یوں لگتا ہے امریکا میں مختلف شہروں میں میرے پروگرام بنانے والوں نے خاص اہتمام کیا کہ میں بار بار شکاگو کے ائر پورٹ سے ضرور گزروں۔ یوں تو امریکا کے ہر ایئرپورٹ پر مجھے مشین نے رینڈم طور پر خصوصی تلاشی کے لیے منتخب کیا‘ لیکن تیسری بار جب شکاگو ایئرپورٹ پر لگی سیکیورٹی کی مشین نے مجھے ایک بار پھر خصوصی تلاشی کے لیے منتخب کیا تو مجھے کوئی حیرت نہ ہوئی۔ اس ساری تلاشی میں بالآخر نکلتا کچھ نہیں‘ صرف یہ بات کھل کر سامنے آ جاتی ہے کہ دنیا بھر میں امریکی جو کچھ بھی کرتا ہے وہ محض اتفاق نہیں ہوتا۔
محض اتفاق سے پاکستان میں ضیاء الحق برسراقتدار نہیں آتا تا کہ اپنے دور اقتدار میں سوویت یونین کے خلاف افغانستان میں جنگ میں امریکا کا ساتھ دے سکے۔ پہلے ذوالفقارعلی بھٹو کے دور میں حکمتیار، برہان الدین ربانی اور احمد شاہ مسعود کو پاکستان میں بلا کر انقلاب کے منصوبہ بندی کی جاتی ہے۔اس کا بنیادی مقصد روس کے پڑوس میں اس کی مخالف حکومت کا قیام ہوتا ہے۔ اپنے لیے آنے والے خطرے کو ضرورت سے زیادہ سنجیدگی سے لیتے ہوئے اور پاکستان میں موجود کمیونسٹ اور قوم پرست سیاسی رہنماؤں کے بہلاوے اور گوادر یا کراچی کے گرم پانیوں تک رسائی کے لالچ میں روس افغانستان میں داخل ہوتا ہے اور تباہی اس کا مقدر بن جاتی ہے۔ بالکل ویسے ہی جیسے جاپان کو اکسا کر پرل ہار بر پر حملہ کروایا گیا اور پھر اس کے دو شہر ہیرو شیما اور ناگاسا کی پر انسانی تاریخ کے پہلے ایٹم بم گرائے گئے۔
اسی طرح مشرف کی پاکستان کے اقتدار پر قبضے کی کہانی کے اسرار و رموز بھی بہت گہرے ہیں۔ پاکستان کی فوج کو ایک بدترین ’’یوٹرن‘‘ کی ضرورت تھی۔ جہاد فی سبیل اللہ کی علمبردار فوج کو جہاد کے خلاف ہی منظم کرنا تھا۔ گیارہ ستمبر بھی ہونا تھا۔ یوں اس کی سزا ایک پسماندہ ترین ملک افغانستان کو دی جانا تھی۔ پاکستان کے ہوائی اڈوں سے 57 ہزار دفعہ امریکی جہازوں نے اڑنا تھا اور نہتے افغان شہریوں پر بم برسانے تھے۔ ایسے نہیں لگتا جیسے امریکا نے قوموں کی قسمت کا حال پڑھ رکھا ہوتا ہے۔ ورنہ اگر اس زمانے میں پاکستان پر کوئی سویلین حکومت ہوتی اور فوج کا سربراہ کوئی حمید گل مرحوم جیسا شخص ہوتا تو امریکا کو کس قدر مشکل پیش آتی۔
اسی طرح امریکی انتخابات میں صدارتی امیدوار کا انتخاب اور پھر اس کی کامیابی بھی کوئی اتفاقی عمل نظر نہیں آتی۔ مشہور مفکر نوم چومسکی نے اپنی کتاب ’’مینوفیکچرنگ رضا مندی‘‘ یعنی لوگوں کی رائے کو تخلیق کرنا‘‘ ایک ایسی کتاب ہے جو اس بات سے پردہ اٹھاتی ہے کہ امریکا ’’پاپولر ووٹ‘‘ ایک فراڈ ہے اور کیسے صرف الیکشن مہم کے چند مہینوں میں اس میڈیا کے ذریعے جیسے کارپوریٹ سرمایہ دار اپنے پیسوں سے اپنے مقصد کے لیے استعمال کرتے ہیں‘ لوگوں کے تعصبات سے کھیلا جاتا ہے‘ ان کی نفرتوں اور محبتوں پر شاندار ٹی وی پرگراموں اور اخباری تبصروں کی چٹخارہ بازی کی جاتی ہے ا ور اپنے مقصد کے نتائج حاصل کیے جاتے ہیں۔
ایک دفعہ کوئی صدارت کی کرسی پر متمکن ہو جائے تو پھر عوام سے نہیں پوچھتا کہ تمہارے بچوں کو ویتنام‘ کوریا‘ افغانستان یا عراق میں موت کے منہ میں جھونکوں یا نہیں۔ یہ سب فیصلے وہ کرواتے ہیں جنھوں نے6.8 ارب ڈالر اوبامہ کو اور قریباً اتنے ہی ٹرمپ کو الیکشن لڑنے کے لیے مہیا کیے ہوتے ہیں۔
امریکی حکومت میں سب کچھ بہت پہلے سے سوچا جاتا ہے‘ لیکن یہ سوچ امریکا کی طاقت کے بیرون ملک اظہار سے متعلق ہے۔ ہیلری کلنٹن نے اپنی وزارت خارجہ کے دوران ایک پتے کی بات کی تھی۔” کون امریکہکی طاقتامریکہاندر میں مضمر ہے کہ یقین لوگ بیوقوف ہیں، “امریکہ کی طاقت امریکہ سے باہر جھوٹ جو لوگ یہ تصور رکھتے ہیں کہ امریکا کی طاقت امریکا کے اندر سے ہے وہ بے وقوف ہیں،” امریکا کی طاقت امریکا سے باہر ہے؟ یہی وجہ ہے امریکی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کی پلاننگ کا محور و مرکز ہمیشہ دنیا پر اپنی بادشاہت مستحکم کرنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ترقی یافتہ ترین ممالک کے سرخیل ہونے کے باوجود امریکا ایک رفاحی مملکت کے تصور سے بھی کوسوں دور ہے اور اس کی تصویریں آپ کو امریکا کی سڑکوں پر جا بجا نظر آئیں گی۔ میں نے یہ مناظر بیس سال پہلے بھی امریکا میں دیکھے تھے اور آج بھی نظر آئے۔
شکاگو اور مینی سوٹا کے علاقوں میں موسم نقطۂ انجماد سے 13 سے17 ڈگری تک نیچے تھا۔ چاروں جانب برف اور برفانی ہوا انسان کا خون جما دیتی تھی۔ ایسے میں رات کے گیارہ بجے کوئی شخص اپنا سارا سامان اپنے ساتھ گھسیٹتا ہوا پناہ کی تلاش میں ہو یا پھر کوئی خاندان اپنے بچوں کو سردی میں اپنے ساتھ چمٹائے کسی چرچ کے دروازے کے سامنے رات بھر کے لیے پناہ کی بھیک مانگ رہا ہو تو آپ کے بدن میں ایک جھرجھری سی دوڑ جاتی ہے۔
پاکستان لاکھ غریب سہی‘ میں نے چوبیس سال کوئٹہ‘ پشین‘ مستونگ اور چمن جیسے علاقوں میں گزارے ہیں جہاں اس زمانے میں ایسا ہی برفانی موسم ہوتا تھا لیکن میں نے پناہ کی تلاش میں سڑکوں پر سرگرداں کسی شخص کو نہیں دیکھا اور نہ ہی ایسا منظر آپ کو شمالی علاقہ جات میں نظر آئے گا۔ لیکن دنیا کی اس سب سے بڑی اور شاید واحد عالمی طاقت میں اس وقت پانچ لاکھ چونسٹھ ہزار سات سو آٹھ 5,64,708 ایسے افراد ہیں جن کے پاس کوئی گھر نہیں۔ وہ گرجا گھر یا رفاحی ادارے جو ان افراد کو رات سات بجے سے صبح سات بجے تک پناہ یعنی سایہ فراہم کرتے ہیں‘ ان کے دروازوں پر سرشام ایسے لوگوں کا ہجوم دیکھنے والا ہوتا ہے۔
امریکا جس کی طاقت امریکا سے باہر تصور کی جاتی ہے۔ جس سپر پاور نے 1901ء سے اپنی افواج کو مختلف ممالک میں حملوں کے لیے بھیجنا شروع کیا‘ فلپائن سے تائیوان‘ کوریا اور پھر ویتنام‘ کمبوڈیا‘ لاؤس سے ہوتے ہوئے جنوبی امریکا اور اب افغانستان اور عراق‘ ان جنگوں میں حصہ لینے والوں میں ویتنام اور اس کے بعد کی جنگوں کے امریکی ’’شیر دل‘‘ سپاہیوں میں چودہ لاکھ ایسے ہیں جو مستقل یا عارضی بے گھری کا شکار ہیں۔
فوج کی نوکری ختم ہونے کے بعد کوئی آمدنی کا ذریعہ نہیں اور جنگوں میں شرکت کر نے سے جسمانی معذوری نے اپاہج کر دیا ہے لیکن ان چودہ لاکھ میں سے دس لاکھ افغانستان اور عراق کی جنگ میں حصہ لینے والے وہ سپاہی ہیں جو ایک ایسے پاگل پن کا شکار ہو چکے ہیں جسے ’’پوسٹ ٹرامیٹک ڈس آرڈر‘‘ کہتے ہیں ۔ یہ کسی خوفناک‘ المناک یا دردناک واقعہ دیکھنے سے پیدا ہوتا ہے اور آدمی اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھتا ہے۔
خاندان کا نظام ٹوٹ پھوٹ چکا ہے‘ گھر والے ذہنی امراض کے اسپتال میں داخل کرتے ہیں وہ چند دن رکھ کر فارغ کرتے ہیں تو واپسی پر گھر کے دروازے اس ’’پاگل ‘‘ پر بند ہو جاتے ہیں اور وہ ایسے ہی رات کو برفانی ہواؤں میں پناہ سایہ ڈھونڈ رہا ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ فوجی جو عراق یا افغانستان کی جنگ میں حصہ لینے کے بعد واپس آئے وہ اس بے گھری اور کسمپرسی سے تنگ کر دھڑ دھڑ خودکشیاں کر رہے ہیں۔ بیس سال پہلے واشنگٹن میں جارج ٹاؤن کے راستے پر ایک سیاہ فام گتے کے گلاس میں سکہ اچھال کر یہ صدا لگا رہا تھا۔” بے گھر رات کے لیے ایک پینی کا سوال ہے۔‘‘ پتہ نہیں کیوں میرا جی چاہتا ہے کہ پاکستان کے مخیر حضرات ان امریکی بے گھروں کے لیے پناہ مہیا کرنے کے لیے ایک این جی او بنائیں‘ اسے عالمی سطح پر رجسٹرڈ کروائیں اور اس عالمی طاقت کو اس آئینے میں اس کا چہرہ دکھائیں۔