تحریر:علی عمران شاہین
یہ عمر حیات محل ہے جسے گلزار منزل بھی کہتے ہیں” چنیوٹ شہر کے وسط میں واقع ایک عالیشان عمارت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے دوستوں نے بتانا شروع کیا۔عمارت کے باہر عمر حیات لائبریری کا بورڈ نصب تھا اور خستہ حال عمارت کی تزئین نو بھی جاری تھی۔ محل کی تعمیر و تاریخ کے حوالے سے باہر دروازے لگی تختی پڑھنا شروع کی تو اندازہ ہوا کہ دریائے چناب کے بائیں کنارے آباد پنجاب کے قدیم ترین چنیوٹ شہر کی کہانی تو ہزاروں سال پرانی ہے لیکن اس محل کی کہانی تقریباً 100سال پرانی ہے۔ کہتے ہیں چنیوٹ کا لفظ ”چن” اور ”اوٹ” یعنی ”چاند کے پیچھے ”سے لیا گیا ہے۔پنجاب کے36ویں ضلع کا اعزاز پانے والے چنیوٹ کی اس کے معدنی ذخائر کی وجہ سے آج ہر طرف دھوم ہے تو یہاںکئی تاریخی عمارتیں بھی موجود ہیں۔
چنیوٹ کا تاج محل کہلانے والے اس گھر کے مالک شیخ عمر حیات کلکتہ کا رہنے والا برصغیر کا ایک مایہ ناز تاجر تھا۔ وہ 100سال پہلے کلکتہ سے چنیوٹ منتقل ہوا تو اس نے یہاں اپنی سخاوت کی خوب دھاک بٹھائی۔ کہتے ہیں کہ چنیوٹ آنے کے بعد شیخ عمر حیات شام کو بازار میں بیٹھ جاتا اور آتے جاتے لوگوں میں پیسے بانٹنے شروع کر دیتا۔ کرتے کرتے اندھیرا چھا جاتا تو یہ سلسلہ ختم ہوتا۔ ایسے ہی کسی لمحے وہاں سے لکڑی کے ایک کاریگرالٰہی بخش پرچھا کا گزر ہوا۔ کسی نے شیخ عمر حیات کو بتایا کہ یہ وہ شخص ہے جس کے ہاتھوں مضبوط ٹاہلی کی لکڑی بھی موم ہو جاتی ہے اور وہ اسے جیسے چاہتا ہے، موڑ دیتا ہے اور من چاہی شکل دے دیتا ہے۔
اس جیسا کوئی کاریگر نہیں۔ تمہاری دولت ختم ہو جائے گی، الٰہی بخش کے فن کی مہارت ختم نہیں ہو گی۔ اور تو اور ملکہ برطانیہ بھی اپنے بکنگھم محل کی تزئین و آرائش اسی کاریگر سے کرانے کی خواہش مند ہے۔ شیخ عمر حیات نے سنا تو خاموش ہوا۔ پھر اس نے اپنی نوعیت کا سب سے عالیشان گھر بنانے کا فیصلہ کیا۔ خطے کے معروف و ماہر انجینئر سید حسن شاہ کو تعمیر کا ٹھیکہ ملا، جس نے برصغیر بھر سے ہر شعبہ تعمیر کے ماہر کاریگر اکٹھے کئے اور پھر محل کی تعمیر شروع ہو گئی۔ شیخ عمرحیات نے لکڑی کے کام کیلئے الٰہی بخش پرچھا پر ہی انحصار نہ کیا بلکہ ساتھ دوسرے ماہر ترین کاریگر رحیم بخش پرچھا کو بھی ذمہ داری سونپی۔
1923 میں محل کی تعمیر کا آغاز ہوا۔ 10 سال کا عرصہ گزرا۔ 4لاکھ کا زرکثیر خرچ ہوا،تب شیخ عمر حیات کو بتایا گیا کہ 5منزلہ محل تیار ہے اور بس صرف ایک آخری کونہ رہ گیا ہے، جسے آپ نے محل میں قدم رکھ کر اپنے ہاتھوں سے مکمل کر کے محل کا افتتاح کرنا ہے لیکن… محل کی جانب قدم اٹھانے سے پہلے شیخ عمر حیات اچانک موت کے منہ میں چلا گیا۔ شیخ عمر حیات کی وفات کے بعد عرصہ 15سال یہ محل ویران پڑا رہا تاآنکہ اس کی بیوہ پہلے چنیوٹ اپنے اکلوتے بیٹے گلزار کو جوان ہوتے ہی لے کرکلکتہ سے محل میں منتقل ہوئی۔ 15 سال سے ویران پڑا محل اسے بہت افسردہ اور تاریک دکھائی دیتا۔
سو اس نے محل کو آباد کرنے کے لئے اپنے بیٹے کی شادی کی تیاریاں شروع کر دیں کہ اس محل کو آباد اور خوشیوں سے آباد کیا جائے۔ شادی کے کارڈ چھپے، جو لوگوں نے پہلے کبھی نہ دیکھے تھے۔ شہر ہی نہیں بلکہ برصغیر کے کونے کونے سے رئوساء اور امراء کو شادی پر مدعو کیا گیا۔ سارے غم و الم بھلانے کیلئے کروفر، آن بان شان اور پورے تزک و احتشام سے بارات کے ساتھ گھر میں دلہن آ گئی… اگلے روز ولیمہ تھا…اس شب شہر کا الگ ہی رنگ ڈھنگ تھا۔ ہر طرف رنگ و نور کی برسات تھی۔ اس رات گلزار غسل خانے میں داخل ہوا تو اچانک وہیں گر کر موت کی آغوش میں چلا گیا… دیر تک گلزار باہر نہ آیا تو دروازہ توڑ کر اس کی لاش نکالی گئی اور پھر… کیا ماحول، کیا حالات ہوں گے…؟ بیان سے باہر ہے… ماں پر اکلوتے بیٹے کی یوں موت کے لمحے کیسے گزرے ہوں گے…؟
بیان ممکن نہیں۔ بس اس نے ایک ہی جملہ ادا کیا ” میرے بیٹے کی قبر محل میں ہی بنا دو… ”اور پھر… ہر طرف اندھیرا چھا گیا… شادی پر آئے لوگوں نے ہی جنازہ ادا کیا اور مغموم دل لئے واپس چل پڑے… شوہر کی ناگہانی موت کے بعد ماں اکلوتے بیٹے کے غم میں اسی دن دماغی توازن کھو بیٹھی اور پھر… سال بھر محل کی دیواروں سے ٹکریں مارتی بیٹے کی قبر سے لپٹ کر روتی اور چنیوٹ کی گلیوں میں دیوانہ وار دوڑتی نظر آتی۔ یوں ایک سال بعد ماں بھی وفات پا گئی۔ لوگوں نے ماں کی قبر بیٹے کے ساتھ ہی بنا دی۔ کچھ عرصہ محل ویران رہا تو رشتہ داروں نے محل پر قبضہ جما لیاتو جلد ہی سب نے محل کو منحوس اور آسیب زدہ قرار دے کر راہ فرار اختیار کر لی۔ پھر کئی دہائیاں گزریں… محل ویران پڑا رہا۔
لوگ اس کی جانب نگاہ اٹھا کر دیکھنے سے بھی ڈرتے تھے کہ کہیں ان پر کوئی آفت نہ ٹوٹ پڑے۔ سو یہاں یتیم خانہ بنایا گیا لیکن اسے بھی جلد بند کر دیا گیا۔ اس کے بعد محل پھر قبضہ مافیا کے پاس چلا گیا۔ کہتے ہیں کہ 1983ء میں چنیوٹ میں ایک مرتبہ کالی آندھی آئی تو اس بلند و بالا محل کی آخری 2 منزلیں اڑا لے گئی۔ یوں اس محل سے لوگ اور بھی زیادہ خوفزدہ رہنے لگے۔پھر 1989ء میں محل سرکاری تحویل میں لے کر اسے لائبریری بنانے کا فیصلہ ہوا اور پھر اسے ہر عام و خاص کیلئے کھول دیا گیا۔
آج محل کے عین بیچوں بیچ لکڑی سے بنے احاطے میں ماں بیٹے کی قبریں تومتصل ہی لائبریری کا دفترہے۔ لوگ سیر کے لئے آتے ہیں۔حسب روایت محل کو آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھتے، تعریفی جملے زبانوں سے ادا کرتے اور پھر الٹے قدموں واپس چلے جاتے ہیں۔
برصغیر کا نرالا بانکپن اور کروفر رکھنے والے اس خاندان کے ٹھاٹھ باٹھ کے ساتھ رہنے کے لئے بنائے گئے اس محل میں بنی قبروں سے شاید ہی کوئی اس دنیا کی بے ثباتی کا سبق لے کر جاتا ہو کہ زندگی کا آخر انجام یہی ہے۔ سیر کا حکم اللہ نے دیا تو گزرے لوگوں کے حال سے سبق کے لئے دیا۔ ہر انسان ہی دنیا میں عموماً چند باتوں کیلئے جدوجہد کرتا ہے، اس کا نام اونچا ہو… اس کا گھر اعلیٰ ہو… اس کا لباس عمدہ ہو… اس کا کھانا پینا باکمال ہو… لوگ اسے یاد کرتے رہیں… لیکن مرنے کے بعد تو بڑے سے بڑے نام والے کو بھی گھرکے لوگ بھی چند دن بعد بھول جاتے ہیں…
عمدہ گھر قبر قرار پاتا ہے (وہ بھی اگر نصیب ہو جائے) عمدہ لباس انتہائی کمتر کپڑے والے کفن سے بدل جاتا ہے…عمدہ کھانا کھانے والے جسم کو کیڑے مکوڑے کھانا شروع کرتے ہیں اور وہی پیٹ جسے انسان بھرنے کیلئے کتنے جتن کرتا ہے، قبر میں سب سے پہلے پھٹ جاتا ہے… آنکھیں جو دنیا کی رعنائیوں اور چکا چوندھ روشنیوں سے کبھی بھرتی نہیں، وہ موت کا سامنا کرتے ہوئے سب سے پہلے بند ہوتی ہیں۔ قبر میں مردے کے ساتھ جو حالت پیش آتی ہے اس سلسلے میں حضورۖ نے فرمایا: بے شک میری امت آزمائی جاتی ہے اگر مجھے اندیشہ نہ ہوتا کہ تم اپنے مردوں کو دفن کرنا چھوڑ دو گے تو میں اللہ سے دعا کرتا کہ تمہیں وہ کچھ سنوا دے جو میں نے سنا ہے۔
مسلم اس کا کچھ حال گزشتہ ہفتے ایک جنازے میں جاتے ہوئے قبرستان کے پڑوسیوں نے سنایا کہ یہاں ایک ایک قبر میں کئی کئی مردے دفن ہیں۔ شہر میں دفن کی جگہ نہیں، پختہ قبروں پر پابندی ہے۔ جس قبر پر دعا کیلئے چند مہینے رشتہ دار و لواحقین نہ آئیں… گورکن قبر کو کھود کر ہڈیاں کسی اور جگہ دفن کرتے اور قبر 25ہزار میں فروخت کر دیتے ہیں۔ انہی قبروں میں روزانہ اپنے پیاروں کو دفن کرنے کیلئے لانے والے ہم لوگ کیا کبھی اپنے بارے میں بھی یہ سوچتے ہیں کہ ہم نے بھی یہاں ایسے ہی آنا ہے
آتے ہوئے اذاں ہوئی اور جاتے ہوئے نماز
اتنے قلیل وقت کے لئے آئے اور چل دیئے
تحریر: علی عمران شاہین