تحریر: شاہ بانو میر
دعائیں تقدیر بدل دیتی ہیں ٬
یہ سچ ہے ٬ قرآن پاک کو ترجمے سے پڑھنے سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ بعض اوقات انبیاء اکرام کیسی خطرناک خوفناک صورتحال سے دوچار ہوتے تھے ٬ ایسے میں حضرت آدم سے شروع ہونے والے عمل “” دعا “” کی سنت نے ان کی پریشانی کو ختم کیا٬
ہم اپنے تئیں لاکھ کوشش کر میں مگر ہم دین کو اس انداز میں نہیں سمجھ سکتے جیسے کوئی استاد ہمیں سمجھاتا ہے٬
اسی طرح دعاؤں کو ما،نگنے کے بہترین اوقات مقامات انداز الفاظ عاجزی یہ سب ایک استاد سکھاتا ہے٬ دنیا کی تعلیم کو ہم اولیت دے کر خود کو اس سے مزین کرتے ہیں کہ ہم اپنی ساخت کو دلکش دیدہ زیب بنائیں۔
مگر اس میں آخرت کا حصہ اور سوچ ہم نہیں رکھتے
یہ کامیابی ہمیں ملتی ہے جب ہم اللہ پاک سے رابطے کا مستقل ذریعہ “” دعا “” کو اختیار کرتے ہیں٬
ہر انسان خوبصورت واسطہ رکھتا ہے اللہ سے مگر یہ تعلق اور خوبصورت ہو جاتا ہے نکھر جاتا ہے جب استاد آپکو بتائے کہ کس انداز سے آپ اس میں اور نکھار لا سکتے ہیں ٬ اللہ کا اور قرب حاصل کر سکتے ہیں ٬
دعائیں مانگئے ھر لمحہ ہر گھڑی کہ نجانے کونسا لمحہ قبولیت کا ہو اور بخشش مل جائے ٬
دعا وہ سرگوشی ہے جو زمین میں سجدے میں انسان کرتا ہے اور بہت اوپر آسمان پر اللہ سنتا ہے ٬ خوبصورت تعلق اللہ کا بندے سے جس کیلیۓ کسی تار کی وائی فائی کی اور کسی اور انسانی واسطے کی ضرورت نہیں محسوس ہوتی۔
قرآن پاک میں اولاد کیلئے کامیابی کیلئے پریشانی کیلیۓ خوشحالی کیلیۓ عبادت میں خضوع و خشوع کیلئے راہ ہدایت پانے کیلئے انصاف کے ساتھ تمام معاملات کو احسن انداز میں پورا کرنے کیلئے ٬ گناہوں سے دوری کیلئے نیکیوں کو بڑھانے کیلئے ٬ اطاعت اللہ اور اطاعت رسولﷺ کیلئے خوشنودی الہیٰ کیلئے فہم و فراست کیلئے آخرت میں کامیابی کیلئے جنت کے حصول کیلئے وفات پا جانے والے رشتے داروں کے بلند درجات ،کیلئے والدین کے لئے جنگ میں دشمن کے خوف سے نجات کیلئے فتح و نصرت کیلیۓ استقامت کیلئے صدقہ جاریہ بننے کیلئے نیک حاکم کیلئے امت مسلمہ کیلئے٬
الغرض ہر موضوع پر اللہ نے انسانوں کی رہنمائی کیلئے قرآنی دعاؤں کو بیان کیا ہے٬ تا کہ ہم بعد میں آنے والے انہیں پڑھ کر اللہ کے دیے گئے ان الفاظ کو آج بھی استعمال کر کے کامیاب نتائج حاصل کریں٬۔
قرآن پاک کا ترجمہ پڑہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ دراصل نبیوں کی تعلیم کے دوران اللہ کاحتمی مقام اسکا بلند مرتبہ اور”” کُن”” کی خاصیت پر ان کا مکمل یقین قائم کرنے کیلئے انہیں دعا کا طریقہ سکھایا گیا٬ اور دعا سے حاصل کامیاب نتائج دکھائے ٬ تمام انبیاء کو ہر مشکل میں اللہ پاک کی جانب سےجو حروف سکھائے گئے انہیں دعا کہا جاتا ہے ٬٬۔
جن میں اپنی غلطیوں پے استغفار کرنے کو کہا گیا کہ استغفار اللہ کو بہت پسند ہے٬
حضرت آدم ؑ کی دعا پہلی دعا شمار کی جاتی ہے جو جنت کے ممنوعہ پھل کھانے کے بعد اللہ کی ناراضگی کے بعد انہیں سکھائی گئی ٬ جسے اللہ پاک نے قبول کیا اور انہیں معاف کر دیا٬۔
اس ابتداء کامقصد تھا کہ رہتی دنیا تک قیامت تک یہی سنت چلے گی کہ آدم کی فطرت پر نسل نے بڑھنا ہے تو غلطیاں ہوں گی ٬ انسان خوبیوں اور خامیوں کا مرقّع ہے٬ مگر غلطیوں کے بوجھ سے روح کو آزاد کر کے ہلکا پھلکا کرنے کا یہ بہترین انداز ہے کہ اپنے رب کے آگے جھک جاؤ خشیعت کے ساتھ اور اظہار ندامت کرو توبہ کی صورت اور وہ 70 ماؤں سے زیادہ محبت کرنے والا بار بار قرآن ُپاک میں ہمیں مخاطب ہو کر کہ رہا ہے کہ میں بخشنے والا مہربان ہوں ٬ مجھ سے بخشش مانگو ۔
بے شمار گناہوں کے ساتھ انسان سچے دل سے تائب ہو اور دو نفل ادا کر کے اپنے رب کے سامنے عاجزی سے استغفار کرے تو اس کا رب اسکو معاف کر دیتا ہے٬
حضرت سلیمان ؑ السلام کو اللہ پاک نے بہت بڑی سلطنت سے نوازا انہیں ہواؤں پرحکمرانی دی چرند پرند کی بولیاں سمجھنے کی صلاحیت عطا کی٬ جِنوں جیسی سرکش غصیلی قوم کو ان کے تابع کیا٬ اور سب سے بڑی نعمت کہ اس بے شمار وسیع و عریض سلطنت اور ان بے حساب نعمتوں کا کوئی حساب نہیں لیا جائے گا٬ سبحان اللہ
بے شک وہ جسے چاہے بے شمار عطا کر دے ٬ حضرت سلیمان اللہ پاک سے ہمیشہ دعا کی صورت اظہار تشکر کرتے تھے ٬ ان کی دعا قرآن پاک میں موجود ہے٬
حضرت یونس ؑ مچھلی کے پیٹ میں تھے تو مایوس نہیں تھے اپنے ربّ کی قدرت پر یقین تھا مچھلی کے پیٹ میں انہیں دعا سکھائی گئی کہ کیسے اللہ پاک ان پر مہربانی کر سکتا ہے اور پھر دعا کی کثرت اور اللہ پر ایمان نے انہیں مچھلی کے پیٹ سے نجات دی٬ وہ دعا آج بھی مسلمان کسی بھی پریشانی کی صورت پڑھتے ہیں٬ یہ دعا بھی قرآن پاک میں موجود ہے٬۔
حضرت ایوب ؑ السلام روایت ہے کہ 18 یا اس سے بھی زائد عرصہ شدید تکلیف میں مبتلا رہے ٬ جسم سے پیپ نکلتی کہ اولاد چھوڑ گئی دوست احباب سب کراہت کرتے اور دور ہوتے گئے٬ صرف بیوی خدمت کرنے پاس رہی٬ حضرت ایوب اس طویل بیماری میں بھی ہمہ وقت اللہ کا شکر ادا کرتے رہتے تھے ٬ بلاآخر ان کی دعائیں قبول ہوئیں اور انہیں اس تکلیف دہ بیماری سے نجات ملی ٬ اور مسلسل دعا میں شکر ادا کرنے والے اس صابر نبی کو انعام و اکرام میں آسمان سے نازل کی گئی سونے کی ٹڈیاں ملیں ٬ دعا پورے عزم یقین ایمان کے ساتھ مانگیں انشاءاللہ بہترین وقت پر قبول ہوگی٬ قرآن پاک میں یہ دعا موجود ہے٬
حضرت یوسفؑ السلام پر جب عزیز مصر کی بیوی نے دولت کے غرور میں دعویٰ کیا کہ انہیں وہ کرنا ہوگا جو وہ چاہتی ہے بصورت دیگر جیل بھیجے جائیں گے٬ حضرت یوسفؑ نے اپنے رب کے حضور عاجزی سے دعا کی کہ انہیں قید زیادہ عزیز ہے ٬ ان کی دعا قبول کی گئی ٬ اور وہ کئی سال قید میں رہے اور دوران قید مایوس نہیں ہوئے اللہ سے دعا میں مشغول رہے٬ سورت یوسف میں یہ دعا موجود ہے۔
اور اس صبر کا صلہ انہیں بعد میں مصر کی حکومت کی صورت ملا٬ انعام میں عرصہ دراز کے بعد والد سے اللہ نے ملا دیا ٬
ایسے واقعات اور بروقت دعاؤں سے پتہ چلتا ہے کہ نبیوں کو یہ سکھانے کا مقصد ان کی امت کو بتانا تھا کہ جب زندگی میں ایسے واقعات رونما ہوں تو دنیا کے لوگوں سے نہیں اپنے سچے پاک رب سے دعا کرو تاکہ تم سے وہ تکلیف وہ آزمائش دور کر دی جائے ٬ غم کو خوف کو صدمے کو دکھ کو دباؤ کو اس طریقے سے خود سے دور کیا جا سکتا ہے٬
حضرت موسیٰ ؑ کی زندگی نافرمان قوم اور سامنے موجود وقت کے جابر حاکم کی وجہ سے شدید مشکلات کا شکار تھی زبان لکنت کا شکار تھی۔
آپکی وہ دعا آج ہر اہل علم علم کی کسی بھی کوشش سے پہلے ضرور پڑھتا ہے کیونکہ یہ دعا اللہ پاک کی جانب سے انہیں سکھائی گئی لہٰذا اس کا اثر آج بھی ہر مانگنے پر دکھائی دیتا ہے ٬ قرآن پاک میں ان کی دعا موجود ہے٬
حضرت ابراہیم ؑ کا ذکر قرآن پاک کی چند سورتوں کے سوا ہر سورت میں ان کی بچپن سے کی گئی قربانیوں اور کوششوں کی وجہ سے ہے٬ ان کی بہت سی دعائیں ہیں
مگر خانہ کعبہ کی بنیاد حضرت اسمعیٰل کے ساتھ اٹھاتے ہوئے مکہ شہر کو امن کا رزق کی فراوانی کا منبع بنا دینے کی دعا ایسی مقبول ہوئی کہ رہتی دنیا تک وہاں فراخی کا دور دورہ رہے گا٬۔
حضرت محمدﷺ کی زندگی اور 23 سالہ وحی کا دور قرآنی سورتوں میں پرانے انبیاء کے تزکروں میں دوران مشکل ان کو سکھائی گئی دعاؤں کو اسی لئے محفوظ انداز میں وحی کی صورت قلمبند کروا دیا کہ ہم ان کے تراجم پر غور کر کے ہر نبی کی زندگی میں پیش آنے والے مختلف انداز کے واقعات اور ان کی پریشانی کے عین مطابق اللہ سے مدد کو سمجھ کر اپنی زندگی میں ان دعاؤں کو شامل کریں زندگی کی کامیابی اور ہماری نجات انہی دعاؤں کی محتاج ہے٬
دعا دراصل عاجزی کا اپنی کم مائیگی کا ذریعہ ہے ٬ اللہ پاک کی طاقت پر یقین اور اپنی مشکل کیلیۓ ان کی مدد کا طریقہ ہے ٬ جو اللہ پاک کو بہت اچھا لگتا ہے کہ بندہ عاجزی کے ساتھ اپنے خالق کی برتری کو تسلیم کر کے اس سے مدد کا خواستگار ہو٬
صبح و شام کے اذکار کی صورت کتابیں آپکو بازار سے عام مل جاتی ہیں جن کے اندر قرآنی اور نبی پاکﷺ کی مختلف اوقات میں مانگی ہوئی دعاؤں کا خوبصورت ذخیرہ ہے جو فجر کے بعد پڑھنے اور عصر کے بعد پڑھنے کی تاکید کی گئی ہے٬۔
قرآنی دعاؤں میں کمی بیشی کا ہمیں کوئی اختیار نہیں اس لئے محتاط ہو کر خشیعت کے ساتھ دعاؤں کو پڑہیں کہ یہ آپ کے لئے نجات کی ضامن بن سکیں ٬
اللہ پاک ہمیں ہر حال میں بیکار بحث و مباحثے سے بچا کر صرف قرآن و حدیث پر سچے انداز میں عمل پیرا کر کے روز محشر ہمارا نامہ اعمال دائیں ہاتھ میں تھامنے والا بنا دے(٬ آمین )۔ وآخر الدعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔
تحریر: شاہ بانو میر