فلموں کے سیکوئل بنانے کا رواج ہالی ووڈ سے بالی ووڈ پہنچا۔ بالی ووڈ کی عادت ہے کہ وہ جس چیز کو پکڑ لے اس کی جان جلدی نہیں چھوڑتا اور بھیڑ چال کا نشہ ایسا ہے کہ ہر کوئی کسی بھی ایک فارمولے کے ہٹ ہونے پر اسی کے پیچھے چل پڑتا ہے۔ ایسا ہی کچھ فلموں کے سیکوئل کے ساتھ ہوا۔
2008 کی کامیاب ترین فلم ریس کے ساتھ بھی یہی ہوا جو اس سال کی چوتھی بڑی فلم ثابت ہوئی تھی۔ اب کیوں کہ فلم چل گئی اور پیسہ بھی بنا لیا تو فلم کا سیکوئل تو بنانا بنتا تھا۔ لہٰذا پانچ سال بعد یعنی 2013 میں ریس 2 آئی اور ٹھیک ٹھاک کمائی کر گئی۔ اب ریس کے دس سال بعد 2018 میں ریس تھری آئی اور پہلی دونوں سے زیادہ چھا گئی اور خوب ڈھیر سارا پیسہ بھی بٹورنے میں کامیاب ہوگئی۔
بالی ووڈ میں فلم کی کامیابی کا جو نیا پیمانہ ایجاد ہوا ہے، اس کے مطابق ریس تھری ایک کامیاب ترین فلم ہے یعنی فلم ایک سو کروڑ کلب میں شامل ہوچکی ہے۔ اس سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ فلم نے 100کروڑ کا ہندسہ صرف تین دن میں ہی عبور کرلیا اور ایسا کرنے والی سلمان خان کی یہ چوتھی فلم ہے۔
لوگ ایسے ہی کہتے ہیں کہ عید تو صرف بچوں کی ہوتی ہے، میرے خیال سے تو عید صرف سلمان خان کی ہوتی ہے، باقی تو بالی ووڈ منہ دیکھتا رہتا ہے۔ باقی دوسرے پروڈیوسرز اور ڈائریکٹرز عید کی تاریخوں میں فلم ریلیز کرنے سے کتراتے ہیں کیونکہ چھوٹی عید تو صرف سلو بھائی کی ہوتی ہے اور کوئی بھی دبنگ خان سے پنگا لینے کی غلطی کبھی نہیں کرتا۔
سلو بھائی کا غصہ سب جانتے ہیں ورنہ سبق سیکھنے کیلئے ویویک اوبرائے کی زندہ مثال تو موجود ہے ہی۔ غصے کے ساتھ ساتھ سلو بھائی کی دوستی اور محبت کی بھی کئی جیتی جاگتی مثالیں موجود ہیں۔ خود ریس تھری میں بوبی دیول کی انٹری ہی دیکھ لیں۔ ریس تھری میں صرف ایک کردار ہی نہیں بلکہ فلم کے ڈائریکٹر سمیت آدھی سے زیادہ کاسٹ ہی تبدیل کردی گئی ہے کیوں کہ سلمان خان کو اپنے من پسند ڈائریکٹرز اور ساتھی اداکاروں کے ساتھ کام کرنا پسند ہے ورنہ آپ بوبی دیول، ڈیسی شاہ اور جیکولین فریننڈس کی اداکاری دیکھ کر اندازہ کر ہی لیں گے کہ فلم کی کاسٹ بہترین اداکاری پر نہیں بلکہ سر پر بہترین ہاتھ کی وجہ سے کاسٹ کی گئی ہے۔
اگر بات فلم کی کہانی کی کی جائے تو ریس فلم سے جڑی کہانی میں عیاری، مکاری، دھوکا اور فریب ہوتا ہے جبکہ جیت چالاکی، ہوشیاری اور بہادری کی ہوتی ہے لیکن اس بار ریس میں ہوشیار، چالاک اور اسٹائلش کھلاڑی سیف علی خان نہیں ہیں بلکہ ان کی جگہ دبنگ خان نے لی ہے جن پر یہ کردار اتنا سوٹ نہیں کیا۔ نہ ہی جیت چالاکی ہوشیاری کی ہوئی بلکہ سلمان خان کے سوفٹ امیج اور خاندان سے محبت کی جیت ہوئی۔ کہانی میں کئی ٹوئسٹ ضرور موجود ہیں، کئی دھوکے بھی ہیں، عیاری بھی ہے اور پرانی فلم کے منجھے ہوئے اداکار انیل کپور بھی ہیں جن کی اداکاری نے ثابت کیا کہ وہ ریس کے ہی کھلاڑی ہیں۔
فلم کی ہدایات ریمو ڈی سوزا نے دیں اور ثابت کردیا کہ وہ اے بی سی ڈی جیسی ڈانس فلموں کی ڈائریکشن تو دے سکتےہیں لیکن ایکشن ان کے بس کی بات نہیں۔ ان سے بہتر ایکشن تو احمد خان نے باغی ٹو میں بھردیا تھا۔ ریس تھری میں سلمان خان کو اونچی بلڈنگ سے چھلانگ لگوائی جاتی ہے اور یہی ایک چھلانگ ہے جو ریس تھری کی ہے ورنہ بائیک کو گھمانے اور دوڑانے کے سینز دیکھ کر ‘جے ہو’ فلم کی یاد آتی ہے۔
جہاں تک موسیقی کا سوال ہے تو اس شعبہ میں بھی کچھ نیا نہیں ہے۔ وہی پرانا ‘اللہ دہائی ہے’ گانا کچھ نئے بول کے ساتھ اور وہ ‘پارٹی سونگ’ بھی ریمکس کر کے ڈال دیا گیا ہے۔ پھر بھی یہ گانے پرانی ریس کے ‘لت لگ گئی’، ‘ذرا ذرا ٹچ می’ اور ‘پارٹی آن مائی مائنڈ’ کا مقابلہ کبھی نہیں کرسکتا۔ پرانی ریس کی طرح اس بار بھی ایک گانا عاطف اسلم کو دیا گیا ہے اور عاطف کا یہ واحد گانا ہے جو آیا اورگیا ہوگیا، کسی نے سنا نہیں اور اس کی بھی ایک بڑی وجہ سلمان خان کی دوست لولیا وینتور ہیں ۔ عاطف کے ساتھ یہ گانا لولیا وینتور نے گایا ہے جو انہوں نے گایا کم اور خراب زیادہ کیا ہے۔ ایک رومانیہ کی خاتون ہندی بھلا کیسے بہتر انداز میں گاسکتی ہیں۔
ریس تھری میں اداکاروں کی اداکاری ہے، نہ موسیقی اور ایکشن کچھ خاص ہے لیکن اس کے باوجود سلمان خان کی موجودگی اور اسٹائل فلم کو خاص اور دیکھنے کے قابل بنا دیتا ہے۔ اگر آپ سلمان خان کے فین ہیں تو آپ کا فلم دیکھنا بنتا ہے اور اگر جاننا چاہتے ہیں ریس تھری میں سلمان خان نے کن کن بےروزگاروں کا کام دیا ہے تو بھی آپ ریس فلم دیکھ سکتے ہیں کیوں کہ سلمان خان کی سخاوت تو ویسے ہی مشہور ہے۔