چودھری رحمت علی
پوری تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں چودھری رحمت علی جیسا غیر متنازعہ ، شریف النفس اور ایماندار لیڈر پنجاب کی تاریخ میں نہیں آیا۔ جس نے کبھی بھی برادری پرستی کی بات نہیں کی کسی انجمن گجراں کی سر پرستی نہیں کی تمام عمر امت مسلمہ کی نشاط ثانیہ کے لئے سرگرداں رہے کوشش جد و جہد کرتے کرتے جہان فانی سے چلے گئے مگر اپنی عظیم الشان جد وجہد کے ایسے نشان چھوڑ گئے جو تا قیامت یاد رہیں گے۔کچھ تو ایسے تھے جو مونٹ ایورسٹ سر کر گئے اور کچھ اپنی جانیں دے گئے۔ضروری نہیں کہ ہر ایک کہ نصیب میں کامیابی لکھ دی گئی ہو کئی ایسے بھی ہوتے ہیں جن کا نام کوشش کرنے والوں میں شمار ہوتا ہے۔چودھری صاحب بھی انہی میں سے ہیں۔انہیں تحریک پاکستان کا ابوذر غفاری بھی کہا گیا اور مظلوم مجاہد بھی۔
شاعر مشرق علامہ اقبالؒ نے کہیں لکھا ہے:
’’قومیں شاعروں کے دلوں میں جنم لیتی اور سیاست دانوں کے ہاتھوں میں پہنچ کر مرجاتی ہیں۔‘‘
کسے معلوم تھا کہ مصور پاکستان کے قلم سے نکلا ہوا یہ الہامی فقرہ ایک ساعت بد میں خود ان ہی کے خواب کی تعبیر ثابت ہو گا۔ کوئی نہیں
سوچتا کہ ایک دلکش سہانے خواب کی تعبیر ایسی الم انگیز اور غم ناک کیوں نکلی۔ اس عاجز کے نزدیک دنیائے فانی میں تعمیر و تخریب کے جو واقعات بھی ظہو ر پذیر ہوں، وہ ظاہری و باطنی علل کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ عجیب بات یہ ہے کہ ہماری نگاہ ظاہربیں خارجی اسباب کی متلاشی ہوتی ہے۔ خدا وند تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں وہ چشم باطن عطا فرمائے کہ ہم باطنی اسباب کی کھوج کرید بھی کبھی کیا کریں۔
اپنے گناہوں، اپنی بداعمالیوں ،اپنی خود غرضیوں اور کم ظرفیوں کا دوش دوسروں کو دینا کتنا آسان ہوتا ہے اور یہ اعتراف کتنا کٹھن کہ ہاں جو کچھ ہوا، بہت برا ہوا ۔ یہ چشم باطن دکھاتی ہے کہ اپنی کس بدنیّتی سے ہم نے ٹھوکر کھائی، زخم لگے اور لہو لہان ہوئے۔ کس قدر پیش پاافتادہ جملہ ہے کہ سنتے سنتے کان پک گئے ہیں کہ یہ ملک بڑی قربانیوں سے معرض وجود میں آیا ہے، اس کی بنیاد وں میں لاکھوں انسانوں کا لہو، ہزاروں بہو بیٹیوں کی عصمتیں شامل ہیں وغیرہ‘ مگر کبھی یہ سننے میں نہ آیا کہ یہ ملک ہماری ناشکر گزاری، احسان فراموشی اور ایک غفلت مسلسل سے دو لخت ہوا اور اب تو نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ اسے ناکام ریاست، خطرناک ترین ریاست اور نہ جانے کن کن القابات سے دنیا میں نوازا جا رہا ہے۔
اب یہ لفـظ ’’پاکستان‘‘ کا ذکر آیا ہے‘ تو آج کے حرماں نصیب ملک کا نام یقینا چودھری رحمت علی نے کسی شبھ گھڑی تجویز کیا تھا۔ صرف تجویز ہی نہیں کیا جس چار ورقی پمفلٹ میں یہ نام پہلی بار دنیا کے سامنے آیا، یعنی ’’اب یا کبھی نہیں‘‘ اسے پڑھ کر میں حیران ہوتا ہوں کہ حکیم الامت کے خطبہ الہ آباد کے صرف تین سال بعد اور قرار داد پاکستان سے سات سال پہلے لکھے گئے اس پمفلٹ میں بڑے گرم جوش جذبات اور محکم عقلی دلائل سے پاکستان کا مقدمہ لڑا گیا ہے۔ یہ وہی دلائل ہیں جن سے بعدمیں قائد اعـظم نے گورے آقاؤں اور تنگ نظر کانگریس کو قائل کیا۔
ہندوستان میں مسلمانوں کے مختلف اور جداگانہ قوم ہونے کا جتنا واضح اور دو ٹوک لب و لہجے میں اعلان چودھری رحمت علی نے کیا، ان سے قبل کسی اور نے نہیں کیا۔ جب مسلم لیگ نے دو قومی نظریے کی بنیاد پر قیام پاکستان کی تحریک چلائی‘ تو اس کے پاس مسلمانوں کے ایک قوم ہونے کے وہی دلائل تھے جو چودھری رحمت علی اپنے مذکورہ پمفلٹ میں پوری قوت سے بیان کرچکے تھے۔ قیام پاکستان کے حق میں کوئی نئی دلیل، نیا نکتہ ، نیا وژن مسلم لیگی راہنمائوں کے پاس نہ تھا۔
تصور پاکستان کے اس خالق‘ ایک وژنری مفکر، مسلمانان ہند کے سچے ہمدرد و غم خوار ، مگر انتہائی بدنصیب، کیمبرج کے اس نوجوان طالب علم کے ساتھ ہماری قوم کے مورخین ‘ مصّنفین‘ دانش وروں اور خود مسلم لیگ اور تحریک پاکستان کے راہنماؤں نے کیا سلوک کیا، کیسی بے اعتنائی ، بے مروتی اور احسان فراموشی کا سلوک! چودھری رحمت علی کا قصور فقط اتنا تھا کہ وہ بھی غالب کے الفاـظ میں عندلیب گلشن ناآفریدہ تھے۔ ایک ایسے نابغہ جو وقت سے پہلے پیدا ہو کر ناقدری زمانہ کی سختیاں جھیلتے رہے۔ گول میز کانفرنس لندن کے مندوبین میں جب یہ انقلابی پمفلٹ تقسیم کیا گیا‘ تو اسے ایک طالب علم کی ناقابل التفات ، ناقابل عمل اور جذباتی کوشش سے تعبیر کرکے رد کردیا گیا‘ مگر جس محنت میں خلوص اور نیک نیتی کی مہک شامل ہوتی ہے‘ اسے خالق ارض و سما ںکبھی رائگاں نہیں جانے دیتا کہ یہ اُس کی سنت ہے۔
پمفلٹ میں تجویز کردہ نام ’’پاکستان ‘‘ قبول کر لیا گیا۔ ظلم یہ ہوا کہ پمفلٹ کے مندرجات نظرانداز کر کے چودھری رحمت علی مرحوم کی قیام پاکستان کے لیے قائم کی جانے والی تنظیم ’’پاکستان نیشنل موومنٹ‘‘ کی سرگرمیوں کو پرکاہ کے برابر اہمیت نہ دے کر نسلِ نو کو پڑھائی جانے والی تاریخ میں سے اِن کی خدمات کو حذف کردیا گیا، یعنی آدھا سچ چھپا لیا گیا۔ آج ہم اور ہماری نئی نسل چودھری رحمت علی کو صرف پاکستان کے نام کے خالق کی حیثیت سے جانتی ہے۔
نوجوانانِ پاکستان کو علم نہیں کہ قرار داد پاکستان ۱۹۴۰ء سے قبل بقول ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی مختلف شخصیات کی جانب سے تقسیم ہند کی جو وقتاً فوقتاً پندرہ تجاویز پیش کی گئیں، ان میں علامہ اقبال کے خطبہ الہ آباد سے بھی بہت پہلے ۱۹۱۵ء میں چودھری رحمت علی نے بزم شبلی میں خطبہ دیتے ہوئے کہا تھا : ’’شمالی ہند مسلم ہے اور ہم اسے مسلم ہی رکھیں گے۔ نہ صرف یہ بلکہ ہم اسے مسلم مملکت بنا دیں گے‘ مگر ہم ایسا اُسی وقت کر سکتے ہیں جب ہمارا شمالی حصہ ’’ہندوستان‘‘ نہ رہے۔ کیونکہ یہ اس کے لیے شرط اوّلین ہے۔ پس ’’ہندوستانیت‘‘ کو ہم جس قدر جلد ترک کر دیں‘ ہمارے اور اسلام کے لیے وہ اتنا ہی بہتر ہے۔‘‘ (بحوالہ جدوجہد پاکستان۔ص ۳۔۱۶۴) ڈاکٹر قریشی نے لکھا ہے کہ تقسیم ہند اور مسلمانوں کے لیے علیحدہ وطن کا تصور جمال الدین افغانی کے بعد جس شخص نے پیش کیا، وہ چودھری رحمت علی تھے ۔
چودھری رحمت علی ۱۶؍ نومبر ۱۸۹۷ء کو مشرقی پنجاب میں ضلع ہوشیار پور کے گاؤں موہر میں پیدا ہوئے۔ ۱۹۱۵ء میں انھوں نے علامہ شبلی نعمانی کے حوالے سے ’’بزم شبلی‘‘ کی داغ بیل ڈالی۔ ان کی اپنی روایت کے مطابق اسی بزم سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے پہلی بار برصغیر میں ایک آزاد مسلم مملکت کا تصور پیش کیا۔ یہ درست کہ ان کا تصور پاکستان اسی طرح ناپختہ تھاجیسے مولانا حسرت موہانی کا گاندھی جی سے بھی پہلے ہندوستان کے لیے آزادی کامل کا مطالبہ کرنا۔
جس طرح حسرت موہانی کا مطالبۂ آزادی وقت سے پہلے ہونے کی وجہ سے اس زمانے میں صدابصحرا ثابت ہوا‘ اسی طرح چودھری رحمت علی کا ’’مطالبہ پاکستان‘‘ ہندوستان کی سیاسی زمین ہموار نہ ہونے ، خود اس تصور کے نئے، اجنبی اور نامانوس ہونے کی وجہ سے حیرت اور حقارت کے سوا کوئی دیرپا طلاطم پیدا نہ کرسکا۔ لیکن سیاست کی سطح آب پر انھوں نے پہلا پتھر پھینک دیا تھا۔ اس سے جو لہریں اٹھیں انھوںنے ترکی کی ادیبہ خالدہ، ادیب خانم کو اس بات کی طرف متوجہ کیا کہ وہ چودھری رحمت علی سے نہ ـصرف ان کے تصور پاکستان پر مکالمہ کریں بلکہ اسے اپنی کتاب کا ایک باب بنائیں۔
یہ ارض پاک ان کے ذہن میں ایک خیال و خواب بن کر رہا اور جب وہ وجود میں آیا‘ تو کسی نے نہ پکارا کہ ’’رحمت علی! اپنے خوابوں کی سرزمین دیکھنے نہ آؤ گے؟‘‘ جب چودھری رحمت علی دل کے درد کے ہاتھوں مجبور،بن بلائے خود سے آئے‘ تو مفاد پرست حکمراں ٹولے نے ان کے پیچھے اپنے شکاری کتے چھوڑ دیے جن کا سرکاری نام ’’سی آئی ڈی‘‘ تھا۔ حسین شہید سہروردی کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ وہ کلکتہ میں مسلم کش فسادات کی روک تھام کے لیے وہاں ٹھہر گئے اور جب ڈھاکہ آئے‘ تو حکمراں ٹولے نے ہراساں ہوکر ان کے پیچھے بھی سی آئی ڈی لگادی تھی۔
؎ منزل انھیں ملی جو شریک سفر نہ تھے۔
میں کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ اس حرماں نصیب ملک کے بدبخت عوام اور مقتدر و بااثر طبقات کی نجات کی راہ آخر کیا ہے؟ کوئی چپکے سے کہتاہے:داغ دا ر ماضی سے رجوع اور اپنے گناہوں پر صدق دل سے توبہ ہی میں نجات ہے۔ مجھے جانے کیوں یقین سا ہے کہ توبہ کی توفیق ایک دن ضرور نصیب ہوگی۔ تب چودھری رحمت علی کا جسد خاکی کیمبرج سے لا کر قائد اعظم کے پہلو میں آسودٔہ خاک کیا جائے گا۔وہ دن قوم کی احسان شناسی اور پاکستان کی ترقی و عروج کے آغاز کا پہلا دن ہوگا۔ ان شاء اللہ! چودھری مرحوم نے ۳؍فروری ۱۹۵۱ء کو وفات پائی اور انگلستان دفن ہوئے۔