تحریر : شاہ دل اعوان ایڈووکیٹ
اعوان کون ہیں؟ کہاں سے آئے؟ کہاں کہاں آباد ہیں؟ یہ وہ سوال ہیں جن پر پچھلے ایک سو بیس سالوں سے لکھا جا رہا ہے۔ ہر نیالکھنے والا اپنی منطق سے لکھتا ہے، تاریخ دن بدن الجھتی جا رہی ہے۔ عام اعوان جو شجرہ نسب کی باریکیوں سے نا آشنا ہیں وہ الجھ کر رہ گئے ہیں کہ آخر اعوان قوم کی حقیقت ہے کیا؟ اس سلسلے میں جہاں تک میں سمجھ پایا ہوں، آج تک ہونے والی تحقیق کی تاریخ آپ کے سامنے رکھ رہاہوں ۔ اعوان لکھاریوں نے اب تک کہاں کہاں ،کیاکیا؟،اس کتاب میں کچھ اس انداز سے جائزہ لیا گیا ہے کہ جس سے ایک عام اعوان بھی بات سمجھ سکے گا، کہ اعوان اصل میں کون ہیں اور کہاں سے آئے۔ یہ جو نسب میں پیوند کاری اور سنی سنائی باتوں پر قوم کو الجھایا گیا اس کا نہ صرف مفصل احوال بیان ہے، بلکہ حقیقت بھی منظر عام پر لائی جا رہی ہے۔
خرد کا نام جنوں رکھ دیا ،جنوں کا خِرد
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے
کاش یہ نام نہاد محققین اور خودپسند مورخین اس موضوع پر قلم اٹھانے سے پہلے کتب ہائے نسب اور اسمائے رجال کا تفصیلی مطالعہ کر لیتے تو یہ الجھی ہوئی تاریخ وجود میں نہ آتی۔ اس گروہ کے ترتیب دئیے گئے شجروں کو دیکھئے شجرے میں موجود ہر نام کے ساتھ” لقب” یا” عرف” لازمی لگایا گیا ہے دراصل یہ شجروں میں پیوندکاری ہے۔ جن سے تاریخ کو تو ثابت نہ کر سکے اور ایک افسانہ لکھ دیا۔ یہ شجرے ترتیب دیتے ہوئے بھی انہیں احساس تھا کہ ہمارے ترتیب دئیے گئے شجرے کسی انساب کی کتاب میں موجود شجروں کے ساتھ یا تاریخی کرداروں کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتے دراصل لقب اور عرف کی پیوند کاری حقیقت کے قریب جانے کی بھونڈی کوشش تھی۔ اب دنیا ایک گلوبل ولیج بن چکی ہے اور دنیا بھر کی لائیبریریوں اور انٹرنیٹ پر موجود مخطوطات ، تاریخی کتب باآسانی دستیاب ہیں ۔ اور یہ حضرات ہیں کہ ابھی تک خوابوں اور مکاشفوں کی بنیاد پر لکھی ہوئی ”مراة مسعودی” کو آسمانی صحیفہ خیال کئے بیٹھے ہیں۔ اس کا ماخذ” ملا محمد غزنوی ”کی ”تاریخ محمودی” ہے جس کا کسی ہم عصر تاریخ یا مابعد میں کہیں ذکر نہیں ملتا جبکہ برصغیر پاک و ہند میں تمام مورخین اسے رد کر چکے ہیں۔
میرے آباواجداد کا تعلق” مردوال” وادی سون ضلع خوشاب سے ہے اور ہم آج تک اسی سر زمین سے جڑے ہوئے ہیں۔ میرے پردادا شاہنواز اعوان بیسویں صدی کے آغاز میں سرگودھا کے گاوں چک 29 شمالی آگئے۔ 1929ء میں 35 شمالی میں آباد ہوئے۔ ہمارے علاقے وادی سون اور دامن کوہ میں انیسویں صدی کے اختتام پر زبانی روایتوں کے مطابق مشہور تھا کہ اعوان حضرت عباس علمدار کی اولاد سے ہیں۔ یہ بات اس وقت نسابہ اور شجرہ دان میراثی پڑھ کر سنایا کرتے تھے اس زمانے میں لوگوں کو اپنے شجرے خودبھی یاد ہوتے تھے۔ کیونکہ یہ عربوں کا خاصہ تھا۔اسی زمانے میں تاریخ لکھنے کا آغاز ہوتا ہے اور مولوی حیدر علی لدھیانوی1896ء میں ایک کتاب تاریخ علوی لکھتے ہیں۔ اس کتاب کے لکھنے کی ضرورت اس لئے پیش آتی ہے کیونکہ انگریزوں نے اعوان قوم کے شجروں میں سنی سنائی اور مخالفین کی کہی باتیں شامل کر کے شجرہ متنازعہ بنا دیا۔ جس کے بعد حکیم غلام نبی اعوان نے تاریخ اعوان لکھوانے کا فیصلہ کیا اور مولوی حیدر علی لدھیانوی نے ان کی خواہش پر کتاب لکھی، جس نے معاملہ سلجھانے کے بجائے اور الجھا دیا اور اعوانوں کا شجرہ حضرت محمد حنیفہ سے جا جوڑا۔ اور یہ سب سنی سنائی اور لدھیانہ اور گردو پیش کی کہاوتیں لکھ دیں ۔ اعوان کاری کے گڑھ وادی سون کو نظر انداز کیا گیا۔ چنانچہ نہ صرف اعوان قوم نے اس تاریخ کو ماننے سے انکار کیا بلکہ مولوی حیدر علی لدھیانوی کے اپنے تایا زادوں نے تو اسے کرایے کا لکھاری تک کہہ دیا اور ایک پمفلٹ بھی جاری کیا جس کاآگے تفصیل سے ذکر موجود ہے۔
اس ساری صورتحال کے بعد حکیم غلام نبی اعوان نے تاریخ اعوان لکھنے کی ذمہ داری وادی سون کے موجودہ گاؤں ”صدیق آباد” کے مولوی نور الدین کو سونپی جنہوں نے اپنے سالے اللہ بخش اعوان کے پاس موجود ریکارڈ سے” زاد الاعوان” اور” باب الاعوان ”کتب لکھیں اور اس کے لئے ہندوستان ، عراق اور دیگر عرب ممالک کا سفر کیا۔ عرب نسابہ کی کتب سے مستفید ہونے کے بعد مقامی روایات اور نسابہ کے شجروں کا تجزیہ کرنے کے بعد ایک ایسی تاریخ رقم کی جس سے آج تک مورخین اور ان کے مخالفین بھی مستفید ہو رہے ہیں۔ تاریخ باب الاعوان اور زاد الاعوان میں اعوان قوم کا شجرہ نسب حضرت عون بن یعلیٰ المعروف قطب شاہ کے توسط سے حضرت عباس علمدار بن حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے ثابت کیا گیا۔ اس کے بعد مولوی حیدر علی کی کتاب تاریخ حیدری ان کے بیٹے نے چھپوائی ،جس میں انہوں نے عون بن یعلیٰ اور ان کے دو بیٹوں محمد عبداللہ اور محمد کندلان کی برصغیر آمد کو تسلیم کیا اور عرب نسابہ کو بھی تسلیم کیا کہ انہوں نے اعوانوں کو حضرت عباس کی اولاد لکھا ہے۔ مگر وہ اپنی سنی سنائی من گھڑت کہانیوں پر بضد تھے۔ چنانچہ ایک نئی بحث نے جنم لیا اور قطب شاہی اور حنیف شاہی کے الفاظ منظر عام پر آئے۔
ملک شیر محمد آف کالا باغ نے تو بات گالی گلوچ تک پہنچا دی۔ یہ سلسلہ چل پڑا اور ہر کوئی تاریخ اعوان لکھنے بیٹھ گیا۔ ان لوگوں نے بھی بیس بیس صفحے کی تاریخیں لکھ ڈالیں جنہوں نے خود اپنا شجرہ تین اور پانچ سوروپے میں بنوایا تھا۔ انہوں نے بھی تاریخ اعوان لکھی جن کا شجرہ سرکاری ریکارڈ میں بافندہ ، مستری، ترکھان لکھا تھا۔ تاریخ لکھنے کے لئے کوئی نا کوئی پیمانہ ہوتا ہے، مگر تاریخ اعوان لکھنے کے لئے صرف ایک ہی پیمانہ تھا ،کہ اولاد عباس کا انکار کرنا ہے۔۔ اور یہ بات بھی ملحوظ خاطر رہے کہ ان تمام مصنفین کا تعلق اعوان کاری سے نہیں تھا، کوئی ہزارہ سے تھا تو کوئی بھارتی پنجاب سے، کوئی کشمیر سے تو کوئی پشاور سے۔۔۔ علاقہ اعوان کاری سے ہیڈماسٹر سلطان محمود اعوان نے اپنے مقالہ اور ملک محمد سرور اعوان مسلسل مولوی نور الدین سلیمانی کی تائید میں لکھا مگر ان کے وہ ہم عصر جو ہٹ دھرم ضدی اورگھُس بیٹھئے اعوان تھے انہوں نے من گھڑت کہانیوں کایہ سلسلہ جاری رکھا۔
٢٠١١ء میں ”افکار الاعوان پاکستان” کی بنیاد رکھی گئی اور تاریخ اعوان پر تحقیق کا کام شروع کیا گیا۔ اللہ پاک کی مدد ، فقیروں کی دعاؤں سے آج ہم اس مقام پر پہنچ چکے ہیں کہ تاریخ اعوان میں کسی قسم کا کوئی ابہام نہیں ہے۔ مفروضوں کا کوئی وجود نہیں ہے۔ علوی اعوانوں کے جد اعلیٰ عبداللہ گولڑہ کا چورہ دادا گولڑہ وادی سون میں اورمزارات عراق میں ہیں عون بن یعلی ، ابو یعلی ٰ حمزہ سمیت تمام مزارات کی نشاندہی ہو چکی ہے۔کسی کے بہکاوے میں آنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ٍٍاب جبکہ ایران کے نسابہ علامہ علی ربانی خلخالی صاحب ہوں ، یا عراق کے امین علوی صاحب، جو محقق اور نسابہ ہونے کے ساتھ ساتھ اولاد حمزاة الاکبر بن حسن بن عبید اللہ ، بن عباس علمدار ہیں، سعودی عرب میں یوسف بن عبداللہ جمل الیل نے الشجرة الزکیہ لکھ کر کوہستان نمک وادی سون سکیسر اور یہاں سے بسلسلہ تبلیغ کشمیر ہزارہ اور دیگر علاقوں میں عون بن یعلیٰ کی اولاد کے جانے پر مہر تصدیق ثبت کر دی ہے ۔ میری تمام قوم کے لئے دعا ہے کہ یا اللہ قوم میں اتفاق عطا فرما اور تفرقوں سے نجات دلا۔ امین
تحریر : شاہ دل اعوان ایڈووکیٹ