آج کل چھیڑ خانیوں کا دور دورہ ہے۔ ہر کوئی کسی نا کسی سے چھیڑ خانی کر رہا ہے۔ فرد فرد سے اور قومیں قوموں سے چھیڑ خانی کر رہی ہیں۔ ہماری دنیا میں چھیڑ خانیوں کی تاریخ اسی قدر پرانی ہے جس قدر مہذب انسانی تاریخ پرانی ہے۔ بعض اوقات چھوٹی سی چھیڑ خانی بڑے بڑے مسئلے چھیڑ دیتی ہے۔
دنیا کی سب سے پہلی معلوم چھیڑ خانی قابیل نے ہابیل سے کی تھی۔ یہ چھیڑ خانی ایک خاتون کی وجہ سے کی گئی تھی۔ چھیڑ خانی کا انجام قابیل کے ہاتھوں ہابیل کا قتل تھا۔ اس سے دو باتیں واضح ہوتی ہیں۔ پہلی یہ کہ جہاں پر مرد اور عورت دونوں اصناف موجود ہوں وہاں چھیڑ خانی کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ اور دوسری بات یہ کہ چھیڑ خانی کے نتائج مہلک بھی ہو سکتے ہیں۔
چھیڑ خانی کے لفظ سے کہیں آپ یہ نہ سمجھ لیجئے گا کہ اگر کوئی خان کسی کو چھیڑ دے تو وہ چھیڑ خانی ہوتی ہے۔ چھیڑ خانی بلا تخصیص رنگ و نسل، عقیدہ، جنس اور قوم کے کوئی بھی کسی سے بھی کر سکتا/سکتی ہے۔ یہ درست ہے کہ دنیا میں موجودہ اور ناموجودہ کچھ مشہور خوانین کی چھیڑ خانیاں بہت مشہور ہوئی ہیں۔ جن میں چنگیز خان اور ہلاکو خان سے لے کر سلمان خان، جان شیر خان اور شاہد خان آفریدی کے علاوہ اور بھی بہت سے خان شامل ہیں۔ مگر چھیڑ خانی کرنے والوں کی اکثریت غیر از خان لوگوں پر مشتمل ہے۔ نپولین، ہٹلر، اسٹالن، بش ان میں سے کوئی بھی خان نہیں ہے مگر ان کی چھیڑ خانیاں چنگیز خان کو بھی شرما تی ہیں۔
ہمارے ملک میں اب اگر خان کسی کو چھیڑے تو وہ غیر آئینی اور غیر جمہوری حرکت بلکہ جمہوریت کے خلاف سازش کہلاتی ہے۔ چھیڑے جانے والے خواتین و حضرات قوم کے سامنے مختلف قسم کی دہائیاں دیتے دکھائی دیتے ہیں۔ حال ہی میں عمران خان نے ایک انٹرویو میں اپنے مشہور “مائی نیم از خان” والے ٹویٹ کو ایک مذاق قرار دیا اور کہا کہ ان کی مقدمات میں ضمانت ہو گئی چناچہ وہ مزے لے رہے تھے۔ اور یہ بات تو ہم سب جانتے ہی ہیں کہ چھیڑ خانی کا بنیادی مقصد مزے لینا ہی ہوتا ہے۔
مزے لینے سے یاد آیا کہ آج کل دنیا میں اپنی “کھرک” کی وجہ سے مشہور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی مزے لینے کے بےحدشوقین ہیں۔ اکثر ملاقاتوں کے مناظر میں ڈونلڈ ٹرمپ اپنے ملاقاتیوں کے ساتھ چھیڑ خانی کرتے نظر آتے ہیں۔ سب سے مشہور ان کی پوپ بینی ڈکٹ کے ساتھ کی گئی چھیڑخانی ، ہوئی تھی جس میں ٹرمپ پوپ کے ہاتھ پر انگلی سے “کھرک” کر رہے تھے۔ (بعد میں وہ ویڈیو جعلی ثابت ہوئی تھی)۔ ویڈیو تو جعلی ثابت ہو گئی مگر ٹرمپ کی چھیڑ خانیاں جاری رہیں۔ انہوں نے امریکا میں تارکین وطن کے لیے قوانین انتہائی سخت کیے۔ ان کی آمد پر پابندی لگائی۔ پھر انہوں نے مسئلہ فلسطین کے ساتھ چھیڑ خانی کی اور اپنا اسرائیلی سفارت خانہ یروشلم منتقل کرنے کا اعلان کر دیا۔ شمالی کوریا کے ساتھ بھی ان کی ٹویٹری چھیڑ خانی ایک دنیا کو سہما رہی ہے اور تازہ ترین چھیڑ خانی ٹرمپ نے پاکستان کے ساتھ کر دی جب “ہیپی نیو ایئر” کا عقل شکن پیغام دیتے ہوئے پاکستان کے خلاف نہ صرف لغو الزامات لگائے بلکہ ایک قدم آگے بڑھاتے ہوئے پاکستان کی سیکیورٹی امداد بھی معطل کر دی۔ یہاں سے ایک بات اور سمجھ میں آتی ہے کہ بعض اوقات چھیڑ خانی کا مقصد محض مزے لینا نہیں ہوتا بلکہ قابیل کی طرح اپنے مقاصد کی تکیل کے لیے عملی اقدامات بھی اٹھائے جا سکتے ہیں۔
زبردست کی چھیڑ خانی کے جواب میں کمزور افراد یا اقوام کمزور صدائے احتجاج بلند کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کر پاتے۔ اپنی طاقت کےنشے میں بدمست ڈونلڈ ٹرمپ دنیا میں چھیڑ خانیاں کرتا پھر رہا ہے اور اقوام عالم غیر مؤثر صدائیں بلند کر رہی ہیں۔
پاکستان کی جانب سے مگر خواجہ محمد آصف جو غالباً ہمارے وزیر خارجہ ہیں، نے ٹرمپ کو ترکی بہ ترکی بلکہ اردوبہ اردو جوابی ٹویٹ دے مارے ہیں۔ ان کے علاوہ کسی کو یہ عقل کی بات نہیں سوجھی کہ ٹرمپ کی دھمکیوں کے جواب میں مشرف کی آمریت کا رونا ڈال دیں۔ شاید ان کے ذہن میں یہ بات رہی ہو کہ امریکا میں ری پبلکن حکومتیں پاکستانی آمروں کے ساتھ اچھے تعلقات رکھتی رہی ہیں چناچہ انہوں نے ایک ری پبلکن صدر کو اس کی پارٹی کی سابقہ حکومتوں کی غلطیوں کی طرف توجہ دلانے کی کوشش کی ہے۔ اس سوچ پر خواجہ آصف خراج تحسین کے مستحق ہیں۔
چونکہ سبھی چھیڑ خانیاں کر رہے ہیں اس لیے ہم بھی ایک چھیڑ خانی کر دیتے ہیں۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ کرے ٹرمپ کے سر میں جوئیں اور امریکہ کی توپوں میں کیڑے پڑیں۔ آمین۔