تحریر : ممتاز ملک
کوئی بھی بات جب تک محبت کے دائرے میں رہے تب تک تو ٹھیک ہے لیکن جب یہ ہی محبت حرص اور ہوس کی چادر اوڑھ لے اور اس میں مقابلے بازی کا رنگ شامل ہو جائے، تو سب کچھ ملیا میٹ ہو جاتا ہے ۔ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ ہم سب سے زیادہ نقصان انہیں لوگوں سے اٹھاتے ہیں جو ہمارے سب سے ذیادہ قریب ہوتے ہیں ۔اور ہم سے سب سے ذیادہ محبت کے دعویدار ہوتے ہیں۔ لیکن کیا کریں کہ محبت کا جنازہ اسی کے دعویدار آج کل خوب دھوم سے اٹھاتے ہیں۔ فی زمانہ محبت اور دوستی کا نام لیکر پیٹھ میں خنجر گھونپنے والوں کا راج ہے اور وہی لوگ وقتی طور پر کامیاب بھی ہو جاتے ہیں لیکن پھر خیال آتا ہے کہ یہ لوگ حلق سے لقمہ کیسے نیچے اتار لیتے ہیں یا کیا یہ لوگ رات کو سو جاتے ہیں سکون سے ۔ دھوکا کھانے والا تو شاید غم کی شدت سے نیند نہیں تو بے ہوشی کی نیند میں چلا ہی جاتا ہو گا لیکن ان لوگوں کا کیا نیند آ جاتی ہے۔
انسان کی بھی عجیب خصلت ہے جب وہ کسی سے محبت کرتا ہے تو اس کی عیب بھی اسے اس کی خوبیاں لگنے لگتے ہیں۔ اس پر اس محبت کے صدقے میں سات خون بھی معاف ہوتے ہیں ۔ جبکہ اسی شخص سے جس وہ ناراض ہو جاتا ہے یا نفرت کرنے لگتا ہے تو اس کے ہر اچھے کام میں بھی اسے خوامخواہ ہی کیڑے نظر آنے لگتے ہیں ۔ وہ جان بوجھ کر اس میں عیب تلاش کرتا رہے گا ۔ موقع ڈھوندتا رہے گا کہ کیسے اسے ہر جگہ نیچا دکھایا جا سکے۔
ایک وقت ہوتا ہے جب آپ کسی کی چوٹ اور اس کے درد کو بتائے بغیر سمجھتے ہی نہیں محسوس بھی کرنے لگتے ہیں ، چاہے وہ دنیا کے کسی بھی کونے میں کیوں نہ ہو ۔ اسی کیفیت کو محبت کہاجاتا ہے اور ایک وقت وہ بھی ہوتا ہے کہ وہ آپ کی آنکھوں کے سامنے تڑپ رہا ہوتا ہے اور آپ بے حسی کی تصویر بنے دیکھتے بھی ہیں اور اسے مذید درد دیکر خوشی اور تسکین بھی محسوس کرتے ہیں ۔ شاید اسی کیفیت کو نفرت کہا جاتا ہے۔
اس وقت سمجھ میں نہیں آتا کہ کون سا جذبہ سچا تھا ؟ کس وقت وہ سچ بول رہا تھا ؟ اس وقت جب وہ اسکی محبت میں مبتلا تھا یا اس وقت جب وہ اس کی نفرت میں سرتاپا ڈوب چکا ہے ۔ لیکن شاید یہ دونوں ہی جذبے انسان سے جھوٹ بلواتے ہیں ۔ سچ وہی ہوتا ہے جو انسان کسی کو چاہے یا نہ چاہے دونوں صورتوں میں اپنے دل کی آواز پر بولے ۔ حضرت علی کرم اللہ وجہ نے فرما یا کہ” جب کسی سے دوستی کرنا چاہو تو پہلے اسے غصہ دلاؤ، اگر وہ غصّے میں بھی حق بات پر قائم رہے تو اس سے دوستی کرو ورنہ اس کی دوستی سے بچو ۔ ” اسی طرح ایک موقع پر ارشاد فرمایا کہ خوشی میں وعدہ اور غصّے میں کبھی فیصلہ مت کرو ”۔
کیونکہ انہی دونوں مواقعوں پر کئے گئے فیصلے انسان کو نہ صرف نقصان پہنچاتے ہیں بلکہ اسے اکثر بلکل تن تنہا بھی کر دیتے ہیں ۔ اور کون نہیں جانتا کہ اچھے دوست بنانے اور ڈھونڈنے میں تو عمریں بیت جاتی ہیں جبکہ انہیں گنوانے میں ایک ٹیڑھی نظر ،ایک ہتک آمیز جملہ یا ایک متکبرانہ ادا ہی کافی ہوتی ہے۔
ادائیں دکھاتے ہوئے تو شاید ہمیں اس کے اگلے اثرات کا اندازہ نہیں ہوتا لیکن جب اداؤں کا طوفان تھمتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ آبادیوں کی آبادیاں جو سالوں بلکہ صدیوں کی محنتوں اور مشقتوں کیساتھ تعمیر ہوئی تھیں وہ سب کی سب خس و خاشاک کی طرح بہہ گئیں۔ جیسے قارون مٹی میں دفن ہو گیا اپنے سارے خزانوں اور اپنی ساری اکڑی ہوئی گردن سمیت۔
تحریر : ممتاز ملک