تحریر: راؤ اسامہ
قرآن پاک میں سورہ حم سجدہ کی تین آیات جو میں سمجھتا ہوں کہ سوشل میڈیا پر موجود سب لوگوں کو عموماً اور سیاسی و مذہبی اختلافات پہ بات کرنے والوں کو خصوصاً ہمیشہ مدنظر رکھنی چاہئیں، ملاحظہ کیجیے:
*اور اے نبیؐ! نیکی اور بدی یکساں نہیں ہیں تم بدی کو اُس نیکی سے دفع کرو جو بہترین ہو، تم دیکھو گے کہ تمہارے ساتھ جس کی عداوت تھی وہ جگری دوست بن گیا ہے. یہ صفت نصیب نہیں ہوتی مگر اُن لوگوں کو جو صبر کرتے ہیں اور یہ مقام حاصل نہیں ہوتا مگر اُن لوگوں کو جو بڑے نصیب والے ہیں اور اگر تم شیطان کی طرف سے کوئی اکساہٹ محسوس کرو تو اللہ کی پناہ مانگ لو، وہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے*
سوشل اور الیکٹرانک میڈیا پر اکثر یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ سیاسی جماعتوں کے کارکنان آپس میں انتہائی لغو اور بھونڈی زبان استعمال کرتےہیں، اسی طرح مذہبی شدت پسند لوگ لبرل اور سیکولر طبقہ کے خلاف یہ رویہ رکھتےہیں.
اس سے متعلق اللہ پاک فرماتے ہیں کہ تم برائی کو نیکی سے رفع کرو، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ سے کئی مثالیں لی جاسکتی ہیں کہ آپ نے طاقت ہوتے ہوئے بھی دشمنوں کو معاف کردیا. ہم تو طاقت نہ رکھتے ہوۓ بھی ذرا ذرا سی باتوں پہ بھڑک اُٹھتے اور اگلے بندے کی ایسی تیسی کرنے کو تیار ہوجاتےہیں.
پھر فرمایا کہ یہ صفت قسمت والوں کو ہی نصیب ہوتی ہے ، واقعتاً حق اور سچ پہ ہوتے ہوئے دوسرے کے جھوٹ کو برداشت کرنا اور صبر سے اس کا سامنا کرنا ایک عظیم صفت ہے جو صرف خوش نصیب ہی اپنا سکتےہیں جیسا کہ اللہ رب العزت نےفرمایا.
آخری چیز یہ کہ اگر بندے میں یہ صفت پیدا ہوجاۓ تو پھر اس کے اوپر قائم رہنا بہت محنت اور حوصلے کا کام ہے ، شیطان ہر لمحہ انسان کو اکساۓ رکھتا ہے کہ تم تو درست کہ رہے ہو، تمہارے پاس تو دلائل کا اور طنز کا انبار ہے، لگاؤ دو چار اس کے کان کےنیچے… لہٰذا برائی کو نیکی سے ختم کرنا گویا دشمن کو دوست بنا لینا اور خوش نصیب لوگوں کا کام قرار دےدیا گیا. آئیے میں اور آپ مل کر سوچیں کہ ہمیں دشمنوں کو دوست بنانا ہے یا نئے دشمن پیدا کرنے ہیں…!
تحریر: راؤ اسامہ