تحریر : سمن شاہ
گزشتہ روز فرانس کے شہر کرائی میں پاکستان عوامی تحریک کے شاندار جلسے میں پاکستان عوامی تحریک وومن ونگ فرانس کی صدر محترمہ سمن شاہ نے قائد اعظم کا پاکستان اور موجودہ نظام کے موضوع پر تقریر خلیل جبران کہتے ہیں اگر کوئی غلام سو رہا ہو تو اُ سے مت جگاؤ ہو سکتا ہے وہ غلام آزادی کا خواب دیکھ رہا ہو لیکن میں کہتی ہوں کہ اگر کوئی غلام سو رہا ہو تو اسے جگاؤ اور بتاؤ کہ آزادی کی نعمت کیا ہوتی ہے قائد اعظم نے پاکستان کو قومی ریاست کے طور پر پیش کیا تھا گیارہ اگست قومی اسمبلی میں انہوں نے اپنی تقریر میں کہا تھا مذہب اور ریاست الگ الگ ہیں مذہب کا ریاست سے کوئی تعلق نہیں ہےریاست کے ہر شہری کو برابر کا درجہ دیا جائے
لیکن افسوس ایک بیوروکریٹ نے قائد اعظم کی تقریر کا یہ حصہ سنسر کرکے قوم تک پہنچنے نہیں دیا تھا لیکن آج جبکہ اس تقریر تک ہر پاکستانی کی رسائی ہے تو قوم غفلت میں ڈوبی ہوئی ہے اسے نہ کچھ دکھائی دیتا ہے نہ کچھ سنائی دیتا ہےہمیں یہ بات سوچنی ہوگی ہمیں مذہب کے نام پر فرقوں میں کیوں تقسیم کیا گیا ہمیں یہ بھی سمجھنا ہو گا کہ جس زمیں پر ہم رہتے ہیں وہاں رہنے والوں کا تو کوئی مذہب ہوتا ہے لیکن زمیں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا میثاقِ مدینہ میں مسلمان اور غیر مسلم ایک امت قرار دیے گئے تھے مدینہ میں مسلمانوں کی اکثریت تھی اور آپ ریاست کے حکمران تھے لیکن اس بات کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی کہ غیر مسلموں کے لیے اقلیت کا لفظ استعمال کیا جائے
بد قسمتی سے آئین پاکستان میں اس بات کی ضرورت کی پیش آئی کہ ہم غیر مسلموں کے لیے اقلیت کا لفظ استعمال کریں اس لفظ کا استعمال نہ صرف میثاقِ مدینہ کی حکمت کے خلاف ہے بلکہ قائد اعظم سے ان کے عہد کی خلاف ورزی بھی جو انہوں نے غیر مسلموں سے اپنی ریاست میں کیا تھا کہ اس ریاست میں ہر شہری برابر ہوگا قائد اعظم کی ریاست میں انکا چیف جسٹس ہندو اور آرمی چیف عیسائی تھا یہ تھا قائد اعظم کا پاکستان آج کے پاکستان میں دس بڑے ایکسپورٹر جن میں چار ہندو مذہب سے تعلق رکھتے ہیں اس وقت پاکستان کو وسیع زرِ مبادلہ اور ٹیکس دے رہے ہیں لیکن سندھ میں رہنے والے ہندوؤں کے ساتھ ہم کیا سلوک کر رہے ہیں کہ وہ پاکستان چھوڑنے پر مجبور ہو رہے ہیں عیسائی برادری عدم تحفظ کا شکار ہے زندگی کے ہر شعبے میں ان کے ساتھ طبقاتی اور مذہبی تعصب رکھا جاتا ہے جبکہ وہ پاکستان کے شہری ہیں
پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جس میں تعلیم کے تقریباچھ نظام ہیں اردو میڈیم انگلش میڈیم اور مدرسے جن میں اہل حدیث بریلوی دیو بندی اور شعیہ قابل ذکر ہیں۷۹ میں پاکستان میں پانچ سو پینسٹھ مدرسے تھے اور اب ان کی تعداد پچاس ہزار سے بھی تجاوز کر گئی ہے ان مدرسوں نے چالیس ہزار علماء اور ستر لاکھ حافظ قران پیدا کیے ان اداروں کی سر پرستی میں چار قسم کے مسلمان پیدا ہوئے وہ جب مدرسوں سے فارغ ہوتے ہیں تو ایک دوسرے کے مذہب کو ماننے سے انکاری ہوتے ہیں بلکہ کافر سمجھتے ہیں
اور آج کے پاکستان میں یہی مذہبی تفرقی بندی پاکستان کی تباہی میں بہت بڑا کردار ادا کر رہی ہے نائن الیون کے واقعے کے بعد پاکستان میں خانہ جنگی میں ایک محدود اندازے کے مطابق ساٹھ ہزار پاکستانی اور دس ہزار سیکیورٹی اہل کار دہشت گردی کا شکار ہو چکے ہیں ڈاکٹر علامہ طاہر القادری عالم اسلام کے اسکالر وہ واحد شخص ہیں جنہوں نے جرات مندی سے کہا کہ مدینہ کی ریاست سیکولر ریاست تھی اور پاکستان میں بھی مذہب اور ریاست کو الگ الگ ہونا چاہیے
علامہ طاہر القادری نے دہشت گردی کے خلاف فتوی جاری کیا کہ یہ دہشت گرد خوارج ہیں اور وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے قران اور حدیثوں سے ثابت کیا کہ ان دہشت گردوں کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں آج ہمیں یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ قائد اعظم اور علامہ طاہر القادری کی نظریہ پاکستان ایک ہے پاکستان کو اگر قائد اعظم کا پاکستان بنانا ہے علامہ طاہر القادری کو لانا ہو گا
تحریر : سمن شاہ