تحریر : خواجہ وجاہت صدیقی
زندہ قومیں اپنے اسلاف کو ہمیشہ یاد رکھتی ہیں اور زندہ قومیں ہی اپنی تاریخ کو اپنے مستقبل کیلئے مشعل راہ بناتی ہیں،ہماری خوش قسمتی یہ تھی کہ قیام پاکستان کے وقت ہمیں حضرت قائد اعظم محمد علی جناح جیسے باصول،مدبر اور عظیم لیڈر میسر رہے مگر یہ اور بات ہے کہ آج ہم اپنی کمزوریوں کی بدولت فرمودات قائد کو فراموش کر چکے ہیں،قائداعظم محمدعلی جناح کے تصورِ پاکستان کے بارے میں جب بھی اظہارِ خیال کا کوئی موقع آتا ہے تو فوراً ہی ندامت اور تاسف وحسرت کا ایک تاثر بھی ابھرتا ہے،اگر پاکستان اپنے بانی کے تصورات کا آئینہ دار ہوتا تو ان تصورات کا زبانی تذکرہ کرنے کی چنداں ضرورت پیش نہ آتی، ہم اپنے ملک کے سیاسی احوال سے براہِ راست طورپر استنباط کرتے، اپنے گردوپیش پر نظر دوڑاتے اور بڑے فخر کے ساتھ کہتے کہ یہی بانی پاکستان کے تصورات کی تصویر اور ان کی عملی تعبیر ہے،قائداعظم کی رحلت کے برسوں بعد تک ان کی بیش تر تقاریر اشاعت تک سے محروم رہیں، قائداعظم کے بعض بیانات اربابِ اختیار نے قوم کے سامنے نہیں آنے دیے، یہ بات اب ریکارڈ پر آچکی ہے کہ ان کی 11 اگست 1947 کی فکرانگیز تقریر کو اس وقت کی افسرشاہی نے سنسر کرنے کی کوشش کی
اب بھی صورتِ حال یہ ہے کہ ملک میں بولی جانے والی بیش ترزبانوں میں قائداعظم کے خطبات ناپید ہیں،قائداعظم کے تصورات کے تذکرے اور ان کی تشریح سے قبل دو بنیادی باتوں کی وضاحت ضروری ہے، پہلی بات تو یہ کہ قائداعظم بجا طورپر ایسے راہ نمائوں میں شمار ہوتے ہیں جو اپنے غیرمعمولی شخصی اوصاف، اپنی تاریخ فہمی اور تدبر کے حوالے سے اپنے زمانے پر اثرانداز ہوئے اور حالات کا رخ موڑنے میںاہم کردار ادا کیا، ان کی کام یابی کا بڑا راز معروضی حالات کے ان کے فہم میں پوشیدہ تھا، قائداعظم کے تصورات کی اہمیت بھی اسی حقیقت میں مضمر ہے کہ یہ تصورات ذاتی ہوتے ہوئے بھی روحِ عصر کے بہترین عکاس تھے،قائداعظم کے تصورات کی تفہیم کے ضمن میں دوسری قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ مختلف امور کے حوالے سے ان کے طرزِعمل یا ان کے ردِعمل میں تبدیلیوں کے باوجود اہم ترین امور پر ان کے یہاں استقلالِ فکروعمل کی کارفرمائی کو دریافت کرنا کوئی زیادہ مشکل نہیں
بعض لوگوں نے ہندو مسلم تعلقات، ہندوستان کے اتحاد یا ایسے ہی دیگر موضوعات کے حوالے سے قائداعظم کی جانب سے مختلف ادوار میں اختیار کردہ مئوقف میں تضاد کی نشان دہی کی ہے،یہ قائداعظم کی دلیل اور ان کے مدعا کے فرق کو نہ سمجھنے کا نتیجہ ہے، قائداعظم کی حیثیت مسلمانوں کے مقدمے کے ایک مستعد اور صاحبِ نظر وکیل کی تھی، وہ بیسویں صدی کے دوسرے عشرے میں ہندوستانی سیاست میں وارد ہوئے اور انھوں نے مسلمانوں کی نمائندگی اور ان کے کاز کی بہترین عملی تعبیر کی تلاش کے کام کو اپنا مطمع نظر بنایا،قائداعظم کی زندگی کے مشن میں جو دوسرا اہم ترین مقصد کارفرما تھا وہ برصغیر کے مسلمانوں کے سیاسی و جمہوری حقوق کی پاس داری تھی، ایک وسیع حلقے کے نزدیک قائداعظم کی جمہوریت پسندی ہی محلِ نظر ہے، معرکتہ لآرأتاریخی کتاب قائداعظم کا عشق رسول ۖ میں مصنف نے قائد اعظم کے بارے میں زبردست الفاظ کے چنائو کیساتھ ان کی شخصیت کے پہلوئوں کو اجاگر کیا ہے
مصنف اس کتاب میں کچھ یوں رقم طراز ہوتا ہے کہ قائد اعظم کے نام نامی اسم گرامی پر اگر غور کیاجائے تو آپ کی شخصیت ، کردار وعمل فکر و افکار اور بات چیت کا جائزہ لینا اور بھی آسان ہو جاتا ہے ۔ آپ کا اسم گرامی محمد علی ہے اگرچہ محمدۖ اور علی دونوں نام تقدس صفات معنی اور مفاہیم کے اعتبار سے انتہائی برگزیدہ ہستیوں ہی کے لیے مختص ہیں ۔ قائد اعظم کی زندگی اور ان کی جہد مسلسل کا جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ قائد کا ہر عمل اور راہ تحریک کے آزادی میں اُٹھنے والا ہر قدم اور زبان سے ادا ہونے والا ہر حرف مسلمانوں کی آزاد نفاذ اسلام کی عملی کاوش، پسماندہ قوموں کی انگریز کی غلام سے نجات اور حُصول رضائے الہٰی کے سواء کچھ نہیں اگر اس کے علاوہ کچھ ہوتا تو عام سیاستدانوں کے طرح درجن آدھ درجن اولاد نصف درجن بیگمات اور اربوں کی جائیداد اور کھربوں کے اثاثے چھوڑ جاتے اور یہ سب کچھ عصر حاضر کے تقاضوں ، دور جدید کے رواجات اور پاکستانی روایتی کرپشن کا حصہ بن کر آج وطن عزیز کے باسیوں کے لیے ایک درد سر ہی نہیں درد جگر بن چکے ہیں لیکن آج صورت حال اس کے برعکس ہے ۔ آپ کو قائد کے اثاثوں میں سوائے قائد کے مزار مبارک کو دیکھنے کے سواء کچھ انہیں ملتا یہی قائد کا قوم پر احسان عظیم ہے اور یہی آپ کا قوم سے مخلص ہونا سچا عاشق رسول ۖ ہونے اور پکا مسلمان ہونے کا بین ثبوت ہے۔
قائد اعظم اپنے دوست کو خواب کی روئیداد بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میں لندن میں اپنے فلیٹ میں سویا ہوا تھا رات کا پچھلا پہر ہوگا میرے بستر کو کسی نے ہلایا میں نے آنکھیں کھولی ادھر اُدھر دیکھا کوئی نظر نہیں آیا پھر سو گیا ۔ میرا بستر پھر ہلا میں پھر اُٹھا گھر میں ادھر اُدھر دیکھا کوئی نظر نہ آیا سوچا زلزلہ آیا ہو گا ۔ کمرے سے باہر نکل کر دوسرے فلیٹوں کا جائزہ لیا جائے لیکن فلیٹوں میں تمام لوگ محو استراحت تھے میں واپس آکر کمرے میں سو گیا ۔ کچھ دیر گزری تھی کہ تیسری بار پھر کسی نے میرا بستر نہایت زور سے جھنجھوڑا ۔ میں بڑ بڑا کر اُٹھا ۔ پورا کمرہ معطر تھا میں نے فوری طور پر محسوس کیا کہ کوئی غیر معمولی شخصیت میرے کمرے میںموجود تھی۔ میں نے کہا آپ کون ہیں آگے سے جواب سے آیا تیرا پیغمبر ۖ ہوں ۔ میں جہاں تھا وہیں بیٹھ گیا ۔دونوں ہاتھ باندھ دیے اور سر جھکا لیا ۔ فوراً میرے منہ سے نکلا آپ ۖ پر سلام ہو ۔ ایک بار پھر وہ خوبصورت آواز گونجی ۔ جناح بر عظیم کے مسلمانوں کو تمہاری ضرورت ہے اور تمہیں حکم دیتا ہوں کہ تحریک آزادی کا فریضہ سرانجام دو ۔ میں تمہارے ساتھ ہوں بالکل فکر نہ کرنا۔
انشاء اللہ ہم ا پنے مقصد میںکامیاب ہوں گے ۔ میں ہمہ تن گوش تھا صرف اتنا کہہ پایا کہ آپ ۖکا حکم سر آنکھوں پہ ۔ میں مسرت او ر حیرت کے اتھا ہ سمندر میں غرق تھا کہ کہاں ان کی ذات اقدس اور کہاں میں اور پھر شرف ہم کلامی ۔ یہ عظیم واقعہ میری برصغیر واپسی کا مئوجب بنا ۔ مولانا شبیر احمد عثمانی کا ایک واقعہ جس میں وہ فرماتے ہیں کہ میں قیام پاکستان کا اس لیے حامی ہوگیا کہ خواب میں قائد اعظم کی طرف اشارہ کر کے سید البشر ۖ نے مجھ سے فرمایا کہ دیکھو اس شخص کی مخالفت نہ کرنا میری مظلوم اُمت کے لیے ہندوستان میںبڑی خدمت سرانجام دے رہا ہے۔ جو اس کی مخالفت کرے گا وہ پاش پاش ہوجائے گا ۔ یہ دو واقعات حضرت محمد قائد اعظم علی جناح کے مسلک حقیقی ، ترجمان اور بارگاہ رسالت ۖ کے ساتھ تعلق کا پتہ دیتے ہیں۔ ریاست مدینہ کے بعد صفحہ ہستی پر قائم ہونے والی دوسری بڑی ریاست وطن عزیز پاکستان حالصتاً نظریاتی ریاست ہے۔ جس طرح ریاست مدینہ کی بنا اور اساس جہالت اور قومی تکبر کے تمام بتوں کو پاش پاش کر کے لا الہ الااللہ محمد الرسول اللہ کلمہ پر رکھی گئی اسی طرح ہند میں نظریہ پاکستان کی بنا اور اساس بھی کلمہ ٹھہری۔
مدینہ منورہ میں بھی مہاجرین اور انصار کو جہالت کی گھٹا ٹوپ اور قومیت کے بھنور سے باہر نکال کر اسلامی دھارے میں اُخوت اور بھائی چارہ کی راہ پر ڈال دیا گیا ۔ بعین مسلمانان ہند میں بھی ذات پات، چھوت چھات، رنگ ونسل ، قوم قبیلہ اور معاشری اونچ نیچ سے خلاص ہو کر لا الہ الااللہ محمد الرسول اللہ کی اساس اور بنا پر باہم یکجاء ہو گئے اور یوں دنیا کی پہلی نظریاتی ریاست ،ریاست ِمدینہ کی طرح مسلمانان ہند بھی دنیا کی دوسری ریاست اسلام نظریانی ریاست پاکستان کی آزادی اور قیام کے لیے کمر بستہ ہو گئے ۔ اسلامی نظریہ پر قائم مسلمانوں کا یہ اتحاد اور یکجہتی بالآخر اسلامی نظریاتی ریاست کے قیام پر منتج ہوئی اور مسلمان طویل غلامی سے چھٹکارہ پا کر آزاد ہوئے ۔ ویسے تو قائد اعظم نے ایک موقع پر اظہار خیال کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ پاکستان اُس روز قائم ہوگیا تھا جب ہند کے پہلے آدمی نے اسلام قبول کرتے ہوئے کلمہ طیبہ پڑھ لیا تھا۔ پاکستان کی نظریانی ریاست ہونے پر ظاہری اسباب تگ وتازہ اور فکر کے علاوہ بہت سارے الہامی ، روحانی اور پوشیدہ اسباب بھی تھے اور گاہے بگاہے ظاہر ہوتے رہے اور ہوتے رہیں گے ۔ کیونکہ اس مملکت خدادا د نے تاحیات قائم رہنا ہے ۔ ان اسباب میں ایک تو چند برس پہلے آسمان کے شفق پر قدرت کی طرف سے قومی پرچم نمودار ہونا ہے جس کا دیدار ہر خاص وعام نے کیا ہے۔
قومی پرچم چاند ستارہ سمیت ہر چھوٹے بڑے مرد اور عورت نے دیکھا اور اخبارات اور رسل و رسائل والوں نے اس قومی پرچم کی تصاویر لے کر قومی اور بین الاقوامی اخبارات اور میڈیا پر بھی دی۔ یہ عجوبہ اور انوکھا منظر تھا جس پر ہر کوئی حیران اور دشمنانان اسلام پاکستان پریشان تھے کیونکہ قدرت کا یہ عجوبہ اُن کی توقعات اور سوچ کے برعکس تھا ۔ چونکہ مذموم قوتیں یہ نہیں چاہتیں کہ خدا پاکستان کے ساتھ رہے اور پاکستانیوں کا والی وارث ہو ۔ علاوہ ازیں اور بھی بہت سارے معجزے بحق پاکستان سرعام ملتے اور دکھائی دیتے ہیں جن میں چترال سے ملنے والا پتھر بھی ہے جس پر پاکستان کے قومی پرچم کے ساتھ نام گرامی محمد ۖ بھی قدرتی طور پر نقش تھا۔ یہ پتھر چترال کی معتبر اور محترم شخصیت حاجی غلام حسین کو ملا ہے ۔ محکمہ آثار قدیمہ والوں کی رائے کے مطابق یہ پتھر تقریباً پانچ سو سال پرانا ہے۔
تفصیل اس اجمال کی کچھ یوں ہے کہ مشہور کالم نگار ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی جو روزنامہ آج پشاور میں تسلسل سے لکھتے ہیں وہ مشرق میگزین میں اس نادر الوجود پتھر کے بارے میں کچھ یوں رقم طراز ہیں کہ یہ قیمتی پتھر چترال کے رہائشی حاجی غلام حسین کو ملا ہے یہ عام پتھر ہے اس کی لمبائی 15 سینٹی میٹرہے اور 9سینٹی میٹر موٹا ہے ۔ سائز میں انڈہ نما ہے ۔ یہ پتھر کی اس قسم میں سے ہے جو عموماً دریائوں کے کنارے پائے جاتے ہیں اور گھسے نرم وملائم ہوتے ہیں ۔ مذکورہ پتھر کا وزن پندرہ گرام کے قریب ہے ۔ حاجی صاحب نے اس پتھر کو لکڑی کے فریم میںنصب کر رکھا ہے ۔ سفید رنگ کے اس نادر اور نایاب پتھرپر قدرتی طور پر پاکستان کا سبز ہلالی پرچم بنا ہوا ہے ۔ اس قدرتی پرچم پر چاند وستارہ عین اس مقام پر ہے جہاں پاکستانی پرچم پر رکھے گئے ہیں۔ آگے ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی لکھتے ہیں کہ اس قدرتی پرچم کے نیچے قدرتی طور پر تحریر شدہ عربی کی عبارت اپنے اندر معنی کا سمندر رکھتی ہے ۔ یہ عبارت سرخ رنگ میں درج ہے اور اس عبارت میں حبیب پاکۖ کا مقدس نام یعنی اسم مبارک محمد ۖلکھا ہوا ہے ، جس سے یہ پتھر انمول ہو کر رہ گیا ہے ۔ بقول فیضی یہ پتھر حاجی صاحب نے والہانہ عقیدت کے ساتھ اپنے سینے سے لگا کر رکھا ہے اور باوجود مشورہ کے قومی میوزیم میں گفٹ نہیں کرنا چاہتے کیونکہ انہیں خدشہ ہے کہ اس کے تقدس کا پورا خیال وہ خود ہی کر سکتے ہیں اور دوسرا کوئی نہیں کر سکتا۔
کہتے ہیں چترال ، سوات ، بونیر میں قدرتی اور فطرتی نقش کی بھی ایک تاریخ رقم ہے اور اسی طرح پتھروں پر انسانی کاریگری کی بھی ایک تاریخ ہے اس خطے میں پہاڑ اور دریائی پتھروں پر اسم ذات اور اسم محمد ۖ کے فطری اور قدرتی نقوش جابجا ملتے ہیں۔ مینگورہ سوات کے حاجی غلام حسین کو یہ پتھر کوہ ہندوکش کے پہاڑی سلسلہ سے نصیب ہوا ہے۔ جیولاجک ٹائم سکیل اور دیگر شواہد کی بناء پر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہندوکش کا یہ سلسلہ ابھی تک ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے ۔ اس سلسلہ ہائے کوہ میں چٹانیں پچاس لاکھ سال سے پچاس کروڑ سال کی عمر رکھتی ہیں ۔ ان چٹانوں سے جو پتھر ندی نالوں کے ساتھ بہہ کر کے دریا کے کنارے آجاتے ہیں ان کی عمر کم وبیش لگ بھگ 350ہزار سال کے قریب ہوتی ہے۔ اگر دریا کے ساتھ بہنے اور قدرتی عوامل کے ساتھ گھستے گھستے رہنے کے دوران اگر پتھر پر کوئی نقش بنتا ہے تو بھی پتھر کی عمر ایک ہزار سال سے کم نہیں ہوتی اور اگر بہت کم بھی تصور کر لی جائے تو بھی پانچ سو سال ہوگی ۔ گویا پانچ سو سال پہلے اس پتھر پر موجود پاکستان کا ہلالی پرچم اور اس کے نیچے لکھا اسم محمد ۖ اس بات کا غماز ہے کہ ملک خداداد وطن عزیز پاکستان کارخانہ قدرت میں سینکڑوں برس قبل موجود ہے ۔ پس لازم ہے اللہ کی دی ہوئی اس نعمت گرا ں قدر کی دل کی اتھاہ گہرائیوں سے قدر کی جائے۔ (قائد اعظم کا عشق رسول ۖ )سے اقتباس۔
یہ قدرتی پتھر جس پر قومی پرچم کندہ ہے اور اسم محمد ۖ سے مزین ہے یہ وطن عزیز پاکستان کی اساس اور مقاصد پاکستان کا عکاس ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وطن عزیز بھی خالصتاً اس پتھر کی طرح عطیہ خداوندی ہے اور بانی پاکستان محمد علی جناح بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے مسلمانان ہند کے لیے خاص تحفہ اور حمت ربانی ہے۔ اس لیے قائد اعظم کی شخصیت کا احترام ہر ایک پر فرض ہے۔ قائد اعظم اپنی کاوشوں ، جدوجہد ، صلاحیتوں ، اخلاص ، سوچ، فکرو عمل ، دیانتداری اور ایمانداری اور لیڈرشپ میں ایک مثال ہیں اور مثال وہی ہوتی ہے جس کا کوئی توڑ نہ ہو ۔ ہاںالبتہ آج کے سیاستدانوں کی کاوشوں سے کسی کو انکار نہیں اور نہ ہی قربانیوں سے کسی کو کلام ہے۔ اس لیے ان کا احترام اور قدر اپنی جگہ قائم اور برحق ہے۔ لیکن قائد اعظم کوئی دوسرا نہیں ہوسکتا اور نہ بانی پاکستان کوئی ہو سکتا ہے۔ قائد اعظم ہی ہمارے محسن اور عظیم رہنما ہیں ۔ جو قومیں اپنے محسنوں کے احسان کو فراموش کردیتی ہیں ان کے نظریات و افکار چھوڑ دیتی ہیں وہ کسی صورت اپنا وجود قائم نہیںرکھ سکتیں ،وہ ہمیشہ مشکل کا شکار رہتی ہیں۔
اس لیے ہمیں قائد اعظم کے افکار و نظریات کو ہرسطح پر عام کرنا چاہیے اور ایسے پروگرام پیش کرنے چاہیے کہ بانی پاکستان اور ان کے رفقاء کے کارہائے نمایاں سے آنے والی نسلیں پوری طور پر آگاہ ہوسکیں اور انہیں آزادی کی قدرو قیمت کا پتہ اور اندازہ ہوسکے۔ فرمان قائد ” اگر ہم اس عظیم مملکت پاکستان کو خوش وخوشحال بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں پوری توجہ لوگوں بالخصوص غریب طبقہ کی فلاح وبہبود پر مرکوز کرنا پڑے گی(خطبہ صدارت دستورساز اسمبلی ١٩٤٧ئ)” ۔
قائد اعظم محمد علی جناح
وہ قائد تھا ، وہ رہبر تھا
وہ ملت کا مقدر تھا
وہ بختہ عظم کا مالک تھا
وہ حق گوئی کا پیکر تھا
عقابی روح تھی اسکی
جری تھا اور بہادر تھا
وکیل بے بدل تھا وہ
اسے قانون ازبر تھا
رکاوٹ اپنے رستے کی
ہٹانے کا وہ ماہر تھا
اسے ڈھونڈے اب دنیا
وہ ایک نایاب گوہر تھا
تحریر : خواجہ وجاہت صدیقی