counter easy hit

مفتی عبدالقوی جھوٹے ہیں یا سچے؟ پولی گراف ٹیسٹ مکمل

لاہور: مفتی عبدالقوی کا پولی گرافک ٹیسٹ مکمل، مفتی عبدالقوی کو تقریبا 6 گھنٹے لاہور کی پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی میں رکھا گیا، جس کے بعد سخت سکیورٹی میں دوبارہ ملتان کے تھانہ چہلیک منتقل کر دیا۔

Qandeel Baloch murder: Mufti Abdul Qavi reached Multan after polygraphic testپنجاب فرانزک سائنس ایجنسی میں 6 گھنٹے تک مفتی عبدالقوی کا پولی گرافک ٹیسٹ کیا گیا۔ پولیس ذرائع کیمطابق مفتی عبدالقوی سے ٹیسٹ کے دوران قندیل بلوچ قتل کیس کے حوالے سے مختلف سوالات کیے گئے۔ قندیل بلوچ سے نجی ہوٹل میں ہونیوالی ملاقات کے دوران موجود تیسرے شخص کے بارے میں بھی مفتی عبدالقوی سے سوالات ہوئے۔ مفتی عبدالقوی سے قندیل بلوچ کے اہلخانہ اور رشتے داروں سے تعلقات بارے بھی پوچھ گچھ کی گئی۔ پولی گرافک ٹیسٹ کے بعد پولیس کی خصوصی ٹیم نے مفتی عبدالقوی کو دوبارہ لاہور سے ملتان کے تھانہ چہلیک میں منتقل کر دیا ہے۔

پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر ملتان کے سٹی پولیس آفیسر محمد سلیم نے بی بی سی کو بتایا کہ ‘مفتی عبدالقوی کا پولی گراف ٹیسٹ مکمل ہو گیا ہے اور انھیں ملتان واپس لے جایا جا رہا ہے اور ٹیسٹ کا نتیجہ پولیس کو دو تین دن بعد موصول ہوگا’۔

پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر لاہور میں واقع پنجاب فورنزک سائنس ایجنسی میں کیے جانے والے ٹیسٹ کے دوران جدید سائنسی طریقوں کی مدد سے یہ جاننے کی کوشش کی گئی کہ بیان دیتے وقت مفتی عبدالقوی سچ بول رہے تھے یا جھوٹ۔

اس طریقہ کار سے حاصل کردہ بیان سے پولیس کو مزید تفتیش میں مدد مل سکتی ہے تاہم قانونی ماہرین کے مطابق بنیادی شہادت کے طور پر اس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔یاد رہے کہ مفتی عبدالقوی کو حال ہی میں ان کی ضمانت منسوخ ہونے کے بعد چار روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کی تحویل میں دے دیا گیا تھا۔ تاہم حراست کے دوران مفتی عبدالقوی کو سینے میں تکلیف کی شکایت پر ہسپتال منتقل کر دیا گیا تھا۔ انھیں منگل کے روز ہسپتال سے فارغ کر دیا گیا تھا۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے فوجداری قانون کے ماہر وکیل رضوان عباسی کا کہنا تھا کہ پولی گراف یا جھوٹ پکڑنے والی مشین کے ذریعے بیان قلمبند کرنے والے شخص کو بذاتِ خود عدالت میں پیش ہو کراس کے نتائج کو ثابت کرنا ہوگا۔

رضوان عباسی کا کہنا تھا ‘انفرادی طور پر ٹیسٹ کے نتیجے کی عدالت میں شہادت کے طور پر کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔ جس شخص نے یہ ٹیسٹ لیا ہو اس کو خود عدالت میں پیش ہو کر اسے ثابت کرنا ہو گا جس پر جرح بھی کی جائے گی’

پولی گراف ٹیسٹ کیا ہوتا ہے؟

Qandeel Baloch murder: Mufti Abdul Qavi reached Multan after polygraphic testپنجاب فورنزک سائنس ایجنسی کی ویب سائٹ کے مطابق پولی گراف مشین ایسا سائنسی آلہ ہے جو کہ بلڈ پریشر، سانس، نبض اور جلد میں ہونے والی جسمانی تبدیلیوں کو اس وقت ناپتا ہے جب ملزم کا بیان ریکارڈ کیا جا رہا ہوتا ہے۔یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اس طریقہ کار سے اگر ملزم جھوٹ بولے تو اس کے ردِ عمل کا موازنہ سچ بولے جانے والے ردِ عمل سے کیا جا سکتا ہے۔ تاہم اس ٹیسٹ کے درست نتائج کا زیادہ تر دارومدار ٹیسٹ کرنے والے شخص کی مہارت پر ہوتا ہے۔

 

ٹیسٹ سے قبل ملزم کو نہیں بتایا جاتا کہ اس کا پولی گراف ٹیسٹ کیا جائے گا۔ٹیسٹ سے 24 گھنٹے قبل اس بات کو یقینی بنایا جاتا ہے کہ ملزم اچھی طرح سے آرام کر چکا ہے اور کسی قسم کی دوا کے اثر میں نہیں ہے۔ مفتی عبدالقوی کو لاہور منتقل کے جانے کے بعد چند گھنٹے آرام کا وقت دیا گیا ہے۔بی بی سی سے بات کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے وکیل محمد امجد پرویز نے بتایا کہ اس ٹیسٹ کے ذریعے لیے گئے بیان کو تائیدی یا توثیقی شہادت کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔

Popular Videos

Qandeel Baloch murder: Mufti Abdul Qavi reached Multan after polygraphic testمحمد امجد پرویز کے مطابق ‘آج تک پاکستان میں کبھی اس طریقے سے لیا گیا بیان شہادت کے طور پرعدالت میں کسی مقدمے میں پیش نہیں کیا گیا’ان کا کہنا تھا کہ قانون میں یہ گنجائش موجود ہے کہ جدید طریقوں سے جو شواہد اکٹھے کیے جاتے ہیں وہ اس شرط پر عدالت میں قابلِ قبول ہوں گے کہ ان پر جرح کی جا سکے۔ ان کا کہنا تھا ‘اس موقع پر یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ اس ایجنسی کا ٹیسٹ کس حد تک غلطی سے مبرا ہے’۔
محمد امجد پرویز نے وضاحت کرتے ہوئے کہا ‘پولی گرافک ٹیسٹ بذاتِ خود کوئی شہادت یا ثبوت نہیں ہے اس لیے محض اس کی بنیاد پر کسی کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہونی چاہیے۔ اگر کوئی شہادت یا ثبوت موجود ہو تو اس کی تائید کے لیے ان جدید طریقوں کا استعمال کیا جا سکتا ہے’۔ان کے مطابق پاکستان کے قانونِ شہادت کے مطابق جو بیان پولیس کی حراست میں لیا جاتا ہے وہ عدالت میں قابلِ قبول نہیں ہوتا۔ان کا کہنا تھا کہ ایسے طریقوں سے حاصل کردہ شہادت یا ثبوت زیادہ تر اس بات کا تعین کرنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے کہ جرم ہوا ہے تاہم اس سے یہ پتہ نہیں لگایا جا سکتا کہ جرم کس نے کیا ہے۔امجد پرویز کا کہنا تھا کہ اگر اس ٹیسٹ کے نتائج مثبت آتے ہیں تو اس سے پولیس کی اپنے اس شک کے حوالے سے حوصلہ افزائی ہو گی جو ملزم پر کیا جا رہا ہے۔ اس کے بعد وہ اس کو ثابت کرنے کے لیے مزید ثبوت تلاش کرنے کی کوشش کرے گی