برصغیرکے مسلمانوں کوفرنگی دو رمیں تاریخ کے بدتریں حالات کا سامنا تھا، یہاں بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی معمول اور ہر شعبہ زندگی میں ان کا استحصال روایت بن چکا تھا،اس میں کوئی شک نہیں کہ قیام پاکستان سے قبل منظر نامہ بہت زیادہ دل دوز اورحالات ابتر تھے، قائد اعظم اور دیگر راہنماؤں نے زمینی حقائق کو ملحوظ ومقدم رکھتے ہوئے مسلمانان کو ایک پلیٹ فارم پر یکجا کیا اور دو قومی نظریہ پیش کرکے فرنگی سرکار سے مسلمانوں کیلئے ایک الگ وطن کا مطالبہ کیا، اسلام دشمن عناصر کسی صورت اس تقسیم کے لئے تیار نہ تھے مگر قیام پاکستان کے لئے جاری طوفانی تحریک اور مسلمانوں کے جذبہ ایمان کے آگے ان کی ایک نہ چل سکی اور وہ تقسیم برصغیر و قیام پاکستان کے لئے مجبور ہوگئے، 23مارچ کو مینار پاکستان کے سایہ تلے پیش کی جانے والی قرار داد پاکستان کے بعد تحریک پاکستان میں حقیقی جان پڑی اور پھر چشم فلک نے دیکھا کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ صورتحال کی مثبت تبدیلی ممکن ہونے لگی، مسلمانوں کے طغیانی جذبوں کے آگے بند باندھنا کسی کے لئے ممکن نہ رہا تو 14اگست1947کو مدینہ پاک کے بعد دوسری نظریاتی ریاست اسلامی جمہوریہ پاکستان کی بنیاد رکھ دی گئی، تحریک حصول پاکستان سے قیام پاکستان تک ایک لمبا سفر اور بے پناہ قربانیوں کا تانتا بندھا ہے، ہماری نگاہوں کے سامنے آج بھی وہ مناظر گردش کرتے ہیں کہ جب اس ارض پاک کے لئے مسلمانان برصغیر نے اپنا گھر باراوریہاں تک کہ جان سے پیارے عزیز رشتہ داربھی قربان کرنے سے دریغ نہ کیا، یہ قربانیوں ، عظمتوں، محبتوں اور بہادی و شجاعت کی وہ داستان عظیم ہے کہ جب جذبوں کے آگے دنیاوی قوتوں کو ہار تسلیم کرنا پڑی مگر اس داستان کو لفظوں میں بیان کرنا ممکن نہیں ، یہی وجہ ہے کہ آج نسل نو ان واقعات سے آگاہی کے باوجود ان قربانیوں کے حقیقی مفہوم سے نا آشنا نظر آتی ہے۔
قیام پاکستان کے بعد استحکام پاکستان کے لئے ایک نئے سفر کا آغاز ہوا مگر یہاں سے ہی ان عناصر کی سازشوں کا سلسلہ دوبارہ شروع ہوگیا کہ جنہوں نے قیام پاکستان کے موقع پر مجبوراً سپر ڈال دی تھی، دشمنانان ملک و ملت اور دشمنانان اسلام نے پاکستان کو انا کا مسئلہ بنا لیا اور نئی چالیں چلنا شروع ہوگئے، پاکستان کو نظریاتی و جغرافیائی لحاظ سے کمزور بنانے کے لئے اندرونی و بیرونی محاذوں پر جال بچھا دےئے گئے ، یہی وجہ ہے کہ قیام پاکستان کے بعد 69سال کا طویل عرصہ گزرجانے کے باوجود ہم آج بھی بے پناہ مسائل سے دوچار نظر آتے ہیں اور ہمارے بعد آزادہونے والی قومیں اور ریاستیں ترقیاتی میدان میں ہم سے بہت آگے ہیں، پاکستان کے ترقی پذیری کے جنجال سے نہ نکل سکنے کا سب سے بڑا سبب محب وطن قیادت کا فقدان گردانا جاتا ہے، زمینی حقائق کا غیر جانبدارانہ جائزہ لیا جائے تو یہ بات کچھ ایسی غلط بھی نہیں کیوں کہ اغیار کی سازشوں کے باعث سب سے پہلے تو تحریک پاکستان کے راہنماؤں کو کارنر کیا گیا، اس کے بعد روپ بدل کر آنے حکمرانوں نے ملک وقوم کی ترقی و خوشحالی کا نعرہ لگا کر محض اپنے مفادات کی تکمیل کو مقدم رکھا ، ماضی کے واقعات اور اعدار و شماراس بات کے گواہ ہیں کہ صاحب اقتدار طبقہ نے ہمیشہ اولین توجہ حصول اقتدار کے بعد دوام اقتدار پر صرف کی، سیاسی مخالفین کو دبانے کے لئے غیر سنجیدہ پالیسیاں ترتیب دی گئی، نظریہ ضرورت کے تحت تمام آپشز اوپن کرکے ایک ایسی غلط روایت ڈال دی گئی کہ جو ہر لحاظ سے ملک و قوم کے وسیع تر مفادات کے منافی ہے۔
پاکستان کی جغرافیائی و ارضیاتی پوزیشن کو سامنے رکھا جائے تو یہ خطہ بے پناہ معدنی ذخائز اور قدرت کی جملہ نعمتوں سے مزین نظر آتا ہے، یہاں صرف تھر میں ہی کوئلے کے 175ارب ٹن ذخائر موجود ہیں جو کہ618ارب بیرل خام تیل کے برابر ہیں اور دعالمی منڈی میں کوئلے کی عام قیمت 70ڈالر فی ٹن بنتی ہے، اس لحاظ سے صرف کوئلے کی فروخت سے ہم 123ٹریلین ڈالر حاصل کرسکتے ہیں اور یہ رقم مساوی ہے اس رقم کے جو امریکہ نے پچھلے200سالوں میں بنکوں سے بطور قرض حاصل کی، واضح رہے کہ تھر کے علاوہ بھی پاکستان کے صوبہ پنجاب کے مختلف مقامات پر کوئلے کے140ارب روپے کے ذخائر بھی موجود ہیں اگر ان کو اعداد وشمار میں لایا جائے تو صورتحال اور ذیادہ بہتر ہوجاتی ہے اس کے بعد اگر ہم پاکستان میں خام تیل کے ذخائر کا جائزہ لیں تو بہت تعجب خیر صورتحال سامنے آتی ہے کہ پاکستان میں تیل کے ذخائر5ممالک کے مجموعی ذخائر کے برابر ہیں، ایک رپورٹ کے مطابق سعودیہ کے تیل کے ذخائر260ارب بیرل، کینڈا179، ایران139اورعراق115ارب بیرل ہیں یہ مجموعی طور پر690ارب بیرل بنتے ہیں جو کہ پاکستان کے ذخائر کے تقریبا برابر ہیں اور اس لحاظ سے ہمارے پاس سعودی عرب کے ہاں موجود تیل سے دو گناہ سے زیادہ تیل موجود ہے اگر ہم سعودی عرب کی طرح روزانہ 10ملین تیل استعمال کریں تو پاکستان کے ذخائر ختم ہونے کی مدت تقریبا200سال بنتی ہے جب کہ سعودی عرب کے ذخائر ختم ہونے کی مدت81سال ہے، یہاں موجود قدرتی گیس کی قیمت و ذخائر کو اگر اعداد وشمار کے پیمانے پر لایا جائے تو حالات کی اور زیادہ مثبت و حوصلہ افزاء صورتحال سامنے آتی ہے۔
زرعی لحاظ سے بھی پاکستان دنیا کی زرخیز ترین زمینوں کا حامل ہے اور یہاں متوازن موسموں کے سبب دنیا کی ہر فصل اور پھل کاشت کئے جاسکتے ہیں، پاکستان دنیا کی آٹھویں ایٹمی طاقت اور اس کے پاس دنیا کی ساتویں بڑی فوج ہے، معاشی لحاظ سے پاکستان دنیا کی 24ویں طاقت، کپاس کی پیداوار کے حوالہ سے دنیا میں دوسرے نمبر پر ، دودھ اور خوبانی کی پیداوار کے حوالہ سے تیسرے نمبر پر آتا ہے، رقبہ کے لحاظ سے دنیا کا36واں ملک پاکستان زرعی لحاظ سے اول نمبر پر فائز ہے، فنی مہارت کے میدان میں پاکستان ترکی کے بعد دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے اور کسی ایک جگہ پر سونے کے ذخائر رکھنے کے سلسلہ میں بھی پاکستان سرفہرست ہے، گنا کی پیداوار کے لحاظ سے ہم پانچویں نمبر پر آتے ہیں، ایک سوئس بنک کے ڈائریکٹر کا کہنا ہے کہ پاکستان کی97ارب ڈالر کی رقوم سوئس بنک میں پڑی ہوئی ہیں جو کہ تیس سال کے ٹیکس فری بجٹ کے لئے کافی ہیں، ان رقوم سے 6کروڑ پاکستانیوں کو ملازمت کے ذرائع فراہم کئے جاسکتے ہیں، ملک کے کسی بھی کونے سے اسلام آباد تک 4رویہ سڑکیں تعمیر کی جاسکتی ہیں، 500سے زائد پاور پراجیکٹس کے ذریعے ہمیشہ کے لئے بجلی فری دی جاسکتی ہے، ہر پاکستانی ماہانہ 20ہزار روپے60سال تک لے سکتا ہے، یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ بعض دوسرے سوئس ذرائع ان رقوم کو 200ارب روپے قرار دیتے ہیں اگر اس بات کو سامنے رکھا جائے تو درج بالا سہولیات دو گناہ سے زائد ہوجاتی ہیں اور اس صورتحال میں ہمیں ورلڈ بنک یا دیگر مالیاتی اداروں کے آگے ہاتھ پھیلانے کی ضرورت ہی باقی نہیں رہتی بلکہ پاکستان خود قرض دینے کی پوزیشن میں آسکتا ہے، ان سوئس رقوم کے علاوہ اگر پاکستان میں موجود قدرت کی نعمتوں کا شمار کیاجائے تو ترقی وخوشحالی کی رفتار کا اندازہ لگانا کسی کے لئے مشکل نہیں رہتا۔
زمینی حقائق کا جائزہ لیا جائے تو ہماری صفوں میں قومی سوچ مفقود نظر آتی ہے آزادی کے بعد نصف صدی سے زائد کا سفر طے کرنے کے باوجود ہم ایک ہجوم کی شکل میں زندگی بسر کررہے ہیں، صاحب اقتدار طبقہ جزوقتی پالیسیاں مرتب کرتا ہے اور آنے والے ان پالیسیوں میں اپنے مفادات شامل کرکے اس کی افادیت کو خاک میں ملادیتے ہیں، 1947ء کو پاکستان کا قیام ضرور عمل میں آیا مگر قیام پاکستان کے مقاصد کی تکمیل ممکن نہ ہوسکی، بلاشبہ پاکستان کی نظریاتی و جغرافیائی تکمیل ابھی ادھوری ہے، ، تقسیم پاکستان کے وقت حیدر آباد (دکن)، جوناگڑھ اور مناوادر کی ریاستوں کے مسلم راجاؤں نے پاکستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کیا مگر بھارت نے بزور طاقت اپنی فوجیں داخل کرکے ان ریاستوں پر قبضہ کرلیا، دوسری جانب کشمیر کی97فیصد مسلم اکثریتی آبادی پاکستان کے ساتھ الحاق چاہتی تھی اور اس کا اظہار کشمیری عوام آج تک زبرست تحریکوں کی شکل میں جاری رکھے ہوئے ہیں مگر کشمیر میں آٹھ لاکھ بھارتی فوج آج بھی ان کے بنیادی انسانی حقوق پامال کرنے میں مصروف ہے، 71ء کی جنگ میں بھی بھارت نے مشرقی پاکستان میں اپنی فوجیں داخل کرکے ملک کو دو لخت کردیا، سرکریک اور سیاچن کے ساتھ ساتھ پاکستان کے تین دریاؤں پر قبضہ اور باقی ماندہ دریاؤں پر سینکڑوں ڈیموں کی تعمیربھی لمحہ فکریہ ہے، آج ہم جشن آزادی منانے ہوئے ان عوامل کو فراموش کردیتے ہیں جو وقت کا تقاضا ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ نسل نو کو قیام پاکستان کے مقاصد سے آشنا کرتے ہوئے استحکام پاکستان کے لئے حقیقی کردار ادا کیا جائے اور بے پناہ قدرتی نعمتوں سے مالامال اس خطہ ذرخیز کے وسائل کو دیانتدارانہ انداز میں استعمال کرتے ہوئے تعمیر و ترقی کا سفر جاری رکھا جائے ورنہ یاد رکھیں کہ اس غفلت وکوتاہی پر تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرئے گی۔