اسلام آباد (ویب ڈیسک ) خاتون اول بشریٰ بی بی کے سابق شوہر خاور مانیکا کا کہنا ہے کہ بابا فریدؒ کے مزار پر زندگی میں ایک بار پیدل جاتے ہیں، یہ بات غلط ہے کہ ہم ہر سال واک کرکے لاہور سے پاکپتن جاتے ہیں۔ڈی پی او پاکپتن تبادلے کے تنازعہ کے بعد خاور فرید مانیکا پہلی بار کسی ٹی وی پروگرام میں شریک ہوئے ہیں۔
انہوں نے نجی ٹی وی ہم نیوز کو دیے گئے اپنے انٹرویو میں کہا ہے کہ یہ غلط بات ہے کہ ہر سال پیدل دربار پر جانا پڑتا ہے بلکہ یہ زندگی میں ایک بار ہوتا ہے، میں اپنی واک کرچکا ہوں جبکہ میری بیٹی اور بیٹے نے پہلی بار یہ واک کی۔ لاہور سے پاکپتن کا پیدل سفر 6 روز کا ہوتا ہے ۔انہوں نے بتایا کہ ان کی بیٹی اور بیٹا لاہور سے یکم اگست کو عصر کے بعد گھر سے نکلے۔ گرمی ہونے کے باعث وہ رات کو زیادہ سفر کرتے تھے جبکہ اپنی گاڑی کو آگے رکھتے تھے تاکہ لائٹ نہ پڑے اور بے پردگی نہ ہو۔خاتون اول بشریٰ بیگم کے سابق شوہر خاور مانیکا کا کہنا ہے کہ ان کی بیٹی کے ساتھ بدتمیزی کا پہلا واقعہ 5 اگست کو پیش آیا جس میں ڈی پی او کو شکایت کے باوجود کوئی کارروائی نہیں کی گئی جبکہ دوسرا واقعہ 23 اگست کو رات کے ایک بجے اس وقت پیش آیا جب میں اپنی فیملی کے ساتھ دربار سے واپس اپنے گاﺅں جا رہا تھا۔ڈی پی او پاکپتن تبادلے کے تنازعہ کے بعد خاور فرید مانیکا پہلی بار کسی ٹی وی پروگرام میں شریک ہوئے ہیں۔ انہوں نے نجی ٹی وی ہم نیوز کو دیے گئے اپنے انٹرویو میں کہا ہے
کہ یہ غلط بات ہے کہ ہر سال پیدل دربار پر جانا پڑتا ہے بلکہ یہ زندگی میں ایک بار ہوتا ہے، میں اپنی واک کرچکا ہوں جبکہ میری بیٹی اور بیٹے نے پہلی بار یہ واک کی۔ لاہور سے پاکپتن کا پیدل سفر 6 روز کا ہوتا ہے ۔ میری بیٹی اور بیٹا لاہور سے یکم اگست کو عصر کے بعد گھر سے نکلے۔ گرمی ہونے کے باعث وہ رات کو زیادہ سفر کرتے تھے جبکہ اپنی گاڑی کو آگے رکھتے تھے تاکہ لائٹ نہ پڑے اور بے پردگی نہ ہو۔انہوں نے واقعے پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ 5 اگست کی رات کو ایک بجے جب میری بیٹی اور بیٹا پاکپتن کی حدود میں داخل ہوئے تو پولیس کی ایک گاڑی میری بیٹی کے پاس آکر رک گئی اور کہا کہ بی بی ادھر ہی رک جاﺅ۔ پولیس والوں کی وجہ سے میری بیٹی تھوڑی سی پریشان ہوئی کیونکہ اس وقت میرا بیٹا ابراہیم تھوڑا آگے چل رہا تھا۔ گاڑی روک کر تین سے چار لوگ گاڑی سے باہر آئے اور میری بیٹی سے سوال جواب شروع کردیے جس پر اس نے اپنے بھائی کو آواز دی ۔میرا بیٹا ابراہیم پولیس والوں سے بات کرنے لگا اور اس نے اپنی بہن کو کہا کہ آپا آپ گاڑی میں جا کر بیٹھ جائیں ۔
جیسے ہی میری بیٹی جانے لگی تو پولیس والے نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا اور انتہائی گندی زبان میں اسے وہیں رکنے کا کہا جس پر پولیس والوں اور میرے بیٹے میں بحث ہوگئی۔ ابراہیم نے مجھے فون کرکے بلالیا ، جب میں وہاں پہنچا تو میری بیٹی گاڑی میں بیٹھی رورہی تھی ، اس نے بتایا کہ یہ ٹھیک لوگ نہیں ہیں اورنشے میں ہیں ۔ میں پولیس والوں کے پاس گیا تو اتنی دیر میں ایس ایچ او طارق بھی آچکا تھا، اس نے مجھے پہچان لیا اور معافی مانگنے لگا۔خاور مانیکا نے کہا کہ اس سے قبل لاہور، قصور اور اکاڑہ کے اضلاع سے ان کی بیٹی اور بیٹا گزرے لیکن کسی پولیس والے نے انہیں نہیں روکا ۔ پولیس کی گاڑیاں آتی تھیں اور رات کو ان سے فاصلے پر چلتی رہتی تھیں لیکن کسی پولیس والے نے ان سے کوئی سوال تک نہیں کیا اور جیسے ہی اپنی حدود ختم ہوتی تھی تو پولیس کی گاڑی واپس چلی جاتی تھی۔اگلے دن میں نے ڈی پی او رضوان گوندل کو فون کرکے سارا واقعہ بتایا تو انہوں نے کہا کہ میں دیکھ لیتا ہوں لیکن انہوں نے کچھ بھی نہیں کیا۔پولیس کی جانب سے ہراساں کیے جانے کے دوسرے واقعے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے خاور مانیکا نے کہا کہ 23 اگست کو عید کے روز ہم رات کو دربار شریف سے ساڑھے 12 بجے نکلے اور اپنے گاﺅں جارہے تھے کہ پولیس کی گاڑی آگئی اور انہوں نے آتے ہی مجھے کہا کہ مانیکا صاحب نیچے اتریں ہم نے آپ کی تلاشی لینی ہے،
میں نے پوچھا تو انہوں نے کہاہمیں ڈی پی او صاحب کا حکم ہے کہ آپ کی تلاشی لینی ہے۔ اس وقت میری دو بیٹیاں ، نواسے نواسیاں اور میری بیوی گاڑی میں موجود تھے۔خاور مانیکا نے کہا کہ وہ اس بات پر حیران تھے کہ اگر کسی قانون کی خلاف ورزی ہوئی ہے تو ڈرائیور سے کیوں نہیں پوچھا جارہا اور میری طرف یہ لوگ کیوں آئے ہیں۔ میں نے ڈی پی او کو فون کیا ، پہلے تو انہوں نے 2 بار فون کاٹ دیا جس کے بعد انہوں نے کال سنی ۔ میں نے انہیں واقعہ بتایا تو انہوں نے پولیس اہلکاروں کو موقع سے جانے کی ہدایت کی۔خاور مانیکا کا مزید کہنا تھا کہ جب ڈی پی او نے اہلکاروں کو جانے کا کہہ دیا تھا تو انہیں چلے جانا چاہیے تھا لیکن وہ گاڑی کے آگے سے نہیں ہٹے اور سگریٹ سلگا کر کھڑے ہوگئے جبکہ ایک بندے نے اپنے موبائل فون سے ویڈیو بنانی شروع کردی جس پر مجھے برا لگا اور میں نے گاڑی کی لائٹ بند کرکے اس کو ایسا کرنے سے منع کیا۔ میری 9 سال کی بیٹی سمیت ڈبل کیبن گاڑی میں پیچھے کی طرف تین لوگ بیٹھے ہوئے تھے جن کے ساتھ پولیس اہلکار وں نے بدتمیزی کی۔