خصوصی تحریر
نازیہ بی بی
کوئٹہ ایک بار پھر لہو لہان ہوگیا۔ ذرائع کے مطابق اسی اندہوہ ناک واقع کی ذمہ داری داعش اور طالبان محسود گروپ نے قبول کر لی ہے۔ آئی جی ایف سی میجر جنرل شیرافگن کے مطابق پولیس ٹرینگ مرکز پر حملہ کرنے والے دہشت گردوں کا تعلق کا لعدم تنظیم لشکر جھنگوی لعالمی سے ہے اور حملہ آور مسلسل افغانستان سے حملے سے متعلق ہدایات لیتے رہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ان حملہ آوروں کا تعلق کسی بھی تنظیم سے ہو وہ اس ملک کے ہی نہیں انسانیت کے دشمن ہیں۔ حدیث نبوی ہے کہ جس نے ایک جان کو قتل کیا اس نے پوری انسانیت کو قتل کیا۔ یہ انسانیت کے دشمن کب تک بے گناہوں اور معصوموں کو اپنی دشمنی کی بھینٹ چڑھاتے رہیں گے۔ دراصل انسان ایسے گنا ہ کا مرتکب نہیں ہوسکتا ۔ یہ انسان کے روپ میں درندے ہیں جن کے اندر احساس کا جناز ہ نکل چکا ہے۔ جو انسان اپنی جان سے پیار نہیں کرتا اور خود کو بارودی ِ مواد سے اڑا لیتا ہے اس میں دوسروں کے لئے احساس کیونکر ہوسکتا ہے۔ ا نسانیت کا گلا گھونٹنے کے مجرم دراصل کوئی اور ہیں جو اپنے مفاد کی خاطر معصوم جانوں سے کھیلتے ہیں۔ اصل حیوان یہی لوگ ہیں جن سے پاک آرمی کئی دہائیوں سے نبردآزماہے۔ یہ حیوان پاکستان کے کونے کونے میں پھیلے ہوئے ہیں۔ کہیں یہ ٹارگٹ کلر، کہیں خود کش حملہ آور، کہیں دہشت گرد، کہیں انتہا پسند ، کہیں بھتہ خور اور کہیں غیر ریاستی عناصر کے طور پر پہنچانے جاتے ہیں ۔ ان سب کا مقصد پاکستان کی سلامتی کو نقصان پہنچانا اور ترقی کے عمل کو روکناہے۔ اس بات میں بھی دورائے نہیں کہ ہمارے ہمسائیہ ممالک بھارت اور افغانستان ایسے شرپسند عناصر کی پوری طرح پشت پناہی کر رہے ہیں اور یہ محض باتیں ہی نہیں حکومت کے پاس اس کے واضح ثبوت موجود ہیں۔ 16دسمبر 2014میں پشاور اے پی ایس حملے کے تانے بانے بھی افغانستان سے جاملے تھے جس کے نیتجے میں پاکستان آرمی چیف نے ہنگامی طور پر افغانستان کے دورہ کیا اور دہشت گردوں کو پکڑنے کے لئے افغان حکومت سے تعاون کی اپیل کی بلوچستان میں تو بھارت کی دراندازی کے واضح ثبوت ہونے کے ساتھ ساتھ کلبھوشن یادیو کی گرفتاری اور پھر نرنیدرمودی کی لال قلعے میں تقریر میں بلوچستان کا ذکر اس بات میں رتی برابر شک کی گنجائش نہیں چھوڑتا کہ بھارت پاکستان کو غیر مستحکم کرنا چاہتا ہے۔ پاکستان کے دشمنوں کا ذکر کرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان کے محافظوں کا ذکر بھی انتہائی ضروری ہے۔ آپریشن ضرب عضب کے نتائج پوری قوم کے سامنے ہیں۔ کراچی کو نسبتاً پر امن بنانے اور ملک کے باقی شہروں میں دہشت گردی کے واقعات میں کمی آپریشن ضرب عضب کی کامیابی کا منہ بولتا ثبوت ہیں ۔ یہ صرف کہنے کی بات نہیں بلکہ ثابت شدہ بات ہے کہ گزشتہ دنوں آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے آپریشن ضرب عضب کو کامیاب ترین ملٹری آپریشن قرار دیا لیکن دشمنوں کو پاکستان کی کامیابی ایک آنکھ نہیں بھائی اور سانحہ کوئٹہ برپا کرکے ایک بار پھر ہزاروں ، لاکھوں لوگوں کے زخموں پر نمک چھڑک دیا۔ حکومت پاکستان اور آرمی چیف کی طرف سے ذمہ داروں کو کیفر کردار تک پہنچانے کا ایک بار پھر اعادہ کیا گیا۔ عالمی برادری نے پاکستان کے حق میں بیان دیتے ہوئے پاکستان کے اقدامات کی حمایت اور پاکستان سے مل کر کام کرتے رہنے کی یقین دہانی کرائی۔ قارئین یہاں ایک اہم بات یہ ہے کہ دہشت گردی کی جنگ میں پاکستان کو ابھی بہت سے چیلنجز کا سامناہے۔ اندرونی و بیرونی دشمن ہر وقت تاک لگا ئے بیٹھا ہے اور جونہی اسے موقع ملتا ہے وار کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔ پاکستانی عوام اور افواج کی قربانیوں کو رائیگاں ہونے سے بچانے کے لئے اتحاد کی ضرورت ہے اور دشمنوں کو پہنچاننے کی ضرورت ہے ۔2001سے لیکر 2016 تک ان گنت خود کش حملہ آور بے گناہوں کی جان لے چکے ہیں۔ نہ صرف اتنا ہی بلکہ ملک کی سلامتی کو خطرے میں ڈال کر معاشی ترقی کے عمل کو بھی کافی حد تک متاثر کر چکے ہیں۔ اس خود کش حملہ آور ذہنیت سے لڑنے کی ضرورت ابھی باقی ہے کیونکہ جب تک اس ذہنیت کو ختم نہیں کیا جاتا اس وقت تک دہشت گردی جیسے ناسور سے چھٹکارا پانا مشکل ہے۔ اگر انسان کی ٹریننگ کرکے اسے خودکش حملہ آور بنایا جاسکتا ہے تو مثبت تربیت کے ذریعے مہذب انسان کواس بات کا ادراک کرایا جاسکتا کہ دہشت گرد بلاتفریق مذہب رنگ و نسل انسانیت کے دشمن ہیں۔ عالمی برادری اس وقت پاکستان کے موقف کی حمایت کر رہی ہے ۔اس نازک موقع پر پاکستان کے سیاستدانوں کو منفی بیانات سے گریز کرنا چاہئے۔ پی ٹی آئی چیئرمین کا بیان کہ وہ جب دھرنے کی تیاری کرتے ہیں تو ملک میں ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں انتہائی افسوس ناک ہے۔ اس ضمن میں اس بات کو مِدنظر رکھنا انتہائی ضروری ہے کہ یہ دہشت گردی کی جنگ صرف حکومت کو ہی نہیں ہم سب کو مل کر لڑنی ہے۔ دشمن کی شکست کے لئے متحدہونا ضروری ہے دشمن کاری ضرب صرف اسی وقت لگاتا ہے جب وہ اپنے ٹارگٹ کو کمزور پاتا ہے۔ دہشت گردوں کا ٹارگٹ کوئی ایک طبقہ یا فرقہ نہیں بلکہ انسانیت ہے اور پاکستان ہے ۔ اس وقت دہشت گردوں کے عزائم کی حوصلہ شکنی کی ضرورت ہے نہ کہ ان کے موقف کو مضبوط کرنے کی۔