تحریر : شہزاد سلیم عباسی
آج پھر دل خون کے آنسو رو رہا ہے۔ کوئٹہ خون میں لت پت اور پاکستان کی فضاء سوگوار ہے ۔ہر دل رنجیدہ ہے کہ آخر کیوں یہ دہشت گر بار بار معصوم لوگوں کی جانیں لے رہے ہیں؟ کیا انہیں خدائے وحدہ بزرگ وبرتر کا خوف نہیں ہے؟ کیا انہیں احترام انسانیت کا نہیں پتہ؟ کیا یہ لوگ لاشعوری طور پر یابرین واش ہو کر یہ کام کر رہے ہیں؟ سوال یہ ہے کہ پوری دنیا میں دہشت گردی کے واقعات میں نمایاں کمی واقعی ہوئی ہے لیکن پاکستان سانحات اور حادثات کا گھڑ بن چکا ہے۔
سانحہ رونما ہونے کے بعد ہماری پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی پھرتیاں دیکھنے والی ہوتی ہیں لیکن ایسے واقعات رونما ہونے کیبعد مستقبل کی تیاری کے بجائے کھوکھلے نعرے لگانے میں مصروف رہتے ہیں۔ کاروائی کی یقین دہانی کرا کر خرگوش کی نیند سو جاتے ہیں اور دشمن پلٹ پلٹ کر وار کرتا ہے ،ہم سہتے ہیں اور صرف سہتے ہیں۔ ہم سانحہ آرمی پبلک سکول سمیت مختلف دردناک حادثات کو اپنے بوجھل سینے کیساتھ قبول کرلیتے ہیں۔اپنی کمزوریوں کا اعتراف کر کے آئندہ لوگوں کی جان ومال کے تحفط یقنی بنانے اور مجرموں اور دہشت گردوں کے خلاف کاروائی کی طفل تسلیاں بھی دیتے ہیں۔مجرموں کا قلع قمع کر کے اپنے سر پر تاج سجانے کی کوشش کرتے ہیں!۔جرائم کو کنٹرول کرنے کے ببانگ دہل بلند و بانگ دعوے کرتے ہیں۔ ہم تحقیقاتی ٹیم بنا کر پاکستان جیسی عظیم قوم کو لولی پاپ دیتے ہیں۔
ایک پر ایک کمیشن اور وقتی ڈرامہ کر کے واقعے پر سے توجہ ہٹانے کی کوشش کرتے ہیں۔ پاکستانی تاریخ کے بڑے انسانی سانحات کو اگر دیکھیں تو ہمیں اپنے حکمرانوں سے انصاف کی امید ماند پڑھتی نظر آتی ہے۔سانحہ آرمی پبلک سکول کے کالے کردار کہاں ہیں جنہوں نے معصوم شمعوں کو بجھا دیا ؟ سانحہ صفورا گوٹھ کے واقعے میں ملوث دہشت گرد کدھر ہیں؟سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والے دوحافظ بچوں کے قتل میں ملوث ڈی پی او کو کیوں بچا لیا گیا؟مانسہرہ میں زندہ جلائی جانے والی لڑکی کے قاتل کہاں ہیں؟بے گناہ شاہ زیب کو ہم نے رسوا کیوں کیا؟بے نظیر قتل میں مک مکا کیوں ہوا؟ لاہور سمیت ملک بھر میں اغوا کار معصوم جانوں سے گھناؤنا کھیل رہے ہیں اس سنگ دل گینگ اور انڈرولڈ کے پیچھے کس کا ہا تھ ہے کچھ معلوم نہیں ؟ میں قتل کے بیسیوں کیسز سے آگاہ ہوں کہ مدعیان بیچارے سڑ مر جاتے ہیں اور قاتل دھندناتے پھر رہے ہوتے ہیں ۔میں وثوق کیساتھ کہہ سکتاہوں کہ پاکستان کے تقریبا ہر تھانے اور ہر عدالت میں بغیر سفارش، رشوت اورسیاسی اثرورسوخ کے کام نہیں ہوتا ! جس طرح ہمارا عدالتی سسٹم کمزور اور سست روی کا شکار ہے بلکل ایسے ہی ہمارا لاء اینڈ انفورسمنٹ سسٹم ڈھیلا پڑھ چکا ہے ۔یہ ایک حکومت کی بات نہیں ہے بلکہ من حیث القوم ہم اندر سے کمزور ہیں!دوغلے ہیں ! وجہ صرف یہ ہے کہ ہم بھارت ، امریکہ اور ان جیسے بڑے کرداروں کو معاف کردیتے ہیں !غریب کسان کے بہ نسبت کسی بااثر شخص کا ساتھ دیکر غریب کا گلہ گھونٹتے ہیں۔
ہمارے ہاں ایک مجرم جانتا ہے کہ میں عزت واحترام کیساتھ بری ہو جاؤں گا، ائیرپورٹ پر عزت سے رخصت کر دیا جاؤں گا یا کسی طرح فائل ہی کلوز کروادونگا۔ ہم بنیادی طور پر تذبذب کا شکار معاشرہ ہیں ۔ ہم اپنے گھر باہر، دفتر، دکان، انفرادی یا اجتماعی ، کارکن یا حکمران سب کے سب Double Minded ہیں۔ ہمارے اذہان افراتفری کا شکار ہیں ۔ہمارے قلوب واجسام تشویش کا شکار ہیں۔ راء اور سی آئی اے کے پیچھے پڑھ جائیں تو پاکستان اور تورا بورا طالبان کی طرف سے توجہ ہٹا لیتے ہیں۔کہیں دھماکہ ہو جائے تو نظریں بلیک واٹر ، میتھیو وغیرہ سے کنارا کر جاتی ہیں۔سائبر کرائم کے لیے بل منظور کراتے ہیں تو ٹی وی اخبار سے نظریں چرا لیتے ہیں۔
حقوق نسواں کی بات کرتے ہیں تو محنت کشوں کے حقوق بھول جاتے ہیں۔Quo-Educaiton کی بات کرتے ہیں توغریب کی تعلیم کے لیے آواز بلند کرنے کو ضروری نہیں گردانتے۔ کسی امیرزادے، نوابزادے، سفارشی کا کام تو کردیتے ہیں، اسکے قاتلوں کو تو پکڑ لیتے ہیں ! مگر کسی غریب ہاری، محنت کش مزدور، اور بے آسرا کو دروازے پر سے ٹھوکر مار کر ہٹاتے ہیں اور اور علاقے میں ایم این اے ، ایم پی اے اور منسٹر کی سرپرستی میں ہونے والے ظلم پر چپ سادھ لیتے ہیں!ہم کسی ماڈل ، لیجنڈ یا مشہور شخصیت کے بھیانک قتل پر تو چیخ و پکار کرتے ہیں لیکن کسی مظلوم کا کان ، ہاتھ پاؤں ، زبان کاٹنے پر واویلے نہیں مچاتے۔ دہرے معیارات کا عالم یہ ہے کہ ووٹ مانگتے وقت تو کارکنان کی چوکھٹ پر دستک دستک دے دے کر ووٹ کے حصول کے لیے کوشش کرتے ہیں لیکن جیتنے کے بعد پارٹی لیڈرکارکنان کو جاننے سے منکر ہو جاتے ہیں۔
ہمارے حکمران جب حلف اٹھاتے ہیں تو اللہ کو گواہ بناتے ہیں کہ میں وزیر اعلیٰ کے بعد ملک و قوم کی تقدیر بدل دونگا لیکن بعد میں وہ اپنی جیب کی قسمت بدلنے میں مصروف نظر آتے ہیں۔ حالیہ نومنتخب وزیر اعلیٰ نے اسمبلی میں گونج کر کہا کہ اب میرا پروٹوکول نہیں ہو گا لیکن مراد علی شاہ تو اپنے جاہ جلال اور شنشہانہ پروٹوکول میں اضافہ کر کے غلام ابن غلام ذہنیت کے شہکار نظر آرہے ہیں۔ ملک کی اکثر سیکیورٹی فورسز تو وی آئی پی ڈیوٹی پر ہیں عوام کیا خیال کون رکھے گا؟ آئے روزظلم وستم کی مثالیں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا تصویروں اور ویڈیوز کی شکل میں ڈسپلے کر تے ہیں۔
میں نے اپنے پچھلے کالم میں بھی سسٹم میں بہتری کی بات کی تھی کہ جب تک ہم اپنی گورننس ، عدلیہ ، قانون نافذ کرنے والے اداروں میں بہتری نہیں لائیں گے تو کچھ بھی نہیں ہوسکے گا ہمارا ! ہم مارے جاتے رہیں گے! دہشت گرد ہم پر چلبازی سے وار کرینگے اور ہم ہاتھ پر ہاتھ دھر ے بیٹھے رہیں گے۔
آج ضرورت اس امر کی ہے کہ سفارش ، رشوت ، بد دیانتی دہشتگردی جیسے لعنتوں سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے عہد کریں کہ اب ظلم ، ناانصافی ،زیادتی کرنے والے کسی مذہبی آؤٹ فٹ ، سیاسی جماعتوں میں موجود دہشت گرد عناصر، کسی را، موساد ، بلیک واٹر یا سی آئی اے کو نہیں بخشا جائے گا۔بالخصوص ہر مدرسے میں موجود مذہبی سافٹ آؤٹ فٹ کو صاف کرنا ضروری ہے۔ ہر سیاسی جماعت میں دہشت گردی کے گروپوں کو Crush کرنا ہے اور ہراندرونی و بیرونی طاقت کے ہتھکنڈے کو سختی سے نمٹنا ہے۔ اب آپریشن کلین اپ، جنرل ہولڈ اپ ، ریڈز، کمیشن ، نیشنل ایکشن پلان اور کومنبگ آپریشن سب پرانے طورطریقے ہیں ، وقت آگیا ہے کہ ہر مجر م کو بلا تفریق و بلا تقسیم موقع پر سزا ہو۔اگر ایسا ممکن نہ ہوسکا تو ہم ایسے سانحہ کوئٹہ جیسے واقعات کو ہمیشہ کیطرح بار بار اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھیں گے!!
تحریر : شہزاد سلیم عباسی
! 0333 -3133245
shahzadsaleemabbasi@gmail.com