تحریر : بدر سرحدی
میڈیا پرنٹ ہو یا الیکٹرانک سیکولر ازم بشدت زیر بحث رہتا ہے ،دائیں بازوں کے دانشور اور دینی سیاسی راہنماء اسے قوم کے لئے زہر قرار دیتا رہتا …… ،مگر دوسراایک حلقہ ہے جو اِسے امن کے لئے ناگزیر قرار دے کر تمام مسائل کا حل قرار دیتا ..ایک موقع پرسید حیدر فاروق مودودی فرزند بانیِ جماعت اسلامی نے نجی تی وی کو انٹر ویو میں کہا کہ سیکولر اک نظام ہے اسکا مذہب سے کوئی تعلق نہیں ،قائد نے کبھی بھی کسی موقع پر یہ نہیں کہا تھا کہ پاکستان مذہبی ریاست ہوگی ،ان کے ١١، اگست٤٧ء کے خطاب میں کوئی ابہام نہیں …….. ٫! اگست 2000،کو نوائے وقت لاہور میں محمد عطااللہ صدیقی ، ”سیکولر ازم کا سرطان ۔۔”کے عنوان میں لکھتے ”انگریزی انسائکلوپیڈیا ۔۔۔نے سیکولرازم کی وضاحت یوں کی ہے،سیکولرازم سے مراد ایک ایسی اجتمائی تحریک جسکا اصل ہدف آخروی زندگی سے لوگوں کی توجہ ہٹا کر دنیوی زندگی کی طرف مرکوز کرنا ہے سیکولرازم کا تصور مسلم قومیت اور نظریہ پاکستان سے صریحاًمتصادم ہے ۔سیکولر طبقہ بھی مسلسل قوم کو سیکولر ازم کا مفہوم سمجھانے میں مصروف ہے اُن کے خیال میں سیکولر ازم کامطلب مذہب دشمنی یا لا دینیت نہیں بلکہ اِس سے مراد ریاست کی مذہبی معاملات کے بارے میں غیر جانبداری اور بے نیازی ہے ۔ ڈان میں ارد شیر کاؤس جی اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں کہ اردو زبان میں کوئی ایسا لفظ نہیں کہ جس سے سیکولر کا ترجمہ کیا جا سکے ۔روز نامہ پاکستان کے تنویر قیصر اردو زبان کی تہی دامنی پر افسوس کرتے ہؤے لکھتے ،یہ ہماری بد قسمتی ہے کہ کہ اردو زبان میں کوئی ایسی لغت ابھی تک مرتب نہیں کی جا سکی جو سیکولرازم کی جامع اور واضع تعریف کر سکے مقتدرہ قومی اردو انگریزی لغت میں سیکولر ازم ،لا دینی جذبہ یا رجحانات ،وہ نظام جس میں مذہبی عقائدو اعمال کی نفی ہوتی ہے ،ایما ڈنکن،کے حوالے سے لکھا…اردو میں سیکولراور سیکولر ازم کا جو قریب ترین ترجمہ رائج ہے وہ لا دین اور لا دینیت ہے …لا دینیت کو سیکولرازم کے مترادف اور ہم معنی کے طور پر استعمال نہیں کیا جا سکتا ..سیکولر ازم کا درست مطلب مذہبی غیر جانبداری …،اب ہمارے اہل دانش کا کہنا کہ اردو میں سیکولر ازم کا کوئی مترادف نہیں بے حد حیران کن امر ہے یہ بات درست نہیں کہ اردو میں سیکولر کا مترادف موجود نہیں ڈاکٹر سید عبداللہ کی زیر نگرانی مرتب کی جانے والی اردو معار ف اسلامیہ جو پنجاب یونیورسٹی نے شائع کی میںسیکولرازم کاترجمہ،دنیویت کیا گیا ہے ،سیکولر دانشور عزیز صدیقی مرحوم،ایک مقالے میں لکھتے ہیں ”ملک کے آئین میںاس امر کا اعلان وواشگاف طور پر ہونا چاہئے کہ اِس کے تمام شہری ، مذہبی ،نسلی ،لسانی اور گروہی،قانون کی نظر میں سب برابر ہیں اور انہیں برابر کی سطح پر پوری آزادی کے ساتھ ہم ا ہنگی کے ماحول میں ترقی کرنے کے مواقع حاصل ہیں دوسرے الفاظ میں ریاست کو لفظی اور معنوی لحاظ سیکولر ہونا پڑے گا ،ایک بے عمل ریاست کے بعد بدترین منافرت پیدا کرنے والی ریاست وہ ہے جو اپنے عمل میں جانبدار ہے جو حکومت غیر سیکولر ہے وہ صریحاًجانبدار ہے چنانچہ ریاست کی یہ زمہدار ی ہونی چاہئے کہ وہ علم و آگہی اور معقولیت کا ایسا ماحول پیدا کرے جسمیں عصبیت پر مبنی اصول اور تشدد کے حربے بالعموم نہ پسند کئے جا نے لگیں ”..”سیکولر ازم ” عیسائیت اور اسلام کے تناظر میں (یہ مکالہ نویس اپنے فکری استدلال کی روشنی میںمسیحیت کو بگاڑ کر عیسائیت کہ رہاہے جبکہ مسیحی خود کو عیسائی یا مسیحت کو عیسائیت تسلیم نہیں کرتے یہ ایک الگ فکری بحث ہے کہ نوائے وقت اور اس کے لکھاری ہر معاملے میں ضرور مسیحت کو بھی زیر بحث لاتے ہیں کیوںکہ …)لکھتے ہیں ،اسلام اور مغرب (اب یہاں اسلام کو مغرب کے مقابل کھڑا کر دیا ہے )کے سیاسی تصورات کے درمیان اصولی،کلیدی،اور بنیادی فرق ہی یہ ہے کہ ،اسلام،چرچ(اب چرچ کو بیچ گھسیٹ لائے ہیں )اور ریاست یا زیادہ بہتر الفاظ میں دین و سیاست کا سرے سے قائل ہی نہیں ہے اسلام کے اندر پوپ اور قیصر کی تفریق نہیں ہے ،خلفاء راشدین سے لیکر عثمانی سلطنت و ما بعد اسلامی تاریخ کا کوئی بھی دور ایسا نہیں جہاں پوپ اور قیصر یا کسی مذہبی پنڈت اور خلیفہ کے درمیان کوئی تصادم یا باقائدہ محااز آرائی کی صورت نظر آتی ہو۔” …..
اِس محاز آرائی کے بارے میں مبارک حیدر ،تہذیبی نرگسیت میں لکھتے ہیں۔۔” ،مثلاًقرآن نے نظام ِمملکت پر کوئی ضابطہ نہیں دیا حضور کے وصال پر نیابت یا سربراہی کا سوال ابھرا ،ثقیفہ بنو سعدہ میں جس پراختلاف اور بحث کی صورت پیدا ہوئی یا مسلم امہ کے دو بڑے گروہوں میں جس کی بنا پر آج تک اختلافات چلے آ رہے ہیں وہ اِسی ضابطہ کی عدم موجودگی کے باعث ابھرا اِسی ضابطہ کی عدم موجودگی کے باعث خلفائے راشدین کے چاروں طریقہ ہائے تقرر الگ الگ ہوئے …”!(اِسی محاز آرائی کی وجہ سے تین خلفاء ِ راشدین رضوان علہم قتل کئے گئے اور پھر جب یہ محاز آرائی آگے بڑھی تو نواسئہ رسول ۖجگر گوشہ خاتون جنت کو بھی مع خواتین اور بچوں کے کربلا میں قتل کیا گیا…)اسلامی تہذیب و تمدن کلیسا جیسے کڑی درجہ بندی پر مشتمل ادارے کے وجود سے ناآشنا ہے جبکہ یورپ کی پوری تاریخ میں کلیسا نے اہم ترین ادارے کا کردار ادا کیا ہے ۔اصل اقتدار کا مالک کلیسا یا پوپ ہی تھا قیصر سیاسی حکمران ہونے کے باوجود عملاً پوپ کا ماتحت تھا ( اِسی لئے جب ہم یورپ کی ہزار سالہ تاریخ کو دیکھتے ہین تو یہ انتہائی سیاہ ترین دور دکھائی دیتا ہے کیوںکہ عملاًچرچ لیڈر شپ ہی سیاہ اور سفید کی مالک تھی ،عوام کی سوچ و فکر پر بدترین قدغن تھی اور اِسی وجہ سے یورپ تاریخ کے بد ترین سیاہ دور میں رہا اور جب 16،ویں صدی میں چرچ ریفام کے نام سے انقلاب برپا ہوأ اور ریاستیں چرچ کی گرفت آزاد ہو گئیںتب عوام نے سوچنا شروع کیا سوآج وہی یورپ دنیا کی تمام اقوام سے آگے نکل چکا ہے اور مسلمان صرف اسلاف کے کار ناموں پر فخر کر کے خوش ہوتے ہیں ۔ یہ واقع کوئی ماضی کی تاریخ سے نہیں یہ کل کی بات ہے،جولائی 1969 ، جب پہلا امریکی چاند کی سطح پر اترا تو پاکستان میں علماء نے آسمان سر پر اُٹھا لیا کہ یہ نہیں ہو سکتا یہ جھوٹ ،دھوکا ہے یہ چاند ہماری زمین کی طرح نہیں کہ اِس چاند کے ساتھ دو ٹکڑے ہونے کا معجزہ بیان کیا جاتا ہے ۔اور ایسا ہی کلیسیا نے بھی اُس وقت شور مچایا جب گلیلیواور برونو کی طرف سے زمین سورج کے گرد زیر گردش ہے کا نظریہ پیش کیا گیا تو چرچ نے اِن دونوں کو مذہبی عدالت مین فوری پیش کیا جہاں برونو کو سزائے موت دے دی گئی اور گلیلیو نے توبہ کر کے جان بچائی ،اور انہی غلطیوں اور کوتاہیوں اور عوام کے ساتھ کی گئی زیادتیوں کی کلیسا کے روحانی پیشوا پوپ جان پال دوئم نے March:2000،میں ایک بہت بڑی تقریب میں جسے دنیا کے کروڑوں عوام نے ٹی و ی سکرین پر بھی دیکھا ا پنے رب کے حضور گڑ گڑا کر توبہ کی اور دو ہزار برس میں ہونے والی خطاؤں کی معافی مانگی اور یہ دنیا کی تاریخ میں پہلا موقع تھا کہ کسی روحانی پیشوا نے ایسا کیا ہو ۔ محمد عطااللہ نے بات شروع کی سیکولر ازم سے ،مگر چونکہ مسیحت اور مسیحیوں کے ساتھ کوئی رنجش ہے کہ بات بات پر انہیں بھی رگڑا لگایا جائے خیر کوئی بات نہیں چونکہ خوود انہوں نے تاریخ کا مطالع نہیں کیا یہ تو نہیں ہو سکتا، البتہ یہ ہے کہ اِس سے صرف نظر کرنا ہی بہتر ہے انکا یہ کہنا کہ اسلام میں کبھی ایسا کچھ نہیں ہوأ یہ سب بدعتیں کلیسیا اور اسکی لیڈر شپ میں تھیں۔، جبکہ اسلام میں وہی دوگروہ برسر پیکار ہیں اور یہ اُسی تعلیم کا اثر ہے جِسے مذہبی ٹھکیداروں نے تروڑ مروڑ کر معصوم لوگوں کو مختلف خانوں میں تقسیم کیا ہے …محمد عطااللہ صدیقی نے سیکولر ازم سے شروع کی کہ یہ ازم اسلام کی ضد ہے یا اسلام مخالف یا اسلام دشمنی۔اور جب تک یورپی مذہبی ٹھکیدار اِسی فلسفہ پر قائم تھے کہ یہ ازم مسیحیت دشمنی یا مذہبی تعلیم کے خلاف ہے وہاں بھی یہی کچھ ہوتا رہا …لیکن جب اِس تعلیم پر عمل شروع ہوأ کہ ایک موقع پر حضور مسیح نے فرمایا ”جو قیصر کا ہے وہ قیصر کواور جو خدا کا ہے وہ خدا کو اداکرو ”اِس حکم کی روشنی میں کچھ ابہام نہیں،واضح ہے کہ مذہب اور ریاست کے حقوق الگ کر دئے گئے ہین،دونوں کی حدود مقرر کر دی نہائت سادہ الفظ میں ”جو خدا کا ہے خدا کو اور جو قیصر یعنی ریاست کا وہ اُن کو ادا کرو ”،تب وہاں قتل و غارتگری اور حکوت اور چرچ کے مابین جاری محاز آرائی رک گئی ”قائد اعظم سیکولر نہ تھے ”کے عنوان سے 24،اگست 2005 ،نوائے وقت میں،پروفیسر ڈاکٹرایم اے ،صوفی لکھتے ہیں ..
”قائدنے جوانی کے عالم میں مسلمانوں کی بہبود،ترقی اور معاشرے میں جائز مقام کیلئے وابستگی رکھی ”وقف ویلیڈنگ بل”کو تجویز کیایہ بل مسلمانوں کے لئے اہم ہے اِسے سلیکٹ کمیٹی میں جانا چاہیئے اِس بل میں مسلمانوں کے حقوق پراپرٹی کے معاملات حکومتِ برطانیہ کو وقف بل کے مطابق سمجھایا ۔ایک شخص 1913،جوانی کے عالم میں مسلمانوں کے مفاد کے لئے سنجیدہ اور با وقار قسم کی کوشش کرتا ہے ۔تو وہ سیکولر ذہن رکھتا ہے کیسی مضحکہ خیز ….”جناب صوفی صاحب کا پورا مضمون 1913،میں رہا انہوں نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ قائد اعظم بچپن ہی سے کٹر قسم کے مسلمان تھے جبکہ ابھی تک وہ کانگرس کے ممبر تھے اور اِسی سال مسلم لیگ کی ایک میٹنگ جو لندن میں سر آغا خان سوئم کی صدارت میں منعقد ہوئی میں شریک ہوئے…جبکہ 1919، میں یہی نوجوان جب اسمبلی میں ہندو اقلیت کے خلاف شادی بیاہ کے حوالے سے بل پیش ہوأ،تب محمد علی جناح نے کہا کہ میں ا،س لئے خاموش رہوں کے یہ مسلہ ہندو اقلیت کا ہے ،نہیں !تب انہوں اِس بل کی شدید لفظوں میں مخالفت کی …..تب وہ صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ وہ اعلےٰ ضرف انسان بھی تھے اور انہیں اقلیتوں کے مسائل کا بخوبی علم تھا کہ تب وہ اور اسکی قوم اِسی ہی مشکلات میں تھی…!ڈاکٹر صفدر محمود جیسی نابغہ روزگار شخصیت نوائے وقت ،14،اگست2006،میں ”پاکستان کی نظریاتی اساس …قائد اعظم کی نظر میں ّ”،،قائد کا فکر ی پس منظر کیا تھا ،وہ خلوص نیت سے کیا محسوس کرتے تھے اور انہوں پاکستان کا تصور کہاں سے لیا اِس موضوع پر اُن کی متعدد تقریریں ملتی ہیں ،لیکن میں آج اُن کی علی گڑھ والی 8،مارچ،1944،کی تقریر کے چند فقرے پیش کر رہا ہوں جن سے آپ کو ان سوالات کا جواب ملے گا نظریاتی حوالے سے یہ اہم تقریر ہے قائد اعظم کی مثبت ذہنی روش پر روشنی ڈالتی ہے اِسے سمجھنااِس لئے ضروری ہے کہ بہت سے پاکستانی دانشور ، دو قومی نظریہ کے (دو قومی نظریہ محمد علی جناح کی نہیں انگریز کی ضرورت تھی ایک الگ بحث ہے )منکر ہیں وہ نظریاتی حوالے سے قائد اعظمکو سیکولر سمجھتے ہیں جبکہ ہندستانی مصنفین پاکستان کو منفی سیاست کا شاخسانہ کہتے ہیں بہت سی تقریروں کی مانند یہ تقریر ثابت کرتی ہے کہ قائد ایک نظریاتی لیڈر تھے ….انہوں نے کہا … Pakstan was not product of the conduct or mis conduct of Hindo,s It was alway,sbeen there ,only they were now conscious it..Hindu,s and Muslim though living in the same town and village,s had never blended in to one nation they were always tow separate entities .Tracing the history of the beginning of Islam in india-,Quaid-e- Azam proved that pakistan started the momenT the first non-muslam was converted to Islam in India long before the muslam established their rule .As soon as Hindu emraced UIslam he was outcost not only religiously but also socially,culturally and economically.
As for the muslim it was a duty imposed on him by islam not to merge his indentity and
, .individuality in any alien society .Throughout the ages Hndus had remained Hindus and Muslim
had remained Muslim any they had not merged their entities that was the basis for Pakistan. In a gathering of high European Americn officials he was asked as to who was the authorof Pakistan Mr Jinnah, reply was every muslman (speech at ali garh ) The Dawn March 10 1944
جو ڈاکٹر صاحب نے ترجمہ کیا ہے انہی کے الفاظ میں ..!پاکستان ہندوؤں کے مناسب یا غیر مناسب غیر روئیے کی پیداوار نہیں ،یہ ہمیشہ موجود رہا ہے صرف انہیں اس کا شعور نہیں تھا ،ہندئو اور مسلمان اکٹھے رہنے کے باوجود ایک قوم نہیں بنے (لیکن ہزار برس تک اکٹھے رہنے کے باوجود ،اُن میں ایک دوسرے کے خلاف وہ نفرت نہیں تھی جو اُن میں ١٩٠٩ ،مارلے منٹو پیپر کی اصلاحات جدا گانہ انتخاب کی صورت میں پیدا کر دی گئی جو آج بلکہ ہمیشہ رہے گی …!)اِن کا تشخص ہمیشہ جدا جدا رہا پاکستان اُسی روز بن گیا تھا جب پہلا غیر مسلمان اسلامکے دائرے میں شامل ہوأجونہی ایک ہندو مسلمان ہوتا ہے ،وہ مذہبی ،سماجی،ثقافتی اور معاشی طور اپنے ماضی سے کٹ جاتا ہے مسلمان اپنی انفرادیت اور تشخص کسی بھی معاشرے میں ضم نہیں کر سکتا یہی وجہ ہے کہ صدیوں تک اکٹھے رہنے کے باوجود ہندو،ہندو اور مسلمان مسلمان ہیں یہی پاکستان کی بنیاد ہے یورپین اور امریکی باشندوں کے اس اجتماع میں اُن سے پوچھا گیا پاکستان کا خالق کون تھا ،تو جناح کا جواب تھا ہر مسلمان …علیگڑھ میں تقریر ،ڈان 1944 March, 10 ہر ایک نے یہی کہا کہ قائد کی سینکڑوں تقریریں،سوچنے اور سمجھنے کی بات تو یہ ہے (میں ڈاکٹر صاحب سے بآدب معذرت چاہتا ہوں کہ میں جو اُن کی شخصیت کے مقابل صفر بھی نہیں کے صفر کی بھی اپنی قیمت ہوتی ہے … )کہ تقریر محض سیاسی تقریریں ہی ہوتی ہیں، جو پالیسی بیان نہیں ہوتا اور وہ بھی مجمع کی ساخت اورہجوم کو دیکھتے ہوئیے فی البدہیہ کی جاتی ہے،اُس کا وہی ریکارڈ ہوتا جو اخبارکے نامہ نگار نے چند جملے لکھے اور دفتر میں بیٹھ کر تقریر بنا کر صبح شائع کر دی اور یہاں بھی ڈان کے نمائدے نے یہی کیا ، جبکہ ابھی قراداد لاہور کو روزنامہ ملاپ نے طنزناً قرارداد پاکستان کا نام دیایہ قرار دادحکومت ہند کو ایک ڈیمانڈ کی صورت میں تھی….! آج بھی سیاسی تقریریں ہوتی ہیں اور اگلے دن تردید ہوتی ہے کہ میں نے یہ نہیں کہا ،حالانکہ آج تو میڈیا کا دور ہے ایک ایک لفظ ریکارڈ کر لیا جاتا ہے مگر اُس زمانے میں تو ایسی کوئی سہولت نہ تھی ،اِ س تقریر کا متن بتا رہا ہے کہ یہ کوئی دوسرا شخص ہے جو یہ کہ رہا ہے کہ” قائدِاعظم نے ثابت کیا ” اب قائد تقریر کر رہے ہیں اور اپنے آپ کو کہ رہے ہیں کہ قائد اعظم نے ثابت کیا کیسی مضحکہ خیز بات ، (جبکہ ابھی وہ مسٹر جناح تھے اور تقریر قائد آعظم فرما رہے ہیں ) اور ڈاکٹر صاحب نے اِس نقطہ پر غور ہی نہیں کیا ،اِسی تقریر میں اُن سے سوال کیا گیا کہ پاکستان کا خالق کون تھایہاں ماضی کا صیغہ استعما ل ہو أہے جبکہ پاکستان تین برس بعد …!!.اب آپ کی جو مرضی ہے تاویل کر لیں کون کہے گا رانی……!!.اب اِن تقریروں کو جو مختلف اوقات میں ،مختلف فورمز اورجلسوں میں کیں محض سیاسی بیانات تو کہے جا سکتے مگر اُنہیں ہرگز قومی پالیسی بیان نہیں کہا جا سکتا قائداعظم کاصرف ایک ہی تحریری خطاب تھا جو ایک دستاویز ہے کہ وہ پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی میں کیا جب زمہداری کے تمام عہدے اُن ک ذات میں مرتکز تھے ،باقی سیاسی بیانات ہی کو تاریخ کہا جائے تو یہ تاریخ پر ظلم ہوگا ….!! یہ نہیں دیکھنا کہ کون لکھ رہا یہ دیکھا جائے کیا لکھا ہے ز مینی حقائق کیا کہتے ہیں ،یہ وہ زمانہ نہیں جب ،سینہ بہ سینہ ،قصے کہانیوں سے تاریخ مرتب کی جاتی تھی آج تیز ترین میڈیا کا دور ہے سرکاری روز نامچوں اور سرکار کی سرکار کے مابین ہونے والی خط و کتابت سے تاریخ مرتب کی جائے تو وہی حقائق ہونگے جیسا کے جناب خان عبدولی خان نے لندن میں انڈیا آفس لائبریری سے ،وائسرائے ہند اور وزیر ہند کے مابین ہونے والی خط وکتابت جو 1922،سے 1942،بیس برسوں پر پھیلی ہوئی سیاسی صورت حال اور خصوصاًبرصغیر کے سیاسی عمائدین کی پیش رفت اور اُن کے ذاتی سیاسی کردار اور بدلتے وقت کے حوالے اور انگریز کی آئندہ حکمت عملی کے بارے وہ سچ بھی لکھا ہے جو کبھی بھی نہیں لکھنا چاہئیے تھا وہ سب کچھ جو غیر جانبدار تاریخی حقائق کے حوالے حقائق کی روشنی میں ،تاریخ نویسوں کے لئے قلمبند کر کے گویا ملک کی تاریخ پر احسان کیا ہے ،پاکستان کے تاریخ نویسوں سے،مبالغہ سے گریز کریں اور آنے والی نسلوں کے لئے حقائق سپردِ قلم کریں کہ یہ اُن پر تاریخ کا قرض ہے
اب آئیںدیکھتے ہیں جناب ڈاکٹر وحید قریشی اروز نامہ پاکستان 15،جولائی 1999،میں آپنے مقالہ ”قائد اعظم کیسا پاکستان چاہتے تھے ”میںانہوں نے بھی قائد کے مختلف اخباری بیانات کے حوالوں سے لکھا ہے 13,،جولائی 1947، کو ”پاکستان اور اقلیتوں کا تحفظ ”کے موضوع پر سوال و جوابکے ضمن مین اایک اخبار نویس نے قائد اعظم سے سوال کیا ؛پاکستان لا دینی ریاست ہوگی یا دینی ریاست ؟اِس کے جواب میں قائید اعظم نے فرمایا ؛آپ مجھ سے ایک احمقانہ سوال کر رہے ہیں مجھے نہیں معلوم کے دینی ریاست کے کیا معنی ہوتے ہیں ،؟اس پر اخبار نویس نے کہا دینی ریاست ایک ایسی ریاست ہوتی ہے جس میں کسی مخصوص مذہب کے لوگ مثلاًمسلمان پورے شہری ہو سکتے ہیں اور غیرمسلم پورے شہری نہیں ہو سکتے ،اِس پر قائدنے صرف اتنا ہی کہا کہ آپ نے اسلام کا مطالع نہیں کیا…شائد وہ اُسکا درست ہاں یا نہ میں جواب دینا نہیں چاہتے تھے ….. !! فروری،1948میں قائد اعظم نے فرمایا”… مجلس دستور ساز پاکستان کو ابھی پاکستان کے لئے دستور مرتب کرنا ہے ۔مجھے اس بات کا تو علم نہیں کہ دستور کی حتمی شکل کیا ہوگی لیکن مجھے اس امر کا یقین ہے ۔کہ یہ جمہوری نوعیت کا ہوگاجس میں اسلام کے لازمی اصول شامل ہوںگے۔آج بھی ان کا اطلاق عملی زندگی میں ویسا ہی ہو سکتا ہے جیسا تیرہ سو سال قبل ہو سکتا تھا اسلام نے ہر شخص کے ساتھ عدل اور انصاف کی تعلیم دی ہے ہم اں شاندار روایات کے وارث ہیں اورپاکستان کے آئندہ دستور کے مرتبین کی حثیت سے ہم اپنی زمہ داریوںسے باخبر ہیں ۔بہر نوع پاکستان ایک مذہبی مملکت نہیں ہو گی۔(کتنے تعجب کی بات ہے کہ ابھی تک دستور کا کوئی خاکہ بھی نہیں اِس کا مطاب ہے کہ مسلم لیگ نے گزشتہ سات برسوں میں آئندہ پاکستان کے منظر پر آنے سے پہلے کوئی ہوم ورک ہی نہی کیا تھا اور اب قائد فرما رہے ہیں کہ مجھے اِس بات کا تو علم نہیں کہ دستور کی حتمی شکل کیا ہوگی ۔یعنی پاکستان قائم ہوؤے چھ ماہ ہو گئے ہیں ،)
نوائے نوقت ،21,،ستمبر 2005- قائد اعظم کا نظریہ حکومت اسلامی یا سیکولر….؟کے عنوان سے شاہ بلیغ الدین لکھتے ہیں ”1943،میں بمقام کراچی ،جب نواب بہادر یار جنگ نے جلسے کی صدارتی تقریر میں قائد کو مخاطب کرکے فرمایا کہ….”قائد اعظم !یہ بات آپ واضع طور پر سُن لیں کہ اگر ،پاکستان کا دستور قرآن و سنت کے منبع فیض سے سیراب نہ ہوگا تو اِس کی حیثیت مسلمانوں کے لئے پرکاہ کے برابر بھی نہ ہوگی ”اِس پر قائد اعظم نے زور سے ڈسک بجائے ،اب محض ڈسک بجانے کو ہی ……!!! اب وہی بات کے اِنہوں نے تقریروں سے من پسند معنی اخذ کر کے قائد اعظم کو موجودہ دور کی جدید اسلامی ریاست کا با نی نہیں بلکہ ماضی کی کٹر تھیوکریٹک ریاست کا ایک خالص مذہبی ریاست کا بانی بنا کر پیش کر رہے ہین ۔11،اگست کے خطاب سے بھی من پسند معنی لئے ہیں ،قرارداد پاکستان میں جو اظہار کیا گیا ،کہ کوئی دستوری حل مسلمانوں کے لئے قابل قبول نہ ہوگا یہ مسلم لیگ کی طرف سے حکومت برطانیہ کو پیش کئے گئے مطالبات تھے جن کی روشنی میں پاکستان وجود میں آیا ،اب یہاں وہ لکھتے ہیں کے بتائیں قائدکا نظریہ حکومت میں سیکولر ازم کہاں سے آگیا ..؟ تاہم یہ بات تسلیم کی کہ انگریزی عملداری میںٍ ٍیہاں جمہوری نظام آیا اِس کے ساتھ تاریخ میں پہلی مرتبہ ہندو مسلم تنازعات کی ابتدا ہوئی ۔موتی لعل نہرو کی رپورٹ مسترد کر دی گئی کہ کانگرس جمہوریت کے نام پر رام راج کے منصوبے بنا رہی ہے کیونکہ اِس رپورت سے پہلے 1923،میں کناڈا کے اجلاس میں کانگرس کے صدارتی خطبے میں مولانا محمد علی جوہر نے بھی یہ اشارہ کر دیا تھا کہ ہندستان میں مذہبی بنیادوں پر ایک وفاق قائم کر دیا جائے اِس وقت قائداعظم کو ہندو مسلم اتحاد کے سفیر ہونے کا اعزاز حاصل تھا یہاں لکتھے ہیں محمد علی جوہر کانگرس کے اجلاس میں صدارتی خطاب کر رہے تھے اور ساتھ ہی یہ بھی کہہ رہے ہیں ہندو رام راج کے منصوبے بنا رہے تھے (کاش شاہ بلیغ الدین اُس وقت مولانا محمد جوہر کی جگہ ہوتے اور اُسی وقت ہندوؤں کے اِس منصوبے کا بھانڈا پھوڑ دیتے …دیکھئے شاہ صاحب ہندُستان میں تو گزشتہ 67، برسوں میں رام راج تو نہ بنایا گیا کہ وہاں تو کئی مسلم صدور رہ چکے ہیں ایک اہم وزارت پر مسیحی رہا ہے اور یہاں رام راج کا مترادف موجود ہے اور کلیدی عہدے اقلیتوں کے لئے ممنوع ہیں اس لئے کہ آپ کو تو خود پر بھی بھروسہ نہیں بھلا اقلیتوں پر کیوں بھروسہ کریں گے اسی لئے تو اسلامی جمہویہ کے آئین نے انہیں دوسرے درجے کا شہری بنا دیا ہے۔ٍٍ
ڈاکٹر وحید قریشی مزید لکھتے ہیں8,، نومبر 1945،کو پاکستان کے مختلف پہلوؤں کے بارے میں وضاحتیں پیش کرتے ہوؤے ایسوسی ایڈ پریس کے نمائندے سے قائد اعظمٍ نے فرمایا ”سیاسی اعتبارسے پاکستان ایک جمہوری ملک ہوگا ،ذاتی طور پر وہ توقع کرتے ہیں کہ اِس ملک کی بڑی بڑی صنعتوں اور عوامی ضرورت سے متعلق خدمات کو اشتراکی میلان سے ہم آہنگ کر دیا جائے …اسی بات کو پھر دہرایا کہ میں ذاتی طور پر اِس بات کا قائل ہوں کہ ا ج کل کے جدید زمانے میں اہم اور کلیدی صنعتیں ریاست کے کنٹرول اور زیر انتظام ٍہونی چاہئیں ،کیا یہ اشتراکیت کی تھیوری نہیںکیا یہی نعرہ زلفقار علی بھٹو کانہیں تھا جس کی پاکستان نے اُسے بد ترین سزا دی،٢٧دسمبر ٢٠٠٩ نوائے وقت میگزین میں محمد شریف بقا”کیا قائداعظم سیکولر ریاست کے حامی تھے ؟کے عنوان سے ایک مضمون سپرد قلم کیا یہاں محض چند سطور ہی لکھوں گا کیوںکہ نوائے وقت اور اِس کے لکھنے والوں کے نزدیک سیکولر ازم کا نام بھی لینا بہت بڑا گناہ ہے ۔لکھتے ہیں ”..دشمنان ، اسلام اور غیر اسلامی نظریہ حیات کے علمبردار متفقہ امور اور تاریخی حقائق کو آئے دن مسخ کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں تاکہ وہ اِس طرح عوام الناس کے ذہنوں میں انتشار پیدا کر کے اُنہیں اسلامی نظام زندگی اور پاکستان کے اساسی تصورات سے دور کر دیں ۔وہ مسلمہ قومی نظریات کی بھی غلط تاویل کرکے مسلم عوام کے دلوں میں شکوک و شبہات ابھار کر اپنے مکروہ عزائم کی تکمیل کے درپے رہتے ہیں (پاکستان کے لئے نیک عزائم صرف ان لوگوں کے ہیں جو نوائے وقت میں آزادی سے اپنی مرضی کی تاویلات کرتے اورتاریخ کومسخ…چلئے اللہ اِن پر اپنا ابرِکرم سایہ فگن رکھے ..،اور باقی ڈاکٹر مبارک علی،مشہور مفکر پروفیسر حمزہ علوی،جناب ڈاکٹر استاد پروفیسر مہدی حسن،جناب تنویر قیصر ،جناب افضال ریحان اور بیشمار دانشور حضرات ہی گویا یہ سب کے سب مکروہ عزائم رکھتے ہیں ان سب ،یا ایک راقم الحروف بھی ہے جس کے سب سے زیادہ مکروہ عزائم ہیں ، )پاکستان کا مطلب کیا ؟لا الہ الااللہ۔آج بھی ان مسلمانوں کی غالب اکثریت زندہ ہے جنہوں نے خود یہ نعرہ لگایا تھا …خیر کسی ایک فرد کا بھی نام نہی دیا جس نے خودیہ نعرہ لگایا تھا اور نہ یہ بتانے کی زحمت کی کہ کس نے سب سے پہلے یہ نعرہ لگایا اور کون اس نعرہ کا خالق تھا ،کیونکہ اگر اُس وقت ایسے نعرے لگائے جاتے تو توشائد وہ چار اقلیتی ارکان اسمبلی جن کے ووٹ حتمی اور …وہ اپنے ووٹ کاسٹ کرنے سے پہلے سوچتے ،خصوصاً مسیحیوں کو یہ فخر ہے کہ اُن کے ووٹوں سے پاکستان بنا یہ نعرہ 1952،لگایا گیا اگر یہ پہلے لگا ہوتا تو پھر 11اگست 1947،کو دستور ساز اسمبلی سے اپنے پہلے تحریری خطاب سے پہلے خوشی سے ایک نہیں کئی مربتہ لگاتے …… مسیحی تحقیقی مرکز کا مجلہ ”المشیر”جلد 48،شمارہ3،2006,،میں ڈاکٹر محسن نقوی کا مضمون ”ایک مذہبی فرقے کی سیاسی غلطی”میں لکھتے ہیں قائد اعظم کے 11،اگست کے خطاب کے اقتباس کے بعد ،قائد اعظم کے جن الفاظ کا حوالہ دیا گیا۔ہمارے نظریے کے مظابق موجودہ حالات سے نکلنے کا واحدحل یہی ہے اور اس کے ذریعہ مملکت خدادادپاکستان کے موجودہ مسائل کو حل کیا جا سکتا ہے تاہم وہ عوامل بھی پیش نظر رہنے چاہئیں جو اس ”مثبت تاریخی عمل”میں سدِراہ ہونگے اہم ترین وہی طبقہ ہے جسے ہم اسلام پسند کے مبارک نام سے یاد کرتے ہیں یہی طبقہ ہے جس نے پاکستان بننے کی مخالفت کی تھی اور بانی پاکستان کے خلاف زبان طعن دراز کی تھی …سب سے پہلے تو یہ سمجھ لیجئے کہ پاکستان کے قیام کے سب سے بڑے مخالف یہ علماء کرام ہی تھے جو آج نظریہ پاکستا ن اور پاکستان کے ٹھیکیدار بنے ہو ئے ہیں۔۔۔ ڈاکتراشتیاق حُسین قریشی لکھتے ہیں ”یہاں اِس کا بھی اضافہ کر دیا جائے کہ مسلمانوں میں چند راہنما اور کچھ چھوٹے موٹے گروہ جو تقسم کے حق میں نہین تھے اور جمعیت العلماء ہندسب سے زیادہ دلچسپ تھی وہ سمجھتے تھے کے صحیح راستہ صرف وہی ہے جو شیخ الہند محمود الحسن نے ان کے لئے مقرر کیا جب وہ تحریک خلافت میں شریک ہو ئے ا ور انہوں نے ہندوؤں سے اتحاد پر اصرار کیا .(.بر اعظم پاک و ہندکی ملت اسلامیہ صفحہ٣٩٤..)….! ایک جگہ انہوں نے مشہور مفکر اوردانشورمرحوم پروفیسرحمزہ علوی کا بیان رقم کیا ہے”اِس دلیل کے ساتھ کے پاکستان ایک مذہبی نظریہ کی بنیاد پر قائم کیا گیا ،سب سے بڑی ستم ظریفی تو یہ ہے کہ برِصغیرمیں ہر وہ گروہ یا تنظیم جو مذہبی تشخص کی حامل تھی ،جناح اور مسلم لیگ سیء حد درجہ عداوت رکھتی تھی اور تحریک پاکستان کی سخت مخالف تھی ۔اِن مذہبی تنظیموں میں ”جمعیت علماہند”مسلم لیگ کی لیڈرشپ نے اِن علماکی حمائیت حاصل کرنے کی ہر ممکن کوشش کی ….اسلامی بنیاد پرست تنظیم جماعت اسلامی نے اپنے قائد مولانا مودودی کی راہنمائی میں تحریک پاکستان کی بھرپور مخالفت کی …!(ُپاکستان؛ریاست اور اس کا بحران صفحہ٨٣۔١٨٢فکشن ہاؤس لاہور)ڈاکٹر مبارک علی لکھتے ہیں”پاکستان بننے کے بعد ان مذہبی تحریکوں کی صورت حال بدل گئی ،کیونکہ مذہبی جماعتوں اور علماء نے تحریک پاکستان کی مخالفت کی تھی،اس لئے اِن کے لئے ابتداء میں اس نئے ملک میں اپنے حق میں فضا ہموارکرنا مشکل تھا۔
”(تاریخ اور مذہبی تحریکیں صفحہ٣٣۔فکشن ہاؤس لاہور)اگر جماعت اسلامی کے لٹرریچرسے پاکستان مخالف اقتباسا ت نقل کئے جائیںتو ایک ضخیم کتاب مرتب ہو سکتی ہے ،لہذاہم خوف طوالت سے اسے نظر اندازکرتے ہوئے قارئین کو مولانا مودودی مرحوم کی کتاب ”تحریک آزادی ہنداور مسلمان”(دو جلدیں)کے مطالعہ کا مشورہ دیں گے…!”اُن دانشوروں سے جو سیکولر نظریات سے الرجک ہیں ،اور قائد اعظم کو مولانا کے روپ میں دیکھنے کے متمنی ہیں اور ملک میں تھیوکریٹک نظام چاہتے ہیں ،وہ تمام کتب جو قائد کے حقیقی نظریات و افکارسے مزین ہیں کو ممنوع قرار دلوا کر بین کرا دی جائیں۔اور پھر خان عبدالولی خان مرحوم کی کتاب حقائق حقائق ہوتے ہیں کو بھی ممنوع قرار دیا جائے ورنہ تو مجھ جیسے لوگ اِن کتب کے مطالعہ سے گمراہ ہوتے رہیں گے ، یا پھر وہ اہل فکر جنہوں نے فقط تصویر کا ایک رخ ہی دیکھا ہے وہ بھی اِن کتب کا مطالعہ کریں اور اگر حالات اجازت دیتے ہیں تو لندن میں انڈیا آفس لائبریری میں اُن دستاویز کا مطالعہ کریں جووائسرائے ہند اور وزیر ہند کے درمیان کم و بیش نصف صدی تک،ہفتہ واررپورٹ کی صورت میں خطوط کا تبادلہ ہوتا رہا نیز گورنر سرحد کا روزنامچہ دیکھنے اور پڑھنے کی چیز ہے ۔محض اخباری رپورٹوں سے تاریخ مرتب نہیں کی جا سکتی ،ہا ں اِن سے تاریخ مسخ ضرور ہو سکتی ہے،جیسا کہ اب کی جا رہی ہے محض اخباری بیانات کی روشنی میں تاریخ کو مسخ کیا جا رہا ہے قائد اعظم کے 11،اگست کے تاریخی تحریری خطاب کو تروڑ مروڑ کر مطلب کے معنی لئے جا رہے ہیں ورنہ تو اُس خطاب میںکوئی ابہام نہیں..! فی ا لبدیہ تقریر کا ریکارڈ نہیں ہوتا وہ فضاء میںتحلیل ہوتی رہتی ہے،اب ایک مقرر ایک گھنٹے تک بولتا،کو ن ہوگا جو مکمل تقریر کو اپنے ذہن میں محفوظ کرلے۔آج کے دورمیں تو ریکارڈ کی سہولت ہے مگر …ااخبار کا نمائدہ بھی مرضی کے الفاظ نوٹ کرلیتا ہے اور بس،اور اگلے دن لمبی چوڑی تقریر اخبار کی زینت بنی ہوتی ہے اس طرح تقریر مین زیادہ حصہ رپو ٹر کا ہو تا ہے جیسا کہ اوپر ڈاکٹر صفدر محمود نے کے مضمون جس میں انہوں نے بڑے فخر سے لکھا کہ یہ قائد کی تقریرکا حصہ ہے اول تو اُ س وقت وہ محمد علی جناح تھے اور لکھنے والا کوئی اور لکھتا ہے Qaud-e-Azam proved that) ،) اب اگر ڈکٹر صفدر محمود جیسی شخصیت ڈان کے رپورٹر کے الفاظ کو ”Qaud-e-proved that” قائد اعظم کی تقریر تسلیم کرے تو باقی مجھ جیسے لوگ جو کچھ بھی لکھ کر قائد اعظم سے منصوب کر د یںکیا فرق پڑتا ہے۔
اب ہمارے دانشوروں نے دو قومی نظریہ کی گردان پر کتابیں لکھ دی ہیں کہ یہ نظریہ قائد کی تخلیق تھی جبکہ سچ یہ ہے کہ یہ دوقومی نظریہ مغرب کی ضرورت تھا جسے انگریزوں نے بتدریج اپنے مہر بان دوستوں کے زریعہ رواج دیااُنہیں یہ علم تھا انگریز یہاں دو سو برس تک رہا اُس نے یہاں بسنے والی اقوام کے مزاج اور نفسیات کا گہرا مطالع کیا ،یہ مٹھی بھر انگریز سات سمندر پار سے آ کر ،اتنے بڑے ملک کو فتح نہیں کر سکتے تھے،یہاں ،چالاکی اور انتہائی مکاری اور ریاکار ی سے وطن فروشوں کو استعمال کر کے ،جاںبازوں کو شکست دیتا ہوأبرصغیر پر سیاہ بادل کی طرح چھا گیا اور پھر جب تحریک آزادی نے زور پکڑا اور انگریزوں پر یہ واضح ہو گیا کہ اب برصغیر کو آزادی دئے بغیر کوئی راستہ نہں ،یہ اوجھل ،سچائی ہے کہ مغرب بر صغیر میں بسنے والی چھوٹی موٹی پارٹیوںاور تنظیموں اور دو بڑی قوموں میں پائی جانے والی یکجہتی اور ہم سب ہندی کے نظریہ سے خائف تھے اور سمجھتے تھے کہ اگر ان دونو ں قوموں میں شدید نفرت پیدا کرکے ایک دوسرے سے الگ نہ کیاتو یورپ کو ڈکار لئے بغیر نگل جائینگے ،اِس لئے یہاں سے نکلنے سے اور برصغیر کو آزادی دینے سے قبل ہی اِن میں شدید نفرت کا ایسا بیج بویا جائے کہ یہ کبھی کسی ایک نقطہ پر متحد نہ ہوں ،اور ملک چھوڑنے سے پہلے یہی ہماری کامیابی ہوگی کہ یہ دونو قومیں آپس میں لڑتی رہیں ،شاعر مشرق علامہ سر محمد قبال کا یہ شعر ،،مذہب نہیں سکھاتا کسی سے بیر رکھنا ۔۔ہندی ہیں ہم وطن ہندستان ہمارا ،کیا شاعر مشرق اس تقسیم اور دونو طرف کے لاکھوں جانو کے قتل کے حامی تھے سیکولر ازم تو فقظ ایک نظام ہے اِس کا مذہب سے کوئی تعلق نہیںاور اِس کے حقیقی معنی غیر جانبداری….!اللہ تبارک تعالےٰ ،غیر جانبدار ہے اُس کا سورج ،ہوا پانی بھی غیر جانبدار ہیں ،اور یہ سب اپنی غیر جانبداری کو قائم رکھے ہوئے ،سیکولر ہیں تاریخی حالات و واقعات سے یہی مترشح ہے کہ قائد کی رحلت کے بعد اُن قوتوں نے جنہوں نے پاکستان اور قائد اعظم کی شدید مخالفت کی تھی ،اِس یتیم ریاست کو یرغمال کر لیااُسی وقت سے ریاست بچاری ان کے پنجہء استبداد میں کراہ رہی ہے ایک اور محمد علی جناح کی ضرورت جو اِن یرغمالیوں سے ریاست کو آزاد کرائے اس ساری بحث سے اِس نتیجہ پر پہنچنا کہ….بابائے قوم کا نظریہ ریاست کیا تھا ؟ اگر پھر بھی کوئی مرضی کے معنی دے تو پھر خدا پاکستان پر رحم کرے۔ براہِ کرم … تاریخ کو مسخ کر کے اپنے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش سے خطرناک نتائج نکلتے ہیں بلکہ نکل چکے اور نکلیں گے،تاریخ کواپنے معنی دیں لیں مگر اُس کے ساتھ …. ۔! فی البدیہہ تقریر اور تحریری خطاب کو پیش نظر رکھ کر ہی فیصلہ کیا جائے کہ بانی پاکستان کا نظریہ ریاست کیا تھا …؟
تحریر : بدر سرحدی