تحریر : عماد ظفر
کبھی کبھی موت اتنی ارزاں ہو جاتی ہے کہ کسی کے مرنے پر صرف اعدا و شمار گن کر پھر سے نئی اموات کا انتظار کیا جاتا ہے. کوئٹہ میں خود کش دھماکے نے 70 کے قریب افراد کو موت کی نیند سلا دیا. سول ہسپتال کوئٹہ میں برپا پونے والی یہ قیامت ایک بار پھر وطن کے “سلامتی کے ٹھیکیداروں ” کےکی دعووں کی نفی کرتی دکھائی دی. لیکن ہمیشہ کی طرح اسپن وزرڈز نے مہارت کے ساتھ ٹی وی سکرینوں پر قبضہ جمایا اور اس سانحے کو “را” کے کھاتے میں ڈال دیا.
حیران کن طور پر یہ سارے اسپن وزرڈ جو دفاعی تجزیہ نگار بن کر طوطے کی طرح ایک ہی رٹ لگائے رکھتے ہیں کہ سب را کا کیا دھرا ہے ان میں سے اکثر یا تو ریٹائرڈ جرنیل ہیں یا پھر ریٹائرڈ سرکاری منشی. اس سانحے میں را کا ہاتھ تھا یا کسی اور ایجنسی کا نہ تو مرنے والوں کو اس سے کوئی سروکار ہے اور نہ ہی ان کے لواحقین کو. کم بخت جتنی جلدی بیرونی دشمن طاقتوں کی ایجنسیوں کے ثبوت ہمارے دفاعی اداروں کو مل جاتے ہیں اگر اتنی ہی جلدی دہشت گردوں کے بارے میں معلومات بھی مل جائیں تو کیا ہی اچھا ہو. ہم کیونکہ لاشیں اٹھانے کے اس قدر عادی ہو چکے ہیں کہ بس چپ چاپ لاشیں اٹھاتے ہیں اور اگلی لاشوں کے گرنے کا انتظار کرتے ہیں.اسی لیئے تو ہر اذیت ناک سانحے کے بعد بے گناہ نہتے افراد کا لہو بھی ہماری آنکھیں کھولنے سے قاصر ہے.اس قدر خون ریزی کے بعد دشمن کی کمر توڑ دی اور نوے فیصد علاقہ دہشت گردوں سے خالی کروانے کے بیانات ایک طرف انتہائی بھونڈے اور بے معنی ہیں تو دو سری طرف ان کو من و عن تسلیم کرنے والے بھی عقل و دانش سے عاری ہیں.
دہشت گردی کے خلاف آپریشن اگر بلا تفریق ہوا ہوتا تو ہم چارسدہ میں یا بلوچستان میں یوں خون کی ہولی نہ دیکھ رہے ہوتے.سال رواں میں اب تک دہشت گرد حملوں میں مرنے والوں کی تعداد 400 کے لگ بھگ ہے.یعنی دہشت گردی کا عفریت جوں کا توں موجود ہے. اور اس کی ایک بڑی وجہ ہماری قومی سلامتی کی وہ پالیسی ہے جسے ہم تبدیل کرنے پر ہرچند آمادہ نہیں. اس پالیسی کے تحت حقانی نیٹ ورک اور طالبان کے دیگر دھڑوں کی افغانستان میں مدد کرنا اور وطن عزیز میں جہادی اور شدت پسندی تنظیموں کی مدد کرنا پاکستان کی سرحدوں کی حفاظت کو یقینی بناتا ہے اور عالمی طاقتوں کی پاور گیم میں ایک اہم کھلاڑی بھی بناتا ہے.البتہ اس کی قیمت عام بے گناہ اور نہتے شہری اپنے جسم کے چیتھڑوں کی صورت میں ادا کرتے ہیں. بلوچستان کی اپنی ایک اہمیت ہے .بلوچ علحدگی پسندوں کی تحریک کی وجہ سے امن و امان ایف سی کے ذریعے برقرار رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے.اور ہو سکتا ہے بھارت افغانستان ایران یا کسی بھی ایسے ملک کی ایجنسی کا اس میں ہاتھ ہو جس کو ہم سے شکایتیں ہیں.لیکن کیا سلامتی کے ٹھیکیداروں کی زمہ داری یہ نہیں ہے کہ وہ ایسے حملوں کی پیشگی اینٹیلیجنس معلومات رکھیں. اور آفرین ہے اس قوم پر جو سڑکیں خراب ہونے یا سیلاب آنے کی صورت میں وزیر اعظم اور وزرائے اعلی سے استعفے طلب کرتے ہیں لیکن ایسے سانحات کے بعد گونگوں کی طرح چپ کر کے آنکھیں موند لیتے ہیں.
جن کا کام ان حملوں کی روک تھام اور دہشت گردوں کو جہنم واصل کرنا ہے ان کی کوتاہی پر ایک لفظ تک نہیں بولتے. زندگی ایک نعمت ہے اور اس کا یوں قدم قدم پر ضائع ہونا یہ بنیادی سوال اٹھاتا ہے کہ کیا شہریوں کے جان و مال کی حفاظت ریاست کی پہلی ترجیح نہیں ہے؟ چلییے مال کی حفاظت تو چھوڑیے اگر جان کی حفاظت بھی نہ مہیا ہو تو پھر ایک عام شہری کا ریاست کے ساتھ وابستگی یا وفادار رہنے کا کیا جواز بنتا ہے؟ یہ طالبان اور ان کے حمایتی اور دیگر جہادی تنظیمیں جو کشمیر کی آزادی سے لیکر دہلی کے لال قلعے پر پاکستانی پرچم لگانے کی بات کرتے ہیں کیا ان کو ریاستی امداد ملنا بند نہیں ہو سکتی؟ اگر تو کشمیر شدت پسند جماعتوں کے ساتھ اشتراک سے آزاد کروایا جا سکتا تو یہ کام بہت پہلے ہو سکتا تھا. ستر برس کی یہ ناکام پالیسی اگر آج بھی ہم نے ترک نہیں کرنی تو ایسے لاتعداد سانحات برپا ہوتے رہیں گے. اگر طالبان کی افغانستان میں پشت پناہی جاری رہے گی تو یہ ناممکن ہے کہ وہاں سے کوئی جواب نہ آئے. سمجھ میں نہیں آتا کہ آخر داد رسی کیلئے کس کے پاس جائیں کس کو جا کر جناح کا پاکستان دکھائیں جو لہو لہو ہے جس کے چہرے پر اتنے زخم ہیں کہ ان زخموں کے باعث اس کی شناخت بھی ناممکن ہو چکی ہے.
جناح نے کب یہ کہا تھا کہ ہمیں ایک دفاعی ریاست بننا ہے اور اقوام عالم کو بزور شمشیر فتح کرنے کیلئے شدت پسند نظریات اور تنظیمیں قائم کرنی ہیں. ہم عجیب لوگ ہیں یقین کیجئے ہم اپنے ہاتھوں سے اپنے گھر کو جلاتے ہیں اپنے ہم وطنوں کو بارود کے ڈھیر میں خاکستر بناتے ہیں اور پھر خود ہی نوحہ کناں بھی ہوتے ہیں. کشمیر فلسطین میں ہونے والی زیادتیوں ہر غیض وغضب کا شکار ان کی آزادی کے نعرے مارتے خود اپنے ہموطنوں کی لاشوں کو نظر انداز کر دیتے ہیں.دفاعی پالیسیوں میں غلطیاں ہوتی ہیں یہ ایک فطری بات ہے لیکن غلطی ایک یا دو بار ہوتی ہے بار بار نہیں.بار بار شدت پسندوں اور جہادیوں کے زریعے پراکسی وارز دوسروں کی سرزمین پر کرنے کے بعد آخر کیسے ہمارے پالیسی ساز یہ تصور بھی کر لیتے ہیں کہ وہاں سے کوئی جواب نہیں آئے گا. بین الاقوامی اور ملکی میڈیا اس حملے کو خود کش قرار دے کر کبھی شدت پسند گروہوں اور کبھی بیرونی سیکیورٹی ایجنسیوں کو اس سانحے کا مرتکب ٹھہرا رہا ہے.
خود کش حملہ تو یہ تھا اور اس مکروہ فعل کو سرانجام دینے والے کسی بھی بیرونی ملک یا اپنے پالے ہوئے شدت پسند اور جہادی سانپ ہو سکتے ہیں لیکن اس واقع کی فرد جرم ان پالیسی سازوں کے نام کٹنی چاھیے جو حفاظتی پروٹوکول میں بیٹھ کر یا بنکرز کے پیچھے بیٹھ کر ایسی داخلی اور خارجی قوی سلامتی کی پالیسیاں بناتے ہیں جن کے نتیجے میں یہ واقعات رونما ہوتے ہیں.اس ملک میں جہاد قتل عام دوسرے ممالک اور کفار کو نیست و نابود کرنے کی تعلیمات عام کرنے والے مزہبی اسکالر ہوں یا تجزیہ نگار ان سب پر بھی سانحہ کوئٹہ کی فرد جرم عائد ہوتی ہے. ہر سانحے کے بعد یہ جو شہید ہونے کا لقب یا عام شہریوں اور قوم کا حوصلہ بلند ہونے کے بیانات اور پیغامات داغے جاتے ہیں یا پھر فوٹو سیشن کیلئے ہسپتالوں کا رخ کیا جاتا ہے یہ سب اب بند ہونا چائیے. سول ہسپتال کوئٹہ ہو باچا خان یونیورسٹی یا آرمی پبلک سکول یا ایسے لاتعداد واقعات ان تمام سانحات میں مرنے والے نہ تو گھر سے کوئی جنگ لڑنے گئے تھے اور نہ ہی ان کو کسی شدت پسند درندے کے ہاتھوں مر کر اپنی بہادری ثابت کرنی تھی.نہ جانے کب قومی سلامتی کے ٹھیکیداروں کو یہ بات سمجھ آئے گی کہ موت کو گلوریفای کرنا دراصل زندگی سے منہ موڑنے کی دعوت دینا ہے.
اس سوچ کو بدلنے کیلئے گانے تیار کرنے کے بجائے سب سے پہلے ہتھیاروں کے بل پر دنیا مسخر کرنے کے نظریات کا پرچار بند کرنا ازحد ضروری ہے. خیر جب یہ پالیسی آج تک تبدیل نہیں ہوئی تو اب کیوں ہو گی .لیکن 14اگست کو جشن آزادی مناتے دفاعی پالیسی سازوں اور دیگر ہموطنوں سے کوئٹہ سانحے میں جاں بحق ہونے والے افراد کے لواحقین کی خالی آنکھیں خاموش سوال ضرور کریں گی. کہ یہ کیسی آزادی ہے جس میں جب اور جہاں چاہے وہاں شدت پسند تنظیمیں یا پھر بیرونی ایجنسیاں سینکڑوں افراد کو کیڑے مکوڑوں کی طرح مسل کر قتل کر دیتے ہیں. اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں جیسے ملی نغموں پر لوحقین سوال ضرور کریں گے کہ پرچم کا سایہ کیا صرف دفاعی اور سیاسی اشرافیہ کیلئے ہی ہے جہاں ان کی جان و مال محفوظ بھی ہے اور سلامت بھی. یہ وطن تمہارا ہے سے مراد کیا صرف قومی سلامتی کے ٹھیکیداروں سے ہے کہ یہ وطن تمہارا ہے ہم ہیں خوامخواہ اس میں. ویسے بھی بلوچستان کے حصے میں سبز ہلالی پرچم میں سے نہ تو سبز رنگ آیا اور نہ ہی سفید بلکہ آج تک ان کے حصے میں اس پرچم کا ڈنڈا ہی آیا ہے. اور ڈنڈا بردار پالیسی سازوں کو اس گلی سڑی پالیسی کو اب دفن کر کے پالیسی بنانے کا کام ان کو دینا چاھیے جن کا یہ کام ہے.
سری لنکا جیسے ملک نے بھی دہائیوں تامل دہشت گردوں سے جنگ لڑی اور کامیاب ہوا جس کی وجہ صرف یہ تھی کہ سری لنکن دفاعی اور سویلین پالیسی سازوں نے اچھے اور برے دہشت گردوں کی تفریق کیئے بنا مکمل طور پر تامل باغیوں کے خلاف کریک ڈاون کیا اور نتیجتا یہ جنگ سری لنکا جیت گیا. اب سانحہ کوئٹہ جیسے واقعات کی روک تھام اسی صورت ممکن ہے جب شدت پسندی اور جہادی کلچر کی حوصلہ شکنی کی جائے اور دہشت گرد چاہے وہ کسی بھی جماعت گروہ یا دھڑے سے ہوں ان کے خلاف بھرپور کاروائی کی جائے. وگرنہ پاکستان اسی طرح بارود کے ڈھیر میں جلتا رہے گا اور مورخ لکھے گا کہ قومی سلامتی اور قومی وقار کے ٹھیکیدار اس وقت بھی نیرو کی طرح بنسری بجاتے ہوئے آنکھیں موندھے آرام فرما رہے تھے.
تحریر : عماد ظفر