یہ ایک جج کا تعزیتی خط ہے۔ اس خط میں جج نے ایک خودکش حملے میں مارے جانے والے وکلاء کے ورثا سے تعزیت کی تھی۔ اس تعزیتی خط کے کچھ الفاظ پر غور کریں۔ جج نے لکھا ’’قاتلوں کو اگر جانوروں سے تشبیہ دیں تو جانوروں کی تضحیک ہو گی۔
قاتلوں کے دل سنگ نہیں کیونکہ پتھروں سے بھی کبھی چشمے پھوٹتے ہیں۔ قاتلوں کے دل نفرتوں اور مایوسیوں کا مجموعہ تھے۔ انسان، انسانیت سے نفرت، جائے شفا سے نفرت، قانون کے پاسداروں سے نفرت، قوم اور ملک سے نفرت، اللہ کی مخلوق سے نفرت، دین الٰہی سے نفرت۔ قاتلوں کی مایوسی کہ وہ ہمیشہ کے لئے دوزخ میں مقیم ہوں گے۔ مایوسی کہ وہ شرم سے اپنے چہرے چھپاتے ہیں اور شہداء آج بھی زندہ ہیں، کل بھی زندہ رہیں گے۔ ان کی نشست ہمارے ساتھ ہے، اُن کا خون ہمارے قلم میں اتر آیا ہے۔ اُنہوں نے اپنے خون کے عطیے سے بھائی چارے، انسان دوستی اور قانون پر عمل کی مثال قائم کی اور اب مشکل وقت میں ان کی نظریں ہم پر ہیں کہ ہم بھی بھائی چارے، انسان دوست رویہ اور قانون کی پاسداری کر سکیں‘‘۔ یہ الفاظ سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے ہیں۔ اُنہوں نے یہ الفاظ 2016 میں لکھے جانے والے ایک خط میں تحریر کئے تھے۔ یہ خط 8 اگست 2016 کو کوئٹہ کے سول اسپتال میں خودکش حملے میں شہید ہونے والے 70سے زائد وکلاء کے لواحقین کو لکھا گیا تھا۔ یہ وکلاء بلوچستان بار ایسوسی ایشن کے صدر بلال انور کاسی پر حملے کے بعد اسپتال میں اکٹھے ہوئے تھے اور ایمرجنسی وارڈ میں ایک خودکش حملہ آور نے سب کے چیتھڑے اڑا دیئے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس رہ چکے تھے اور کئی وکلاء کو ذاتی طور پر جانتے تھے لہٰذا اُنہوں نے ایک خط کے ذریعہ شہداء کے خاندانوں سے اظہارِ تعزیت کیا۔ کچھ عرصے کے بعد سپریم کورٹ نے کوئٹہ میں پیش آنے والے اس سانحے کی انکوائری کا حکم دیا اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو انکوائری کمیشن کا سربراہ مقرر کیا۔ کمیشن نے اپنی سماعت شروع کی تو حکومت بلوچستان کے ایڈووکیٹ جنرل امان اللہ خان کنرانی نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے سانحہ کوئٹہ میں شہید ہونے والوں کے ورثا کے نام ایک خط لکھا اور ان کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا، اس لئے آپ اس کمیشن سے علیحدہ ہو جائیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پوچھا کہ کیا آپ کو میرے خط میں بیان کئے گئے الفاظ سے اختلاف ہے؟ امان اللہ کنرانی نے جواب میں کہا کہ آپ نے خط میں جو لکھا، ٹھیک لکھا لیکن آپ اس کمیشن میں نہ بیٹھیں۔ ان کا اعتراض مسترد کر دیا گیا اور پھر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنی انکوائری شروع کر دی۔ اس انکوائری میں ناصرف یہ معلوم کیا گیا کہ کوئٹہ میں وکلاء پر خودکش حملہ کس نے کیا بلکہ حملے کی ذمہ داری قبول کرنے والی ایک کالعدم تنظیم کے خلاف موثر کارروائی نہ ہونے کی وجوہات کا بھی جائزہ لیا گیا۔ کمیشن نے تمام متعلقہ اداروں کا مؤقف معلوم کرنے کے بعد اپنی رپورٹ جاری کی تو اس میں حملہ آوروں کے نام، پتے اور اس جگہ کی تصویریں بھی شامل کر دی گئیں، جہاں بیٹھ کر منصوبہ اور بم بنایا گیا۔ رپورٹ میں قرآنی آیات کا حوالہ دے کر کہا گیا کہ حملہ آوروں نے معصوم انسانوں کا خون بہا کر اسلامی تعلیمات کی خلاف ورزی کی۔
ایسا لگتا تھا کہ واقعی شہداء کا خون جج کے قلم میں اتر آیا تھا کیونکہ رپورٹ میں حکومت کی طرف سے کالعدم تنظیموں کو دی جانے والی رعایات پر تنقید کی گئی اور اس وقت کے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کی کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہار کیا گیا۔ چوہدری نثار علی خان نے کمیشن کی رپورٹ کو یکطرفہ قرار دے دیا اور اسے چیلنج کرنے کا اعلان کر دیا۔ 2016 میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے ناراض تھی اور 2019 میں تحریک انصاف کی حکومت قاضی فائز عیسیٰ سے ناراض ہے کیونکہ انہوں نے فیض آباد دھرنا کیس میں بھی ایک تاریخی فیصلہ لکھ ڈالا ہے۔ اس کیس کی سماعت جسٹس مشیر عالم اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کی لیکن فیصلہ قاضی صاحب نے لکھا اور اس فیصلے میں اُنہوں نے اُن تمام ریاستی اداروں کی نشاندہی کی جن کی غفلت کے باعث 2017 میں تحریک لبیک پاکستان نے کئی دن تک فیض آباد راولپنڈی میں دھرنا دیئے رکھا، مسلمانوں پر کفر کے فتوے لگائے اور خوب جلاؤ گھیراؤ بھی کیا۔ قاضی فائز عیسیٰ نے لکھا کہ اگر 12 مئی 2007 کو کراچی میں قتل عام کرنے والوں کو سزا ملتی تو فیض آباد دھرنا کیس میں تشدد نہ ہوتا۔ اُنہوں نے 2014 میں تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے دھرنے کا بھی ذکر کیا اور لکھا کہ میڈیا نے قانون کی خلاف ورزی اور فتوے لگانے والوں کو بھرپور کوریج کیوں دی؟ فتوے لگانے والوں کے خلاف الیکٹرونک کرائمز ایکٹ 2016 کے تحت کارروائی کیوں نہ ہوئی؟ اُنہوں نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو بھی آڑے ہاتھوں لیا، جس نے تحریک لبیک کو ایک سیاسی جماعت کے طور پر رجسٹر کرتے ہوئے قانونی تقاضوں کا خیال نہ رکھا۔
عجیب بات ہے کہ اس تحریک لبیک کی قیادت کو تحریک انصاف کی حکومت نے جیل میں ڈال رکھا ہے لیکن فیض آباد دھرنا کیس کا فیصلہ لکھنے والے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر اعتراضات اٹھائے جا رہے ہیں اور ان کے فیصلے کے خلاف ایک درخواست تیار کی جارہی ہے۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ایک فیصلہ جماعت الاحرار اور دیگر کالعدم تنظیموں کے خلاف تحریر کیا، ایک فیصلہ تحریک لبیک کے خلاف تحریر کیا۔ ستم ظریفی دیکھئے کہ دونوں فیصلوں پر ریاست کے ادارے ناراض نظر آتے ہیں کیونکہ جج اپنے آپ کو کسی ادارے کے سامنے نہیں بلکہ صرف اللہ تعالیٰ کے سامنے جوابدہ سمجھتا ہے۔ کاش کہ 2016 میں اس جج کے لکھے گئے فیصلے پر عملدرآمد کر لیا جاتا تو 12 اپریل 2019 کو ایک دفعہ پھر کوئٹہ کے علاقے ہزار گنجی میں خودکش حملے کے ذریعے 20 افراد کو شہید نہ کیا جاتا۔ وہ لوگ جو فیض آباد دھرنا کیس میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے فیصلے پر عملدرآمد کرنے کے بجائے اس فیصلے میں کچھ اداروں پر تنقید کو انا کا مسئلہ بنائے بیٹھے ہیں، وہ یاد رکھیں کہ ان کی انا پرستی کا فائدہ اس دشمن کو ہو گا جو شیعہ کو بھی مارتا ہے اور سنی کو بھی، وردی والے کو بھی مارتا ہے اور بغیر وردی والے بھی، کیونکہ دشمن کا ٹارگٹ پاکستان ہے۔ ہو سکتا ہے کہ قاضی فائز عیسیٰ کی ذات سے اور ان کے فیصلوں کے کچھ حصوں سے مجھے بھی اختلاف ہو لیکن مجھے ان کی نیت پر شک نہیں۔ جو انا پرست حضرات اس بہادر اور ایماندار جج کو متنازع بنانے کی کوشش کر رہے ہیں ان کی نیت پر کئی سوالات پیدا ہو رہے ہیں۔ میں دہشت گردی میں شہید ہونے والوں کے ورثا کی طرف سے حکومت کو اپیل کرتا ہوں کہ خدارا قاضی فائز عیسیٰ جیسے ججوں کو متنازع بنانے کے بجائے ان کے لکھے گئے فیصلوں پر عملدرآمد کریں اور ان شہداء کے ساتھ غداری نہ کریں جن کو قاضی فائز عیسیٰ نے انصاف دینے کی کوشش کی۔