واشنگٹن (یس ڈیسک) قوالی جنوبی ایشیا میں موسیقی اور گائیکی کی نہایت مقبول شاخ ہے۔ قوالی کا منفرد انداز پچھلی چند صدیوں سے ہر طبقے خاص طور پر عام لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کرتا رہا ہے۔ اور اس کی مقبولیت جنوبی ایشیا کے کونے کونے میں پھیلی ہوئی ہے۔
قوالی کی تاریخی اہمیت بہت ہے۔ روایات کے مطابق قوالی کی شروعات حضرت امیر خسرو کے زمانے میں ہوئی۔ کہا جاتا ہے کہ بر صغیر میں اسلام کی ترویج میں بھی قوالی نے اہم کردار ادا کیا۔
بھارت کے ساتھ ساتھ پاکستان میں بھی کئی ایسے قوال پیدا ہوئے جنھوں نے عالمی شہرت حاصل کی اور قوالی کے فن کو دنیا میں متعارف کرایا۔ بالخصوص نصرت فتح علی خان، عزیز میاں اور صابری برادران کا شمار صف اول کے قوالوں میں ہوتا ہے۔
آج بھی قوالی کو اتنی ہی اہمیت حاصل ہے جتنی ما ضی میں تھی اور نوجوان گلوکار اور شائقینِ موسیقی بھی قوالی کی جانب متوجہ ہورہے ہیں۔ بعض غیر ملکی نوجوان جو نصرت فتح علی خان اور دیگر قوالوں سے بے حد متا ثر تھے، دائرۂ اسلام میں داخل ہوئے اور قوالی کو اپنی زندگی کا حصہ بنایا۔
ایسے ہی نوجوانوں پر مشتمل گروپ ‘فنا فی اللہ’ بھی ہے جس نے بہت تھوڑے عرصے میں قوالی میں ایک خاص مقام پیدا کیا ہے۔ اس گروپ کے دو ممبران، طاہر حسین فریدی اور آمنہ چشتی نے وائس آف امریکہ کے ساتھ خصوصی گفتگو کی۔
طاہر حسین فریدی کا تعلق کینیڈا سے ہے۔ انھوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ انہوں نے 15 سال کی عمر میں اسلام قبول کیا تھا۔ ان کے بقول انہیں قوالی کی گائیکی اور موسیقی سیکھتے ہوئے 20 برس ہوگئے ہیں اور وہ اب اپنے فن کا مظاہرہ کرنے مختلف ممالک جاتے رہتے ہیں۔
طاہر حسین فریدی کا مزید کہنا تھا کہ دوسرے ملکوں میں ان کی اور ان کے فن کی خاصی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔
طاہر حسین فریدی اب تک تقریباً 100 قوالیاں گاچکے ہیں جن میں سے بیشتر انہوں نے خراجِ عقیدت کے طور پر نصرت فتح علی خان کی قوالیاں گائی ہیں۔ وہ ہر سال اپنے فن کا مظاہرہ کرنے پاکستان اور بھارت بھی جاتے ہیں اور ان کا عزم ہے کہ وہ مستقبل میں موسیقی کے فن کو مزید سیکھنے کی کوشش کریں گے۔
‘فنا فی اللہ گروپ’ میں شامل آمنہ چشتی کا تعلق امریکہ کی ریاست کیلی فورنیا سے ہے۔ انہوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ انہوں نے اسلام قبول کرنے کے بعد قوالی کی طرف توجہ دی۔ وہ نصرت فتح علی خان سے بے حد متا ثر تھیں اور 2002ء میں اپنے دورۂ پاکستان کے دوران انہوں نے اس عظیم قوال سے ملاقات بھی کی تھی۔