تحریر: ابنِ نیاز
یہود و نصاریٰ و ہنود مسلمانوں میں ان کے اپنے ہی دین اسلام سے متعلق شکوک و شبہات پھیلانے میں تب سے دل و جان سے محنت کررہے ہیں جب رسول اللہ ۖ نے اللہ کے حکم سے نبوت کا اعلان کیا تھا اور ریاست مدینہ کی اسلامی بنیاد ڈالی تھی۔ ان سب سازشوں کا سرغنہ عبداللہ ابن ابی منافقوں کا سردار تھا۔ اس نے اسلام کے پردے میں رہتے ہوئے مسلمانوں کے خلاف یا تو خود سازشیں کیں، یا ہر سازش کا حصہ رہا ۔ بنیادی طور پر وہ یہودی تھا۔ رسول اللہ ۖ کے مدینہ تشریف لانے سے اس کی ہونے والی سرداری اس سے چھن گئی تھی جس کی وجہ سے وہ پیچ و تاب کھا رہا تھا۔ لیکن مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد اور ان کی رسول اللہ ۖ سے وفاداری دیکھ کر وہ یہ جان گیاتھا کہ اگر ہوشیاری سے کام نہ لیا گیا تو وہ بھی جان سے جائے گا اور اس کے ساتھ دینے والے بھی۔ تو اس نے چولا بدلا۔ اس نے بظاہر کلمہ پڑھا۔ رسول اللہ ۖ پر ایمان لے آیا۔ لیکن اللہ تو سب جانتا ہے۔ اللہ نے فرمایا:
”اور کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں ہم اللہ اور قیامت پر ایمان لائے حالانکہ وہ ایمان لانے والے نہیں۔ وہ اللہ اور ایمان والوں کو دھوکہ دیتے ہیں۔ حالانکہ وہ اپنے آپ کو ہی دھوکہ دے رہے ہیں مگر وہ سمجھتے نہیں ہیں۔”۔ سورة البقرة۔ آیات ١٠-٩
یہ اس وقت کی بات تھی۔ اور اِس وقت کی بات یہ ہے کہ ١٩٧٤ میں قادیانوں کو پارلیمنٹ ایکٹ کے ذریعے غیر مسلم قرار دیا گیا تھا۔ جب کہ وہ اس وقت سے ہی غیر مسلم تھے، جب سے ان کے مرزا قادیانی نے نبوت کا جھوٹا دعوٰی کیا تھا۔اور اس کے بعد سے اب تک قادیانی اس کوشش میں ہیں کہ کسی بھی طرح خود کو مسلم کہلوا کر دین اسلام کی جڑوں میں بیٹھ کر اس کو کاٹ ڈالیں۔ کیونکہ ان کے تو صرف ہاتھ پائوں چلتے ہیں، دماغ تو ان کے پیچھے بیٹھے ان کے آقائوں کا چلتا ہے۔ جن میں برطانیہ ، اسرائیل سر فہرست ہیں۔ لیکن دین اسلام اللہ کا پسندیدہ دین ہے کہ اس ذات نے ہمارے لیے یہ دین پسند کیا ہے۔ تو کسی کی کیا مجال کہ اس کو رتی برابر بھی نقصان پہنچا سکے۔ ہاں ، اس وقت جو ظاہر نقصان پہنچ رہا ہے ، وہ ہم مسلمانوں کی اپنی چپقلش سے پہنچ رہا ہے۔ ہم مسلمان آپس میں فرقہ فرقہ کھیل رہے ہیں۔ ایک دوسرے کو جھوٹا اور صرف خود کو سچا کہہ رہے ہیں۔
ویسے قادیانی حضرات سے ایک سوال ہے کہ ان کے جھوٹے نبی نے تو اپنے پیرو کاروں کے علاوہ دیگر سب کو کافر قرار دیا تھا۔ خاص طور پر مسلمانوں کو تو پھر وہ خود کو مسلمان کیوں کہلوانا پسند کرتے ہیں؟ ان کے کسی مربی نے کہا تھا کہ مسلمان نہیں، بلکہ مسلمانوں کا ایک فرقہ۔ بات تو وہیں آجاتی ہے کہ فرقہ سہی۔ جب تمھارے جھوٹے نبی مرزا قادیانی نے دیگر سب مسلمانوں کو کافر قرار دیا تھا تو اِن کافروں کا ایک فرقہ کس لیے بننا چاہتے ہو؟ ایک اور سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ کیسا نبی تھا جو اپنے کو نہ ماننے والے مسلمانوں کو تو کافر قرار دیتا ہے لیکن اس کو تو عیسائی ، یہودی اور ہندو بھی نہیں مانتے تھے، ان کو تو کبھی کچھ نہیں کہا۔ بلکہ ان سے تو دوستی کے وہ رشتے استوار کر لیے کہ ان کے آپس میں بھی شاید نہ ہوں۔
پھر جب ان قادیانیوں نے دیکھا کہ ان کی دال نہیں گل رہی۔ تو انہوں نے اپنے آقائوں کے ساتھ مل کر مسلمانوں کے خلاف نئی سازشیں کیں۔ انہوں نے ایک نیا روپ اختیار کیا۔ خود تو میدان میں نہیں آئے بلکہ ہم مسلمانوں میں ہمارے ہی روپ میں کچھ ایسے لوگوں کو داخل کر دیا جن کا کام میک اپ کے اندر رہتے ہوئے مسلمانوں کو گمراہ کرنا ہے۔وہ بظاہر ہیں تو مسلمان ہی ۔ ان کے نام مسلمانوں کے ، ان کے کام مسلمانوں کے۔ وہ ہر کام سر انجام دیتے ہیں۔ لیکن انھوں نے اپنے اُن آقائوں کی مدد سے بننے والے میڈیا بھرپور استعمال کیا ہے اور کر رہے ہیں۔ خاص طور پر الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کو اس طرح استعمال میں لا رہے ہیں جیسے یہ بنے ہی صرف اور صرف ان کے لیے ہوں۔ اور یقینا ایسا ہی ہے۔ یہ طبقہ مسلمانوں کو گمراہ کرنے کا اپنا فریضہ سر انجام دے رہا ہے۔ اور ہم مسلمان اندھی تقلید والے، کہیں سے بھی تھوڑی اس طرح کی دلیل مل جائے جو دل پر لگ جائے، تو اس کے پیچھے چل پڑتے ہیں۔ ہم مسلمانوں میں ایک سب سے بڑی خرابی سب سے پہلے ان عیسائیوں، یہودیوں نے پروپیگنڈہ کر کر کے یہ پیدا کی کہ وہ ہمارے رہنما جو ہمیں دین کی باتیں سکھاتے تھے، ہمارے اندر دین کو کوٹ کوٹ کر بھرتے تھے، ان سے ہمیں یہ کہہ کر متنفر کر دیا کہ یہ نعوذ بااللہ، دہشت گرد ہیں، یا ان کے پشت پناہی ہیں۔
جب کہ ہر گز ایسی بات نہیں۔ مسلمان نہ کبھی دہشت گرد تھا، نہ ہو گا۔ اور خاص طور پر یہ لوگ، جو ہمیں دین سکھاتے ہیں وہ تو ہو ہی نہیں سکتے۔ ارے وہ لوگ جب خود دین سیکھتے ہیںاور وہ لوگ جو بیکن ہائوس، ایچی سن ، ہاورڈ، کیمبرج یا آکسفورڈ میں پڑھ کر آتے ہیں یا پاکستان سے ہی انجنئیر ، ڈاکٹر بنتے ہیں تو ان میں کتنا فرق آجاتا ہے۔ پہلے والے جب گھر میں آتے ہیں تو ہر گز اونچی آواز میں بات نہیں کرتے کہ مبادا ان کے والدین برا نہ مان جائیں، کہیں ان کی شان میں گستاخی نہ ہو جائے۔ اور دوسرے نمبر والے جب گھر آتے ہیں تو ان کے والدین اونچا نہیں بولتے کہ ان کی اولاد کہیں ناراض نہ ہو جائے۔ کہیں وہ یہ نہ کہیں کہ ان کے والدین کو بولنا نہیں آتا۔ جب شخص صرف اپنے والدین کی شان میں گستاخی سمجھتے ہوئے ان کے سامنے اونچا بولنے سے گریز کرے گا، وہ دہشت گرد کیسے ہو گا؟
وہ طبقہ جو یہودیوں، عیسائیوں اور قادیانوں نے مل کر تیار کیا اور مسلمانوں میں داخل کیا ان کا کام مسلمانوں کو دین سے متنفر کرنا تھا۔ وہ بہت آہستہ آہستہ مسلمانوں میں میڈیا کے ذریعے ایسی باتیں پھیلاتے ہیں کہ جو مسلمانوں کو لگیں واقعی وہ درست کہہ رہے ہیں۔ اس طبقے کا سربراہ یا سربراہان میں سے ایک جناب غامدی ٹھہرے۔ جن کی باتیں انٹرنیٹ پر ویڈیو کی صورت میں موجود ہیں۔جو اپنے ہر دوسرے ، تیسرے پروگرام میں اسلام کے کسی نہ کسی مسلے کو اسلام سے ہی خارج کر دیتے ہیں۔ جیسے نامحرم سے ہاتھ ملانا، تراویح کو اسلام سے ہی خارج کر دینا اور اوپر سے کہنا کہ اسلام تو بہت آسان دین ہے، یہ تو دین کے ٹھیکیداروں نے اس کو مشکل بنایا ہوا ہے۔ کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ اسلام کے پہلے ٹھیکیدار کون تھے؟ یہ بد بخت اسلام کے ان ٹھیکیدار جنھوں نے ہمیں اس دین سے روشناس کروایا۔ ہمیں دین و دنیا میں راہ راست پر چلنا سکھایا، ان کو غلط کہتا ہے۔ یہاں خدارا، ٹھیکیدار کو منفی معنوں میں نہ لیجئے گا۔ اس طرح کی بہت سی باتیں وہ کرتے ہیں ۔ مزے کی بات تو یہ ہے کہ اسی میڈیا پر بیٹھے ہمارے نام نہاد علمائ، جنہیں میں علماء سو ہی کہوں گا ، ان کے خلاف کچھ نہیں کہتے ۔ اخبارات میں بیان ضرور آجاتا ہے کہ انھوں نے غلط کہا ہے، لیکن جو اثر میڈیا کے ذریعے وہ ڈال سکتے ہیں، آپ کیوں نہیں؟
غامدی صاحب کی ایک مثال دی ہے۔ اب ہو یہ رہا ہے کہ نسیم کوثر ، کنول نور ، محمد علی، تنویر احمد جیسے لوگ سامنے آئے ہیں۔ او ر خاص طور پر سوشل میڈیا میں انھوں نے ایک گروپ بنا لیا ہے۔ ایک کوئی بات کرتا ہے جو اسلام کے اصولوں کے خلاف ہوتی ہے تو دوسرے ٹھاہ ٹھاہ کر کے اس کی تائید کرتے ہیں۔ ظاہر ہے جبب بہت سارے لوگ تائید کریں گے تو اسلام کے اصولوں سے نابلد لوگ، جو کہ کم علم ہیں، وہ یہی سمجھیں گے کہ جب بہت سے لوگ تائید کر رہے ہیں تو سچ ہی ہو گا۔ پھر وہ کم علم کسی عالم سے پوچھنے کی ہمت نہیں کرتا ، کسی مولوی سے ، مفتی سے نہیں پوچھتا کہ یہ تو دہشت گرد ہیں۔ تو یہ بات کرنے والے لوگ ہی درست ہوں گے۔ جب کہ یہ ہر گز درست نہیں ہو سکتے۔ کیونکہ انھوں نے ہدایت کے بدلے گمراہی خریدی ہے، اور ان کو ان کی یہ تجارت ہر گز فائدہ نہیں دے گی اور وہ ہر گز ہدایت یافتہ لوگوں میں سے نہیں ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ القرآن۔
تحریر: ابنِ نیاز