تحریر: اختر سردار چودھری ،کسووال
برصغیر پاک وہند کی نامور ہیروئن سورن لتا 20 دسمبر 1924ء کو راولپنڈی میں ایک سکھ گھرانے میں پیدا ہوئیں۔ان کے والد ایک سرکاری ملازم تھے ۔ اس لیے کبھی لکھنو اور کبھی دہلی میں رہائش اختیار کرتے رہتے ۔ اس دوران سورن لتا نے بی اے تک تعلیم حاصل کر لی ۔تعلیم مکمل کرنے کے بعد انہوں نے لکھنوء کی موسیقی اور آرٹ اکیڈمی میں موسیقی کی باقاعدہ تعلیم حاصل کی تھی۔اس کے بعد انہوں نے 1940ء میں ممبئی مستقل سکونت اختیار کر کے سٹیج فنکار ہ کے طور پر فنی کیریئر کا آغاز کیا۔ انہوں نے قیام پاکستان سے قبل کئی ہندی فلموں میں کام کیا۔ان کی پہلی فلم”آواز ” تھی جس کے بعد فلم ” لیلٰی مجنوں ” میں بطور ہیروئن جلوہ گر ہوئیں۔اسی فلم کے دوران انہوں نے اسلام قبول کرکے اداکار نذیر سے شادی کر لی اور سورن لتا سے سعیدہ بانو بن گئیں۔اداکار ہدایت کار اور فلم ساز نذیر جنہوںنے اپنے کیرئر کا آغاز خاموش فلموں کے دور میں لاہور ہی سے کیا تھا۔بعد میں بمبئی منتقل ہو گئے تھے ۔ قیام پاکستان کے بعد نذیر پھر لاہور آگئے ۔
اس زمانے میں انہوں نے جن فلموں میں کام کیا, ان میں رونق۔ رتن۔انصاف۔ اس پار اور وامق عذرا ہیں ۔ ان فلموں میںان کی جوڑی نذیر کے ساتھ پسند کی گئی تھی ۔ 1944ء کی مشہور زمانہ نغماتی فلم ”رتن” نے انہیں مقبولیت کی بلندیوں پر پہنچا دیا تھا۔قیام پاکستان کے بعد وہ اپنے شوہر نذیر کے ہمراہ پاکستان آگئیں ۔جہاں انہوں نے خاوند سے مل کر ایک فلمی ادارہ بنایا۔ انہیں فلم انڈسٹری کے بانیوں میں بھی شمار کیا جاتا ہے ۔ اپنے ادارے کے بینر تلے فلم ”سچائی ”بنائی۔ اس فلم میں ہیرو اور ہیروئن کا کردار نذیر اور سورن لتا نے ادا کیا۔
سورن لتا پاکستان کی پہلی سپرہٹ فلم”پھیرے ”کی ہیروئن تھیں ۔ یہ نہ صرف پاکستان کی پہلی پنجابی فلم تھی ،بلکہ سعدیہ بانو( سورن لتا) اور ان کے شوہر اداکار، فلمساز اور ہدایتکار نذیر کی پہلی پنجابی فلم تھی ، جسے یہ ناقابل شکست اعزاز حاصل ہے کہ یہ پاکستان کی کسی بھی زبان کی پہلی سلور جوبلی فلم ہے ۔اس فلم کے تمام گانے ہٹ ہوئے تھے اور خود فلم تو سْپر ہٹ ہوئی تھی نہ صرف پاکستان میں بلکہ ہندوستان میں بھی ۔ہندوستان میںاس فلم کے تقسیم کار سورن لتا کے بھائی تھے ۔
پھیرے کی کامیابی کے بعد نذیر اور سورن لتا کی پنجابی فلم” لارے ”اور اردو فلم” انوکھی داستان ”ریلیز ہوئیں۔ 1952ء میں نذیر نے فلم بھیگی پلکیں تیار کی جس میں سورن لتا نے الیاس کاشمیری کے ساتھ ہیروئن کا کردار ادا کیا۔ 1953ء میں سورن لتا کی چار مزید فلمیں شہری بابو ۔خاتون۔ نوکراور ہیرریلیز ہوئیں۔سورن لتا کی بطور ہیروئن 1955ء میں ”نوکر” ریلیز ہوئی جو پاکستان کی دوسری گولڈن جوبلی فلم تھی۔ اس کے بعد بھی سورن لتا کی کئی اور فلمیں نمائش پذیر ہوئیں ،جن میں سوتیلی ماں۔ صابرہ۔ نور اسلام۔ شمع۔ بلو جی اور عظمت اسلام شامل تھیں۔ عظمت اسلام سورن لتا کی بطور ہیروئن اور نذیر کی بطور فلم ساز اور ہدایت کار آخری فلم تھی ۔اس کے بعد سورن لتا نے چند مزید فلموں میں کریکٹر ایکٹر کردار ادا کئے تاہم چند برس فلمی صنعت سے کنارہ کش ہوگئیں۔
سورن لتا نے اپنے 22 سالہ کیرئیر میں صرف سترہ فلموں میں کام کیا ۔ ان میں سے صرف پانچ پنجابی اور باقی اردو فلمیں تھیں ۔سورن لتا ایک تعلیم یافتہ اداکارہ تھیں ، یہ ہی وجہ تھی کہ انہوں نے لاہور میں” جناح پبلک گرلز اسکول ”کی بنیاد رکھی اور آخری وقت تک اس کی روح و رواں اور سربراہ رہیں۔
پاکستان فلم انڈسٹری کی ممتاز اداکارہ فلمی دنیا میں ملکہ غمگین کے نام سے پہچانی جانے والی خوبصورت مسکراہٹ اور اداس آنکھوں والی اداکارہ سورن لتا 8فروری 2008ء کو 83برس کی عمر میں مختصر علالت کے بعدشائقین فلم کو غمگین کر گئیں ۔لیکن اپنی خوب صورت اداکاری۔بانی پاکستان فلم انڈسٹری ۔پاکستان کی پہلی اور دوسری گولڈن جوبلی فلم کی ہیروئن ہونے کے باعث وہ اب بھی شائقین کے دلوں میں زندہ ہیں۔
تحریر: اختر سردار چودھری ،کسووال