مَیں نے خواب میں دیکھا کہ میرے ڈرائنگ روم میں میرے سامنے والے سنگل صوفے پر میرے دوست بابا ٹلّ بیٹھے ہیں وہ بِلاتمہید بولے کہ ”اثر چوہان صاحب! مَیں اِس لئے آپ کی خدمت میں حاضر ہُوا ہُوں کہ آپ کی وساطت سے چند دِل عزیز وزیراعظم میاں نواز شریف، خادمِ اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف، وفاق اور پنجاب کے وزراءکو اُن کی مشکلات سے نجات دلاﺅں“۔
مَیں بابا ٹلّ جی! آپ تو اپنے لاکھوں ساتھیوں سمیت سابق صدرِ پاکستان جنرل پرویز مشرف کی آل پاکستان مسلم لیگ میں شامل ہو چکے ہیں، پھر آپ کو جنابِ وزیراعظم اور مسلم لیگ نُون کے وزراءسے ہمدردی کیسے پیدا ہو گئی؟۔
بابا ٹلّ ”اثر چوہان صاحب! یہ درست ہے کہ میرے لڑکپن کے جھنگوی دوست علامہ طاہر اُلقادری کی طرح میرا بھی دُنیا کے 90 ملکوں میں کاروبار ہے لیکن مَیں نے اُن کی طرح کینیڈا کی شہریت حاصل نہیں کی!“۔
مَیں ۔ جی ہاں! آپ نے مجھے بتایا تھا اور مَیں نے لِکھ بھی لِیا تھا؟۔
بابا ٹلّ ”طاہر اُلقادری کبھی کبھی پاکستان آتے ہیں لیکن مَیں کبھی کبھی پاکستان سے باہر جاتا ہُوں۔ دراصل مَیں طاہر اُلقادری کی طرح زبانی کلامی پاکستان اور پاکستان کے عوام سے محبت نہیں کرتا۔ مَیں آپ کو بتانا چاہتا ہُوں کہ جنابِ وزیراعظم، خادمِ اعلیٰ پنجاب، وفاق اور پنجاب کے وُزراءکو اُن کی سب سے بڑی مشکل سے نجات دلا دوں“۔
مَیں بابا ٹلّ جی! آپ گُھما پھرا کر بات کیوں کر رہے ہیں؟۔ سیدھی بات کیوں نہیں کرتے؟۔
بابا ٹلّ ”مَیں آپ سے قطری شہزادوں کا پاکستان میں تلور کا شکار کرنے کی بات کر رہا ہوں!“۔
مَیں قطری شہزادے، پاکستان فی الحال پنجاب میں، دونوں حکومتوں کی اجازت سے تلور کا شکار کرتے ہیں۔ وزیراعظم نواز شریف، خادمِ اعلیٰ پنجاب اور شریف خاندان کے تقریباً سبھی ارکان کے قطری شہزادوں سے ذاتی تعلقات ہیں اور وہ کبھی کبھی ”مہمانانِ خصوصی“ کی حیثیت سے پاکستان تشریف لاتے ہیں۔ اگر شریف خاندان، وفاق اور پنجاب کے وُزرائ، بیورو کریسی اور اعلیٰ پولیس افسران اُن کے لئے دیدودِل فرشِ راہ کر دیتے ہیں تو کیا مضائقہ ہے؟۔ کیا آپ یہ چاہتے ہیں بابا ٹلّ جی! کہ وزیراعظم میاں نواز شریف، اُن کے خاندان کے افراد ، وفاق اور پنجاب کی حکومتیں مہمان نوازی اور سفارت کاری کے اصول اور ضابطے ترک کردیں؟۔
بابا ٹلّ ”آپ یہ بھی تو دیکھیں کہ خیبر پختونخوا میں پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت ہے اور پارٹی کے چیئرمین عمران خان کی ہدایت پر وزیراعلیٰ خٹک نے اپنے صوبے میں تلور کا شکار کرنے پر پابندی لگا دی ہے؟“۔
مَیں جی ہاں! مَیں جانتا ہُوں لیکن وزارتِ خارجہ پاکستان نے خیبرپختونخوا کی حکومت سے درخواست بھی تو کردی ہے کہ ”یہ پابندی فوراً اٹھا لی جائے کیونکہ اِس پابندی سے برادر ملک قطر اور عالمِ اسلام کے دوسرے ملکوں سے پاکستان کے تعلقات متاثر ہوسکتے ہیں!“۔ آپ تو جانتے ہی ہوں گے؟۔
بابا ٹلّ ”مَیں جانتا ہُوں لیکن اِس پابندی کے بعد کل کلاں جناب عمران خان کو اپنے خلاف کسی کیس میں صفائی کے لئے کسی عدالت میں کسی قطری شہزادے کے خط کی ضرورت پڑے گی تو وہ کیا کریں گے ؟“۔
مَیں آپ کا یہ کہنا تو درست ہے بابا ٹلّ جی! اِس مُشکل کا کیا حل ہے؟۔
بابا ٹلّ ” مَیں چاہتا ہُوں کہ حکومتِ پاکستان، پاکستان میں شکار کھیلنے کے شوقین قطری شہزادوں کو تلور کے بجائے پاکستان میں خاص طور پر پنجاب میں موذی مچھر ڈینگی کے شکار کی رغبت ڈالے۔ مجھے یاد ہے کہ 9 ستمبر 2013ءکو ڈاکٹر مجید نظامی صاحب کے بسائے ہُوئے ”ڈیرے“ (ایوانِ کارکنانِ تحریک پاکستان لاہور) پر پینے کے صاف پانی کے فلٹریشن پلانٹ کے افتتاح کے لئے خادمِ اعلیٰ پنجاب کا انتظار ہو رہا تھا اور انتظار کے دَوران آپ کے دوست ” شاعرِ سیاست“ نے کہا تھا….
تیری عِزّت کرنے آں، اسِیں جی، نُوں جی
سوہنیاں تَیتھوں ہور بھلا، اساں لینا کی
حُکم کریں تے، رَل کے ڈینگی ماراں گے
خادمِ اعلیٰ، ساڈے نال وی پانی پی؟
لیکن خادمِ اعلیٰ نہیں آئے تو (ڈاکٹر مجید نظامی صاحب اور اُس دَور کے گورنر چودھری سرور نے مِل کر اُس پلانٹ کا افتتاح کِیا تھا)۔
مَیں ”شاعرِ سیاست“ نے تو پنجاب کی بیلے میں کھڑی ایک الہڑ اور پُرعزم مٹیار کی طرف سے یہ بھی تو کہا تھا کہ ….
کِیہ ہو یا جے، مَیں کلّی آں؟
مَیں تاں ڈینگی، مارن چلّی آں!
افسوس کہ خادمِ اعلیٰ پنجاب نے ڈینگی مارنے میں پُرعزم پنجاب کی اُس مٹیار کی تلاش کے بعد اُسے لیپ ٹاپ انعام میںنہیں دِیا تھا اور ہاں بابا ٹلّ جی! مَیں آپ کی ڈینگی مار سکیم سے متفق ہُوں لیکن سوال یہ ہے کہ قطری شہزادوں کو کون آمادہ کرے گا کہ وہ پاکستان میں تلور کے بجائے ڈینگی کا شکار کِیا کریں؟۔
بابا ٹلّ ”آپ نے اچھا سوال کِیا ہے اثر چوہان صاحب! 8 سال سے وفاقی وزیر کی مراعات کے ساتھ چیئرمین کشمیر کمیٹی مولانا فضل اُلرحمان، اتنی ہی مُدّت سے چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل مولانا محمدخان شیرانی اور اُن کے مسلک کے ڈپٹی چیئرمین سینٹ مولانا عبدالغفور حیدری کو عربی زبان بولنے میں مہارت حاصل ہے۔ وہ اخراجات کی پرواہ نہ کریں۔ جتنی بار چاہیں خصوصی طیّارے پر قطر کے دورے پر تشریف لے جائیں اور ” اجتہاد“ کرکے قطری شہزادوں کو یہ بھی بتائیں کہ ”خوبصورت، خُوش آواز اور خُوشبو دار پرندے تلور کا شکار کرنے کے بجائے موذی مچھّر ڈینگی کو ہلاک کِیا کریں اور ثواب بھی کمائیں! کیا خیال ہے آپ کا اثر چوہان صاحب!“۔
مَیں، مَیں آپ کے خیال سے متفق ہُوں بابا ٹلّ جی!
لیکن اگر قطری شہزادوں کے ” کارِ خیر “ سے پاکستان میں ڈینگی قوم کا خاتمہ ہو گیا تو آپ کی آل پاکستان مسلم لیگ تو ”لِیراں لِیر “ ہو جائے گی۔ آئندہ عام انتخابات میں اگر مسلم لیگ نُون کو پھر بھاری مینڈیٹ مِل گیا تو آپ کے قائد جنرل (ر) پرویز مشرف تو آپ سے ناراض ہو جائیں گے؟۔
بابا ٹلّ ”مجھے اپنے پیارے پاکستان سے محبت ہے۔ مجھے کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی ہوگا۔ آپ ہی بتائیں کہ قطری شہزادوں کو ناراض نہ کرتے ہُوئے ہم اُنہیں ڈینگی کا شکار کرنے پر کیسے آمادہ کریں ؟“۔
مَیں، بابا ٹلّ جی! مَیں نے نومبر 2011ءمیں سب سے پہلے اپنے کالم میں لِکھا تھا کہ ”خادمِ اعلیٰ پنجاب ایک تحقیقاتی کمیٹی مقرر کریں جو یہ پتہ چلائے کہ حضرت ابراہیم ؑ کے دَور میں بابل کے بادشاہ نمرود کی موت کا باعث اُس کی ناک میں گھسنے والا موذی مچھر ”ڈینگی“ تھا یا نہیں؟“۔ مَیں نے یہ بھی تجویز کِیا تھا کہ ”خادمِ اعلیٰ تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ کی کاپی (اُس دَور کے) صدرِ پاکستان جناب آصف زرداری کو بھی بھجوائیں“۔ افسوس کہ خادمِ اعلیٰ نے میرے مفت مشورے پر عمل نہیں کِیا۔
بابا ٹلّ ”اثر چوہان صاحب! آپ کِتنے ذہین ہیں۔ اگر آپ نمرود بادشاہ کے مُشیر ہوتے تو وہ آپ کو کئی ”آف شور کمپنیاں“ بنانے کا لائسنس جاری کر دیتا ‘۔
یہ سُن کر مَیں نے بابا ٹلّ کے سر پر مارنے کے لئے ”پیپر ویٹ“ اُٹھایا ہی تھا کہ اُنہوں نے اپنے گلے میں لٹکا ہُوا ٹلّ زور زور سے بجایا۔ پھر میری آنکھ کُھل گئی