تحریر : اختر سردار چودھری، کسووال
مؤرخین کی اکثریت کا کہنا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیدائش مبارک عام الفیل ( جِس سال ابرہہ ہاتھیوں کے ساتھ خانہ کعبہ پر حملہ آور ہوا تھا) اْس سال میں ہوئی لیکن تاریخ پیدائش میں اختلاف ہے، مثلاَ بعضَ 8 ربیع الاول، 9 ربیع الاول اور12 ربیع الاول کہتے ہیں اور پیدائش کا دِن سوموار ہے، اس پر سب متفق ہیں (صحیح مْسلم)۔ درست تاریخ پیدائش 22 اپریل 571 بروز سوموار یعنی 9 ربیع الاول 53 ق ھجری ہے ۔جبکہ کشیرعلماء نے 12ربیع الاول پر ہی اتفاق کیا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے والد عبداللہ آپ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی پیدائش سے پہلے ہی فوت ہو چکے تھے ، ثویبہ اورحلیمہ سعدیہ نے آپ ۖ کو دْودھ پِلایا ۔بنی سعد میں4 سال بسر فرمائے ۔ اور وہیں رہنے کے دوران آپ ۖ کے مشق الصدرکو کھولے اور دھوئے جانے کا واقعہ پیش آیا ۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم 6سال کے ہوئے تو اْن کی والدہ اْن کو لے کر مدینہ روانہ ہوئیں اور راستہ میں الابواء کے مْقام پر وفات پا گئیں ۔دو سال دادا عبدالمطلب نے کفالت کی، جب وہ فوت ہوگئے توچچا ابو طالب نے آپ کی کفالت و پرورش کا ذمہ لیا۔پچیس (25 ) سال کی عمر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کا نکاح اْم المومنین حضرت خدیجہ بنت الخویلد رضی اللہ عنہا سے ہوا ۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پچیس سال بسر فرمائے۔
آپ ۖ غارِ حراء میں جانے لگے اور 40 سال کی عمر میں اللہ نے وحی نازل فرمائی ( اقرَا بِاسمِ رَبِّکَ الَّذِی خَلَقَ ) نزول وحی کے بعد اپنے گھر تشریف لے گئے ،مارے خوف کے آپ کا مشق الصدر اچھل رہا تھا، حضرت خدیجہ کو ساری داستان سنائی جس پر انہوں نے تسلی دی اور کہا اللہ کی قسم وہ کبھی آپ کو رسوا نہیں کرے گا ،آپ صلہ رحمی کرتے ہیں ، سچ بولتے ہیں ، لوگوں کا بوجھ اٹھاتے ہیں اور مصائب پر لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔
اللہ کا حْکم ملنے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اللہ کی توحید کی دعوت کا آغاز فرمایا ۔حضرت ابو بکر الصدیق رضی اللہ عنہْ ،حضرت عْثمان ، حضرت طلحہ ، اور حضرت سعد رضی اللہ عنہم اجمعین، حضرت اْم المؤمنین خدیجہ رضی اللہ عنھانے سب سے پہلے نے اِسلام قْبْول کیا۔بچوں میں سے حضرت علی رضی اللہ عنہْ نے اسلام قبول کیا تھا۔پھر آپ ۖ کی مخالفت شروع ہوئی ۔حضرت سْمیہ اور اْنکے خاوند حضرت یاسر رضی اللہ عنہما کوشہید کر دیا گیا ، یہ اِسلام کے پہلے شہید ہیں ۔اس کے بعد جب مکہ والوں نے زیادہ تکلیف دینا شروع کر دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کو حبشہ ہجرت کرنے کا حکم دے دیا۔
حبشہ کی طرف 80 مردوں اور ایک عورت نے ہجرت کی ۔نبوت کے دسویں سال آپ ۖ کے چچا حضرت ابو طالب اور حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ فوت ہو گئیں۔طائف تشریف لے گئے وہاں ظْلم و جور کا سامنا کرنا پڑا۔اِس کے بعد سفر معراج پیش آیا ۔نبوت کے 11 ویں سال میں حج کے لیے آنے والے قبیلہ خزرج کے ایک وفد کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مْلاقات ہوئی ۔وہ لوگ مْسلمان ہو گئے اور اِسلام کی دعوت لے کر مدینہ المنورہ چلے گئے ،اور اْن کی دعوت پربہت سے مسلمان ہوئے۔نبوت کے12 ویں سال میں مدینہ سے مْسلمانوں کے ایک گروہ نے آ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی جسے بیعتِ عْقبہ الا ْولیٰ کہتے ہیں۔ایک سال بعد مْصعب بن عْمیر رضی اللہ عنہْ کے ساتھ بہت سے مسلمان مدینہ سے مکہ آئے۔
انہوں نے اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی۔ اِس بیعت کو بیعت عْقبہ الثانیہ کہتے ہیں ۔بعد ازاںسب مْسلمان مدینہ ہجرت کر گئے یہاں تک مکہ میں صِرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابو بکر اور علی رضی اللہ عنہما رہ گئے ۔آپ نے حضرت ابوبکر صدیق کے ہمراہ ہجرت کی ۔ قْباء میں پہنچے ۔وہاں اِسلام کی سب سے پہلی مسجد تعمیر فرمائی ، اور پھر مدینہ تشریف لے گئے ۔مدینہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے سب پہلے مسجدِ نبوی تعمیر فرمائی اور مسجد کی مشرقی جانب اپنی امہات المومنین کے لیے کمرے بنوائے ۔مہاجرین اور انصار میں بھائی چارہ کروایا ، یہودیوں کے قبیلوں بنو النضیر ، بنو القِینْقاع ، اور بنو قْریظہ کے ساتھ معاہدے فرمائے۔
اسی سال شعبان میں اللہ تعالیٰ نے رمضان کے روزے اور زکوة،فِطر ( فطرانہ ) فرض فرمایا ۔ مکہ المکرمہ کو قبلہ مقرر فرمایا ۔غزوہ بدر 17 رمضان سن 2 ہجری میںپیش آیا ،جس میں مسلمانوں کو فتح حاصل ہوئی۔ غزوہ احد،غزوہ بنی نضیر ،غزوہ مریسیع، غزوہ خندق ، غزوہ بنی قریظہ پیش آئے۔اللہ نے سب میں فتح عطا فرمائی ۔سنہ 6 ہجری میں اس وقت پیش آیا، جب آپ اپنے جان نثار صحابہ کے ساتھ عمرہ کے لئے تشریف لے جا رہے تھے، مقام حدیبیہ پر مکہ والوں نے آپ کے ساتھ 10 سال کے لئے صلح کی اور اس سال عمرہ کرنے سے روک دیا۔ فتح خیبریہ محرم سنہ 7 ہجری کا واقعہ ہے۔
ہجرت کے نویں سال آپ ۖ اور صحابہ سن آٹھ(8 )ہجری ، سترہ رمضان ، بروز منگل ، صْبح کے وقت فاتح کی حیثیت سے مکہ المکرمہ میں داخل ہوئے ۔ اس میں 12 کافر قتل ہوئے اور صرف 2 مسلمان شہید ہوئے ۔جب نبی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ المکرمہ داخل ہوئے تو کعبہ کے اِرد گِرد 360 بْت تھے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اْن بتوں کو اپنے ہاتھ میں تھامی ہوئی لکڑی سے مارتے جاتے اور فرماتے جاتے ( اور حق آ گیا اور باطل ہلاک ہو گیا اور باطل ہلاک ہی ہونے والا تھا ) فتح مکہ کے بعد اسلام کی دعوت کے لیے دعوتی وفود ارسال فرمائے ، اور چند دِن قیام فرمانے کے بعد واپس مدینہ المنورہ تشریف لے گئے۔غزوہ حنین شوال سنہ 8 ہجری میں مسلمانوں اور رومیوں کے مابین پیش آیا۔ غزوہ موتہ سنہ 8 ہجری میں مسلمانوں اور رومیوں کے مابین پیش آیا۔غزوہ تبوک سنہ 9 ہجری میں پیش آیا۔
سنہ 9 ہجری کو عام وفود کہا جاتا ہے، کیونکہ اس سال مختلف وفود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور لوگ جوق در جوق دین اسلام میں داخل ہوئے ۔سن 10 ہجری ، 24 ذی القعدہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم کے ساتھ حج کے لیے مکہ المکرمہ کی طرف روانہ ہوئے ۔حجةالوداع جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ 1 لاکھ مسلمانوں نے حج کیا۔ حج پورا فرمانے کے بعد مدینہ المنورہ واپس تشریف لائے ۔حج سے واپسی کے بعد سن گیارہ (١١) ہجری ، صفر کے مہینے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کو جِسمانی تکلیف شروع ہوئی،اپنی بیماری کے دِن حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں گذارے۔ حضرت ابو بکر الصدیق رضی اللہ عنہْ کو حْکم فرمایا کہ لوگوں کی اِمامت کریں ۔بروز سوموار دوپہر سے کچھ دیر پہلے رسول اللہ صلوات اللہ علیہ وسلامہ اپنے رب اللہ سْبحانہْ و تعالیٰ کے پاس بلا لیے گئے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی جسد مْبارک کو اْن کی قمیص میں ہی غْسل دِیا گیا اور غْسل دینے والے ، آپ کے چچا العباس ، العباس کے بیٹے الفضل اور قثم ، اور علی بن ابی طالب ، اْسامہ بن زید ، اوس بن خولی ، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے غْلام شقران رضی اللہ عنہم اجمعین تھے ۔تقریباً آدھی رات کے قریب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کو دفن کر دِیا گیا ، اللہ کی وحی کا دروازہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند ہو گیا۔
تحریر : اختر سردار چودھری، کسووال