیں ، اپنی سوہنی دھرتی سے ناانصافی، غربت اور جہالت جیسے اندھیروں کو دور کریں اوراس ملک میں تعلیم و تربیت کو عام کرکے ایک روشن اور مستحکم معاشرے کو تعمیر کرکے ایک مثالی قوم ہونے کا ثبوت دیں۔
اگر ہو جذبہء تعمیر زندہ
تو پھر کس بات کی ہم میں کمی ہے
بے شک پاکستان بننے سے آج تک ہم بے شمار مسائل کا شکار ہیں لیکن ہمیں ان مسائل سے نبرد آزما ہوکر ایک کامیاب قوم بننا ہے کیونکہ قائد اعظم محمد علی جناح کا فرمان ہے، ’’ہم جتنی زیادہ تکلیفیں سہنا اور قربانیاں دینا سیکھیں گے اتنی ہی زیادہ پاکیزہ، خالص اور مضبوط قوم کی حیثیت سے ابھریں گے جیسے سونا آگ میں تب کر کندن بن جاتا ہے۔
تحریر : ہدا عقیل