ایون فیلڈ ریفرنس میں سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف نے اسلام آباد کی احتساب عدالت میں بیان دیتے ہوئے قطری خطوط کو تسلیم کرلیا،انہوں نے کہا کہ قطری خاندان کے ساتھ کاروبارمیں خود شریک نہیں رہا۔
اسلام آباد کی احتساب عدالت کے روبرو بیان دیتے ہوئے نواز شریف نے کہا کہ قطری خطوط کی تصدیق خود حمد جاسم نے سپریم کورٹ کو خط لکھ کر بھی کی، واجد ضیاء کا تبصرہ سنی سنائی بات ہے۔
انہوں نے کہا کہ جے آئی ٹی نے قطری شہزادے کا بیان ریکارڈ نہیں کیا،رجسٹر آف ٹائٹل کی کاپیز سے استغاثہ کا میرے خلاف کیس نہیں بنتا،ایون فیلڈ پراپرٹی کی رجسٹری سے متعلق کاپیاں میں نے سپریم کورٹ میں داخل نہیں کیں۔
نواز شریف نے مزید کہا کہ کومبر سے متعلق ٹرسٹ ڈیڈ سے میرا کوئی تعلق نہیں،نیلسن اور نیسکول کی ٹرسٹ ڈیڈ کی تیاری اور جاری کرنے میں کبھی شامل نہیں رہا۔
نیب پراسیکیوٹر نے ملزم کے بیان قلمبند کیے جانے کے طریقے پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ 342 کے بیان کی منشاء یہ ہے کہ ملزم بیان قلمبند کرائے۔
نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ بیان کے دوران قانونی نکات پر وکیل سے مدد لی جاسکتی ہے، یہ کوئی طریقہ نہیں ہے کہ 6 دن کی لکھی ہوئی کہانی پڑھ کر سناتے رہیں۔
احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے نیب پراسیکیوٹر سے استفسار کیا کہ آپ کہنا کیا چاہتے ہیں وہ بتائیں؟
نیب پراسیکیوٹر نے انہیں جواب دیا کہ میرا اعتراض عدالتی ریکارڈ کا حصہ بنا لیا جائے۔
نوازشریف نے کہا کہ میں اس بیان کو اون کرتا ہوں، یہ بیان میں نے خود خواجہ صاحب کی مشاورت سے تیار کیا ہے، میں زیادہ دیر تک پڑھتا رہوں تو گلے میں مسئلہ ہوتا ہے،یہی وجہ ہے کہ میں نے خواجہ صاحب کو پڑھنے کا کہا،نیب کو اس پر اعتراض کرنا تھا تو گزشتہ روز کرلیتے۔
نیب پراسیکیوٹر کے اعتراض کے بعد نوازشریف نے خود بیان پڑھنا شروع کردیا۔
نوازشریف نے بیان خود پڑھتے ہوئے کہا کہ دبئی اسٹیل ملز کی افتتاحی تقریب میں شرکت کے علاوہ مجھے باقی معاملات کا پتہ نہیں، اختر راجہ نے نیب کی 3رکنی ٹیم کی رابرٹ ریڈلے سے ڈھائی گھنٹے ملاقات کرائی۔
انہوں نے مزید کہا کہ رابرٹ ریڈلے کی رپورٹ کی کوئی حیثیت نہیں، ان کے پاس اصل دستاویز ہی نہیں تھی، سپریم کورٹ میں پہلے جمع کرائی گئی ڈیڈ میں غلطی سے پہلا صفحہ مکس ہوگیا تھا، اختر راجہ نے اس واضح غلطی کی نشاندہی بھی نہیں کی۔