تحریر : شاہ بانو میر
شروع اللہ کے نام سے جو بے انتہا مہربان اور رحم فرمانے والا ہے ـیٰس قسم ہے قرآن حکیم کی ٬ کہ تم یقینا رسولوں میں سے ہو٬ سیدھے راستے پر ہو٬ ( اور یہ قرآن) غالب اور رحیم ہستی کا نازل کردہ ہے٬ تا کہتم خبردار کرو ایک ایسی قوم کو جس کے باپ دادا خبردار نہ کیے گئے تھے ـ٬ اور اس وجہ سے وہ غفلت میں پڑے ہوئے ہیں ٬ ان میں سے اکثر لوگ فیصلہ عذاب کے مستحق ہو چکے ہیں٬ اسی لیے وہ ایمان نہیں لاتے٬ ہم نے اُن کی گردنوں میں طوق ڈال دیے ہیں ٬ جن سے وہ ٹھوڑیوں تک جکڑے گئے ہیں ٬ اسی لیے وہ سر اٹھائے کھڑے ہیں ٬ ہم نے ایک دیوار اُن کے آگے کھڑی کر دی ہے٬ اور ایک دیوار اُن کے پیچھے٬ ہم نے انہیں ڈھانک دیا ہے٬ انھیں اب کچھ نہیں سوجھتا٬ اُن کے لیے یکساں ہے تم انہیں خبردار کرو یا نہ کرو٬ یہ نہ مانیں گے٬ تم تو اسی شخص کو خبردار کر سکتے ہو٬ جو نصیحت کی پیروی کرے ٬ اور بے دیکھے خُدائے رحمان سے ڈرے٬ اُسے مغفرت اور اجرِ کریم کی بشارت دے دو٬ ہم یقینا ایک روز مُردوں کو زندہ کرنے والے ہیں جو کچھ افعال انہوں نے کیے ہیں٬ وہ سب ہم لکھتے جا رہے ہیں٬ اور جو کچھ آثار انہوں نے پیچھے چھوڑے ہیں٬
وہ بھی ہم ثبت کر رہے ہیں٬ ہر چیز کو ہم ایک کھلی کتاب میں درج کر رکھا ہے٬ انھیں مثال کے طور پر بستی والوں کا قصہ سناؤ جبکہٌ اُس میں رسول آئے تھے٬ ہم نے اُن کی طرف دو رسول بھیجے٬ اور انہوں نے دونوں کو جھٹلا دیا٬ پھر ہم نے تیسرا مدد کے لیے بھیجا٬ اور ان سب سے کہا= ہم تمہاری طرف رسول کی حیثیت سے بھیجے گئے ہیں٬ بستی والوں نے کہا٬ تم کچھ نہی ہو مگر ہم جیسے چند انسان ٬ اور خُدائے رحمان نے ہرگز کوئی چیز نازل نہیں کی ہےتم محض جھوٹ بولتے ہو٬ رسُولوں نے کہا ہمارا ربّ جانتا ہےہم ضرور تمہاری طرف رسول بنا کر بھیجے گئے ہیں٬اورہم پر صاف صاف پیغام پہنچا دینے کے سوا کوئی ذمہ داری نہیں ہے٬بستی والے کہنے لگے٬ہم تو تمہیں اپنے لیے فالِ بد سمجھتے ہیں٬اگر تم باز نہ آئے توہم تم کو سنگسار کر دیں گے٬اورہم سے تم بڑی دردناک سزا پاؤ گے
٬رسولوں نے جواب دیاتمہاری فالِ بد تو تمہارے اپنے ساتھ لگی ہوئی ہے٬کیا یہ باتیں تم اس لیے کرتے ہو٬ کہ تمہیں نصیحت کی گئی ہے٬ اصل بات یہ ہے کہ تم حد سے گزرے ہوئے لوگ ہو٬ اتنے میں شہر کے دور دراز گوشے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آیا٬ اور بولا٬ اے میری قوم کے لوگو!!! رسولوں کی پیروی اختیار کرلو٬ پیروی کرو ـ اُن لوگوں کی جو تم سے کوئی اجر نہیں چاہتے اور ٹھیک راستے پر ہیں٬ٌ آخر کیوں نہ میں اُس ہستی کی بندگی کروں٬ جس نے مجھے پیدا کیا ہے٬ اور جس کی طرف تم سب کو پلٹ کر جانا ہے؟ کیا میں اُسے چھوڑ کر دوسرے کو معبود بنالوں ٬ حالانکہ اگر خُدائے رحٰمن مجھے کوئی نقصان پہنچانا چاہےتو نہ اُن کی شفاعت میرے کسی کام آسکتی ہے اور نہ وہ مجھے چھڑاہی سکتے ہیں ـ٬ اگر میں ایسا کروں گا تو میں صریح گمراہی میں مُبتِلا ہو جاؤں گا٬میں تو تمہارے ربّ پر ایمان لے آیا ٬ تم بھی میری بات مان لو (آخر کار اِن لوگوں نے اس کو قتل کر دیا٬)
اس شخص سے کہ دیا گیا کہ “” داخل ہو جا جنت میں ) اُس نے کہا ٬ ٬٬ کاش میری قوم کو یہ معلوم ہوتا کہ میرے ربّ نے کس چیز کی بدولت میری مغفرت فرما دی ٬ اور مجھے باعزت لوگوں میں داخل فرمایا اُس کے بعد اُس کی قوم پر ہم نے آسمان سے کوئی لشکر نہیں اتارا٬ ہمیں لشکر بھیجنے کی کوئی حاجت نہ تھی٬ بس ایک دھماکہ ہوا اور یکایک وہ سب بجھ کر رہ گئے ٬افسوس بندوں کے حال پر جو رسول بھی ان کے پاس آیا اُس کا وہ مذاق ہی اڑاتے رہے ـ٬ کیا انہوں نے دیکھا نہیں٬کہ اُن سے پہلے کتنی ہی قوموں کو ہم ہلاک کر چکے ہیں٬اوراس کے بعد وہ پھر کبھی ان کی طرف پلٹ کر نہ آئے ؟ان سب کو ایک روز ہمارے سامنے حاضر کیا جانا ہے٬ان لوگوں کے لیے بے جان زمین میں ایک نشانی ہے٬ ہم نے اُس کو زندگی بخشی اور اس سے غلّہ نکالا ٬ جسے یہ کھاتے ہیں٬ ہم نے اس میں سے کھجوروں اور انگوروں کے باغ پیدا کیے٬ اور اس کے اندر سے چشمے پھوڑ نکالے٬ تا کہ یہ اس کے پھل کھائیں ٬ یہ سب کچھ ان کے اپنے ہاتھوں کا پیدا کیا ہوا نہیں ہے٬پھر کیا یہ شکر ادا نہیں کرتے؟ پاک ہے وہ ذات جس نے جملہ اقسام کے جوڑے پیدا کیے٬ خواہ وہ زمین کی نباتات میں سے ہوں
٬یا خود ان کی اپنی جنس (یعنی نوعِ انسانی) میں سے یا ان اشیاء میں سے جن کو یہ جانتےتک نہیں ہیں ٬ ان کے لیےایک اور نشانی رات ہے٬ ہم اس کےاوپر سےدن ہٹا دیتے ہیں ـ ٬ تو ان پراندھیرا چھا جاتا ہے٬ اور سورج وہ اپنے ٹھکانے کی طرف چلا جا رہا ہے٬ یہ زبردست علیم ہستی کا باندھا ہوا حساب ہے٬اور چاند اس کے لیے ہم نےمنزلیں مقررکر دی ہیں٬یہاں تک کہ اُن سےگزرتا ہوا پھر کھجورکی سوکھی شاخ کی مانند رہ جاتا ہے٬ نہ سورج کے بس میں یہ ہےکہ چاند کو جا پکڑے اور نہ رات دن پر سبقت کے جا سکتی ہے ٬ سب ایک ایک فلک میں تیر رہے ہیں٬ اُن کے لیے یہ بھی ایک نشانی ہے٬ کہ ہم نے ان کی نسل کو بھری ہوئی کشتی میں سوار کر دیا٬اور پھر ان کے لیے ویسی ہی کشتیاں اور پیدا کیں٬ جِن پر یہ سوار ہوتے ہیں٬ ہم چاہیں تو ان کو غرق کر دیں کوئی ان کی فریاد سننے والا نہ ہو اور کسی طرح یہ نہ بچائے جا سکیں٬ بس ہماری رحمت ہی ہے جو ان کو پار لگاتی اور ایک وقتِ خاص تک زندگی سے متمتع ہونے کا موقع دیتی ہے٬ ان لوگوں سے جب کہا جاتا ہے٬ کہ بچو اُس انجام سے جو تمہارے آگے آرہا ہے٬ اور تمہارے پیچھے گزر چکا ہے٬ شائد کہ تم پر رحم کیا جائے٬
( تو یہ سنی ان سنی کر جاتے ہیں) ان کے سامنے ان کے ربّ کی آیات میں سے جو بھی آیت بھی آتی ہے یہ اس کی طرف التفات نہیں کرتے٬ اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ نے جو رزق تمہیں عطا کیا ہے ٬ اُس میں سے کچھ اللہ کی راہ میں بھی خرچ کرو٬ تو یہ لوگ جنہوں نے کُفر کیا ہے٬ ایمان لانے والوں کو جواب دیتے ہیں٬ کیا ہم اُن کو کھلائیں جنھیں اگر اللہ چاہتا تو خود کھِلا دیتا٬ تم تو بالکل بہک گئے ہو٬ یہ لوگ کہتے ہیں٬ کہ قیامت کی دھمکی آخر کب پوری ہوگی٬ ؟ بتاؤ اگر تم سچّے ہو٬ دراصل یہ جس چیز کی راہ تک رہے ہیں٬ وہ بس ایک دھماکہ ہے٬ جو یکایک انھیں اس حالت میں دھر لے گا ٬ جب یہ ( اپنے دینوی معاملات میں ) جھگڑ رہے ہوں گے٬ ) اور اُس وقت یہ وصیت تک نہ کر سکیں گے٬ نہ اپنے گھروں کو پلٹ سکیں گے٬ پھر ایک صور پھونکا جائے گا٬ اور یکایک یہ اپنے ربّ کے حضور پیش ہونےکے لیے اپنی اپنی قبروں سے نکل پڑیں گے٬ گھبرا کر کہیں گے٬
ارے یہ کس نے ہمیں ہماری خوابگاہ سے اٹھاکھڑا کیا٬ ؟ یہ وہی چیز ہے جس کا خُدائے رحٰمن نے وعدہ کیا تھا٬ اور رسولوں کی بات سچی تھی ٬ ایک ہی زور کی آواز ہوگی٬ اور سب کے سب ہمارےحضورحاضرکر دیے جائیں گے٬ آج کسی پر ذرّہ برابر ظلم نہ کیا جایا جائے گا اور تمہیں ویسا ہی بدلہ دیا جائے گا جیسے تم عمل کرتے رہے تھے٬ آج جنتی لوگ مزےکرنے میں مشغول ہیں٬ وہ اور اُن کی بیویاں گھنے سایوں میں ہیں مسندوں پر تکیے لگائے ہوئے٬ ہر قسم کی لذیذ چیزیں کھانے پینے کو ان کے لیے وہاں موجود ہیں ٬ جو کچھ وہ طلب کریں ٬اُن کے لیے حاضر ہے٬ ربّ رحیم کی طرف سے ان کو سلام کہا گیا ہے٬ اور اے مجرمو آج تم چھٹ کر الگ ہو جاؤ ٬ آدم کے بّچو! کیا میں نے تم کو ہدایت نہ کی تھی٬ کہ شیطان کی بندگی نہ کرو٬ وہ تمہارا کھلا دشمن ہے٬ اور میری ہی بندگی کرو٬ یہ سیدھا راستہ ہےمگر اس کے باوجود اس نے اُس نے تم میں سے ایک گروہِ کثیر کو گمراہ کر دیا٬ کیا تم عقل نہیں رکھتے تھے؟ یہ وہی جہنم ہے جس سے تم کو ڈرایا جاتا رہا تھا٬ جو کُفر تم دنیا میں کرتے رہے ہو٬ اُس کی پاداش میں اب اس کا ایندھن بنو٬ آج ہم ان کے منہ بند کیے دیتے ہیں٬ ان کے ہاتھ ہم سے بولیں گے٬ اور ان کے پاؤں گواہی دیں گے٬ کہ یہ دنیا میں کیا کمائی کرتے رہے ہیں
٬ ہم چاہیں تو ان کی آنکھیں موند دیں٬ پھر یہ راستےکی طرف لپک کر دیکھیں ٬ کہاں سے انہیں راستہ سجھائی دے گا؟ ہم چاہیں تو انھیں ان کی جگہہ ہی پر اس طرح مسخ کر کے رکھ دیں٬ کہ یہ نہ آگے چل سکیں نہ پیچھے پلٹ سکیں ٬ جس شخص کو ہم لمبی عمر دیتے ہیں٬ اس کی ساخت کو ہم الُٹ ہی دیتے ہیں (کیا یہ حالات دیکھ کر ) انہیں عقل نہیں آتی ؟ ہم نے اس( نبی) کو شعر نہیں سکھایا ہے اور نہ شاعری اس کو زیب ہی دیتی ہے٬ یہ تو ایک نصیحت ہے اور صاف پڑہی جانے والی کتاب ٬ تاکہ وہ ہر اس شخص کو خبردار کر دےجو زندہ ہو٬ اور انکار کرنے والوں پر حُجت قائم ہو جائۓ٬کیا یہ لوگ دیکھتے نہیں ہیں، کہ ہم نے اپنے ہاتھوں کی بنائی ہوئی چیزوں میں سے ان کے لیے مویشی پیدا کیے ہیں اور اب یہ اُن کے مالک ہیں ٬ ہم نے انہیں اس طرح اُن کے بس میں کردیا ہے کہ اُن میں سے کسی پر یہ سوار ہوتے ہیں ٬ کسی کا یہ گوشت کھاتے ہیں٬ اور اُن کے اندر اِن کے لیے طرح طرح کے فوائد اور مشروبات ہیں٬ پھر کیا یہ شکر گزار نہیں ہوتے٬؟ یہ سب کچھ ہوتے ہوئےانھوں نے اللہ کے سوادوسرےاور خُدا بنا لیے ہیں٬
یہ امید رکھتے ہیں٬ کہ اِن کی مدد کی جائے گی٬ وہ ان کی کوئی مدد نہیں کر سکتے٬ بلکہ یہ لوگ الٹے ان کے لیے حاضر باش لشکر بنے ہوئے ہیں٬ اچھا ٬ جو باتیں یہ بنا رہے ہیں٬ وہ تمہیں رنجیدہ نہ کریں ٬ ان کی چھپی اور کھلی سب باتوں کو ہم جانتے ہیں٬ کیا انسان دیکھتا نہیں ہے کہ اسے ہم نے نطفہ سے پیدا کیا٬ اور پھر وہ صریح جھگڑالو بن کرکھڑا ہو گیا؟ اب وہ ہم پر مثالیں چسپاں کرتا ہے٬ اور اپنی پیدائش کو بھول جاتا ہے٬ کہتا ہے ٬٬ کون اِن ہڈیوں کو زندہ کرے گا جبکہ یہ بوسیدہ ہوچکی ہوں ٬٬ اس سے کہو٬ انہیں وہی زندہ کرےگا٬ جس نے پہلے انہیں پیدا کیا تھا٬ اور وہ تخلیق کا ہر کام جانتا ہے ٬ وہی جس نے تمہارے لیے ہرے بھرے درخت سے آگ پیدا کردی ٬ اور تم اُس سے اپنی آگ روشن کرتے ہو٬ کیا وہ جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا٬ اِس پر قادر نہیں ہے ـ کہ ان جیسوں کو پیدا کرسکے؟ کیوں نہیں جبکہ وہ ماہرِ خلّاق ہے٬ وہ تو جب کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تواس کا کام بس یہ ہے کہ اِسے حُکم دے کہ ہو جا اور وہ ہو جاتی ہے٬ پاک ہے وہ جس کے ہاتھ میں ہر چیز کا مکمل اقتدار ہے٬ اور اُسی کی طرف تم پلٹائے جانے والے ہو
تحریر : شاہ بانو میر