کراچی…..تمغہ امتیاز اور پرائیڈ آف پرفارمنس کی حامل سروں کی ملکہ گلوکارہ ملکہ ترنم نور جہاں کی آج 15یں برسی منائی جارہی ہے۔
اسلام آباد، لاہور اور کراچی کے علاوہ ملک کے دیگر شہروں میں بھی ان کے مداحوں کی جانب سے انہیں خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے خصوصی تقاریب کا اہتمام کیا گیا ہے۔ملکہ ترنم نور جہاں لورز فیڈریشن پاکستان کے آرگنائزرخدا بخش کے مطابق ملکہ ترنم نور جہاں کو یوم وفات پرفن موسیقی کیلئے خدمات پیش کرنے پر شاندار الفاظ میں خراج عقیدت پیش کیا جائے گا۔آج مختلف شہروں میں قرآن خوانی کی محافل کابھی اہتمام کیاگیا ہے۔
ملکہ ترنم نور جہاں 21ستمبر 1926ءکو قصور میں پیدا ہوئیں۔ ان کا اصل نام اللہ وسائی جبکہ نور جہاں ان کا فلمی نام تھا۔ انہوںنے اپنے فنی کیرئیر کا آغاز 1935ءمیں فلم پنڈ دی کڑی سے کیا ۔ قیام پاکستان کے بعدوہ اپنے شوہر شوکت حسین رضوی کے ہمراہ ممبئی سے کراچی شفٹ ہو گئیں۔ملکہ ترنم کو 1957ءمیں شاندار پرفارمنس کے باعث صدارتی ایوارڈ، تمغہ امتیاز اور بعد ازاں پرائیڈ آف پرفارمنس سے بھی نوازا گیا ۔ 1965ءکی جنگ میں انہوں نے میرے ڈھول سپاہیا ، اے وطن کے سجیلے جوانوں ، ایہہ پتر ہٹاں تے نیئی وکدے، او ماہی چھیل چھبیلا، یہ ہواؤں کے مسافر ، رنگ لائے گا شہیدوں کا لہو، میرا سوہنا شہر قصورنیں سمیت بے شمار ملی نغمے گا کر قوم اور فوج کے جوش و ولولے میں اضافہ کیا۔ملکہ ترنم نے مجموعی طور پر 10ہزار سے زائد غزلیں و گیت گائے جن میں ان کا سب سے پہلا گانا مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ بے پنا ہ ہٹ ہوا جس نے ملکہ ترنم کو کامیابیوں کے نئے سفر پر گامزن کر دیا۔میڈم نورجہاں نےکئی فلموں میں کامیاب اداکاری و گلوکاری کے جو ہر بھی دکھائے ۔ ان کی کامیاب فلموں میں ایماندار، پیام حق، سجنی،یملا جٹ ، چوہدری ، ریڈ سگنل ، سسرال ، چاندنی ، دھیرج ، فریاد، خاندان، نادان ، دہائی ،نوکر ، لال حویلی ، دوست ، زینت ، گاؤں کی گوری ، بڑی ماں ، بھائی جان اور انمول شامل ہیں۔ملکہ ترنم نور جہاں کی15ویں برسی کے موقع پر الیکٹرانک میڈیا انہیں خراج تحسین پیش کرتے ہوئے ان کے گائے ہوئے مقبول ملی نغمے اور گیت نشر کر رہا ہے جبکہ پرنٹ میڈیا نے خصوصی مضامین کی اشاعتوں کا اہتمام کیا ہے۔ ملکہ ترنم نور جہاں 23دسمبر 2000ءکو 74برس کی عمر میں انتقال پا گئی تھیں